• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حق و باطل کی لڑائی اگرچہ صدیوں پرانی ہے لیکن یہ ہر دور میں لڑی جاتی ہے المیہ یہ ہے کہ جس وقت یہ لڑی جا رہی ہوتی ہے حالات و مفادات کی اڑائی دھول میں سطح بینوں کو حق و باطل کا فرق واضح سجھائی نہیں دیتا اس لیے وہ اپنی کم نظری، بے بصیرتی یا بعض حالات میں تجاہلِ عارفانہ سے حق کو باطل اور باطل کو حق قرار دے رہے ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس حقائق شناس نظروں سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں رہتا۔ آج آپ امام برحق کے قصیدے پڑھنے میں کس قدر رطب اللسان ہیں اور کتنے واضح ہیں عین ممکن ہے کہ اگر آپ اُس دور میں ہوتے تو بالمقابل کھڑے، دور دور کی کوڑیاں لا کر طرح طرح کی حجتیں تراش رہے ہوتے۔
وطنِ عزیز پاکستان کی 70سالہ تاریخ پر سب سے بھاری سوال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ یہاں جمہوریت اور آمریت کا کھیل کیوں کھیلا جاتا رہا؟ کبھی نام نہاد اسلامائزیشن کے نام پر کبھی کرپشن کے خلاف احتساب کی آڑ میں انتخابات کے التوا کا جواز تراشا گیا یا دھاندلی کے نعرے پر انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کیا گیا۔ جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا اُس وقت قوم کے اجتماعی ضمیر کی آواز کہاں تھی؟ جب قوم کے آئینی و جمہوری قافلے بے دردی سے لوٹے جا رہے تھے تو قومی و سائل پر پلنے والے ادارے کیا رول ادا کر رہے تھے؟ وہ قومی رہبروں کے ساتھ کھڑے تھے یا رہزنوں کے ساتھ؟ قائد کی وفات سے لے کر اکتوبر 58ء کے بڑے شب خون مارے جانے تک کتنی جمہوری حکومتیں آئیں اور چلتی کی گئیں کسی ایک کو بھی میعاد پوری نہ کرنے دی گئی تو اس کے پس پردہ قوت کونسی تھی؟
ہماری 70 برسوں پر محیط سیاسی تاریخ اس صدیوں پرانی جنگلی کہاوت پر گواہ ہے کہ جس کی لاٹھی اُس کی بھینس۔ آج اگرچہ دنیا اکیسویں صدی کے شعوری دور میں داخل ہو چکی ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے جیسے جبر و دھونس کی کارفرمائی والے خطوں میں آج بھی یہی سوچ غالب ہے ورنہ کسے معلوم نہیں کہ کانا انصاف کوئی انصاف نہیں ہوتا۔ قانون ضرور اندھا ہوتا ہے لیکن یہاں قانون کی آنکھیں اتنی کھلی ہیں کہ وہ دیکھ کر پکڑتا ہے کون اسٹیبلشمنٹ کا حمایتی ہے اور کون مخالف؟عوامی قیادت کے حوالے سے یہاں سب سے بڑھ کر جس کی مثال دی جاتی ہے اُس کا ماضی جتنا لتھڑا تھا کیا کوئی جمہوری لیڈر اس کا مقابلہ کر سکتا ہے؟ سب سے شفاف جس کا ماضی قرار دیا جا سکتا ہے وہ وطنِ عزیز کی پہلی خاتون وزیراعظم ہیں ۔ سب جانتے ہیں عملیت پسندی کے تحت قبول کی جانے والی یہ وہ جبری مجبوریاں تھیں جنہوں نے میثاقِ جمہوریت جیسا عظیم الشان کارنامہ سرانجام دینے کے باوجود ان کا پیچھا نہ چھوڑا اور انہیں این آر او کے تحت واپس آنا پڑا اور بالآخر اسٹیبلشمنٹ کے پالتو ہرکاروں نے ان کا قصہ ہی تمام کر دیا۔
اس ڈنک سے تین بار ڈسے جانے والا اگر تجربات کی بھٹی سے کندن یا جہاندیدہ لیڈر بن کر نکلا ہے تو آئین پارلیمنٹ اور جمہوریت کی حد تک تمام جمہوری پارٹیوں اور قیادتوں کو اس کے ساتھ دستِ تعاون بڑھانا بنتا ہے ہماری صحافت و دانش کی قومی ذمہ داری ہے کہ وہ سویلین قیادت کے دوش بدوش کھڑی ہو۔ آج وہ پوری قوم کے سامنے یہ سوال رکھ رہا ہے کہ ہماری 70سالہ تاریخ میں آخر کیوں کبھی کوئی رہزن عدالتی کٹہرے میں نہیں آیا؟ یہاں عوامی رہبر یا وزرائے اعظم تو پھانسی سے لے کر جلا وطنی اور جیلوں کی اذیتوں سے بھی گزرتے رہے۔ کیا آئندہ بھی منتخب نمائندوں کے ساتھ ہی یہ سب کچھ ہوتا رہے گا اور آئین لوٹنے والوں کو اسی طرح چھوڑا جاتا رہے گا ۔ آج یہ شخص اگر اپنے آپ کو ایک نظریہ قرار دیتے ہوئے یہ اعلان کر رہا ہے کہ میں موت سے ڈرتا ہوں نہ جیل جانے سے تو وطنِ عزیز میں جمہوریت کے ارتقا میں یہ سوچ سنگِ میل ثابت ہو سکتی ہے۔ کچھ عجب نہیں کہ عوامی سوچ کا دھارا یکسو ہو کر اس بات پر تل جائے کہ ہماری قومی زندگی کے فیصلے کہیں اور سے نہیں عوامی مینڈیٹ کی پرچی سے ہوں گے۔ یہاں کبھی مائنس بھٹو اور مائنس بے نظیر کی پٹیاں پڑھائی جاتی تھیں آج مائنس نواز شریف کے مطالبات دہرائے جا رہے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ 21نومبر کی شام ہماری منتخب قومی اسمبلی نے بھاری اکثریت سے نواز شریف پر جس اعتماد کا اظہار کیا ہے یہ درحقیقت آئین اور جمہوریت پر ایمان کا اظہار ہے۔ آج اگر کوئی یہ سوچ رکھتا ہے کہ کروڑوں عوام کے منتخب محترم ادارے پر کسی اور ادارے یا مخصوص افراد کو مسلط یا حاوی کر دیا جائے تو یہ قطعی غیر جمہوری ذہنیت ختم ہونی چاہئے۔کوئی کسر رہ گئی ہے تو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر وہ بھی نکال لیں لیکن اسٹیبلشمنٹ کے بوٹ چاٹنے کا وطیرہ ترک کر دیں۔ ایسے کم نظروں کی آخری امید اگر پانچ غیر منتخب افراد ہی ہیں تو پھر کم ازکم یہ جمہوریت کا نام الاپنا ہی چھوڑ دیں کیونکہ جمہوریت میں تو طاقت کا منبع اور اقتدار کا فیصلہ کن سر چشمہ صرف اور صرف عوام ہوتے ہیں جو اپنے نمائندوں یعنی پارلیمنٹ کے ذریعے اسکا اظہار کرتے ہیں۔
آج ہماری خواہش تھی کہ فیض آباد دھرنے پر کالم لکھا جائے جس نے جڑواں شہروں میں آنے جانے والوں کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے اور ظفرالحق رپورٹ آنے کے بعد جس کے مطالبے کا قطعی کوئی جواز نہیں بچا ہے۔ رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ کاغذاتِ نامزدگی میں تبدیلی کا فیصلہ پہلے 16رکنی ذیلی کمیٹی نے اور پھر 34رکنی پارلیمانی کمیٹی نے کیا اور پھر ایوان نے منظوری دی یہ کسی فردِ واحد کا کام نہیں تھا اب تو عدالتِ عظمیٰ بھی یہ کہہ رہی ہے کہ یہ کونسا دین ہے جو لوگوں کو تکالیف پہنچانے راستے بند کرنے اور ایسی بُری زبان استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ آج کہا جارہا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے تو تمام تر تحفظات کے باوجود عدالتی فیصلے پر فوری عملدرآمد کر دیا تھا حالانکہ وہ پارلیمنٹ اُن کے ساتھ کھڑی تھی تمام ریاستی ادارے جس کے ماتحت ہونے چاہئیں۔ ہماری تجویز ہے کہ جج صاحبان اپنے وکلاء کو ساتھ لے کر خود موقع پر پہنچیں اور اپنے قدر دانوں کو سمجھا کر عوامی گزرگاہ سے اٹھائیں۔

تازہ ترین