• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی معیشت پر بیرونی اور اندرونی قرضوں کا دبائو مسلسل بڑھتا جارہا ہے۔ تجارتی خسارہ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ انتہائی قیمتی قدرتی وسائل سے مالا مال ملک پاکستان کی معیشت کم زور کیوں ہے؟
معاشی میدان میں پاکستان کے آگے بڑھنے میں ایک بہت بڑی رکاوٹ سیاسی جماعتوں کا ایک دوسرے کو نیچا دکھانا اور قومی پالیسیوں میں تسلسل کا نہ ہونا ہے۔60ء کے عشرے میں پاکستان کا شمار تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک میں ہوتا تھا۔ اس دور میں دبئی کے حکمران کراچی کی سڑکوں اور ہوٹلز کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ آج دنیا کی دوسری معاشی طاقت چین کے اس وقت کے حکمران وزیراعظم چواین لائی پاکستان کی صنعتی ترقی کے مداح تھے اور چاہتے تھے کہ پاکستان چینی انجینئرز کو تربیت کے مواقع فراہم کرے۔
60ء کے عشرے کی پالیسیاں 70ء کے بعد تبدیل کردی گئیں۔ پہلے صدر اور پھر وزیراعظم ذولفقار علی بھٹو نے پالیسی میں مکمل تبدیلیاں کر کے دنیا بھر میں دم توڑتے سوشلزم یا کمیونزم کے ناکام تجربات پاکستان پر لاگو کیے۔ کئی صنعتیں قومیالی گئیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کئی اچھے اقدامات بھی کئے، ان میں سرفہرست پاکستان کو ایک متفقہ آئین دینا اور ملک کو ایٹمی طاقت بنانے کے پروگرام کے لئے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی سربراہی میں کوششوں کا آغاز شامل ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ان کے اپنے مقرر کردہ جنرل محمد ضیاء الحق نے مارشل لا کے ذریعے ختم کردی۔ جنرل ضیاء نے بھٹو حکومت کی کئی پالیسیوں کو تبدیل کیا لیکن 60ء کے عشرے والی پالیسیوں کو بھی بحال نہیں کیا۔ اس دور میں پاکستان کی صنعتی ترقی اور زرعی خوش حالی کے لئے کوئی خاص کام نہیں ہوئے۔ جنرل ضیاء الحق کے بعد پاکستان میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی حکومتیں آتی رہیں لیکن ان دونوں بڑی جماعتوں کی حکومتوں میں پالیسیوں کے تسلسل پر کبھی کوئی اتفاق نہ ہوا۔ نواز شریف نے جو منصوبے شروع کیے پیپلز پارٹی نے ان کی مخالفت کی، پیپلز پارٹی نے جن منصوبوں کی داغ بیل ڈالی مسلم لیگ نے ان کے بارے میں قوم میں بدگمانیاں پھیلائیں۔ بس ذوالفقار علی بھٹو کا شروع کردہ ایٹمی پروگرام اس روش سے محفوظ رہا۔
اسمبلی میں اکثریت مل جانے اور حکومت بن جانے کے باوجود باہمی جھگڑوں میں پڑے رہنے اور پالیسیوں میں عدم تسلسل کی وجوہات کیا ہیں؟ اس سوال کا جو جواب مجھے سمجھ میں آیا وہ ہے ’’خوف‘‘۔ یہ خوف عموماً اعتماد میں کمی سے جنم لیتا ہے۔ اس کی وجوہات میں اہلیت کا نہ ہونا بھی شامل ہے۔ کسی منصب پر فائز ہونے کے لئے ذہنی، نفسیاتی، علمی اور عملی طور پر اہلیت بھی ضروری ہوتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو بڑے مناصب قوم کے لئے خیر اور فلاح کے بجائے شر اور بربادی کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ ایسے رہبروں پر اعتماد کرنے والی قوم فلاح پانے والوں کے بجائے گمراہوں میں شمار ہونے لگتی ہے۔ کسی نا اہل آدمی کو جہاز کا کپتان بنا دیا جائے تو کیا ہوگا؟ ایسا جہاز کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو مسافروں کے راستے سے بھٹک جانے یعنی گم راہ ہو جانے اور تکلیفوں میں پڑ جانے کے خدشات نہیں ہوں گے؟
عوامی نمائندگی کا اعزاز حکومت سازی کا حق دار تو بنا دیتا ہے لیکن یہ حق مل جانے سے قومی اور حکومتی امور کو چلانے کے لئے مطلوبہ صلاحیتیں اور اہلیت خود بخود پیدا نہیں ہوجاتیں۔ اہلیت کا نہ ہونا بھی حکمرانوں میں خوف کا باعث بنتا ہے۔ خوف کی دو بڑی وجوہات واضح ہوگئیں۔ اول رائے دہندگان کی اکثریت کا اعتماد نہ حاصل کر پانے کا احساس، دوم حکومتی امور کے لئے مطلوبہ اہلیت نہ ہونے کا ادراک۔
جمہوری نظام میں حکومت بنانے کے لئے اسمبلی میں اکثریت لازمی ہے۔ اسمبلی میں دو تہائی سے زیادہ نشستیں مل جانا کسی جماعت کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس دو تہائی اکثریت کے باوجود اس جماعت کو واقعی دو تہائی رائے دہندگان کا اعتماد مل جاتا ہے؟ جی نہیں۔ ہمارے ہاں رائج انتخابی نظام میں کسی حلقے سے اقلیتی ووٹ لینے والا بھی بآسانی منتخب قرار پاسکتا ہے اور ایسا کئی حلقوں میں ہوا ہے۔ اس کا حساب کتاب بہت سادہ ہے۔ فرض کیجیے کہ ایک حلقے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد تین لاکھ ہے۔ وہاں ہونے والے انتخابات میں پانچ امیدواروں نے حصہ لیا۔ حلقے کے پچاس فیصد ووٹرز نے حق رائے دہی استعمال کیا۔ جیتنے والے امیدوار نے ساٹھ ہزار ووٹ حاصل کیے۔ دوسرے نمبر کے امیدوار نے اٹھاون ہزار اور دیگر تین امیدواروں نے بتیس ہزار ووٹ لئے۔ ہارنے والے امیدواروں نے مجموعی طور پر نوے ہزار ووٹ حاصل کیے۔ اس طرح جیتنے والے امیدوار کو ڈالے گئے ووٹوں کی اکثریت تو نہ ملی لیکن وہ عوامی نمائندگی کے لئے کامیاب قرار پایا۔ یہی معاملہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہے۔ اسمبلی میں سادہ تو ایک طرف دو تہائی اکثریت رکھنے والی جماعت پولنگ اسٹیشن آنے والے ووٹرز کی اکثریت کا اعتماد نہیں رکھتی۔
دستیاب اعداد شمار کے مطابق 2013ء کے انتخابات میں آٹھ کروڑ بیالیس لاکھ رجسٹرڈ ووٹرز میں سے چار کروڑ پچاس لاکھ سے زائد نے حق رائے دہی استعمال کیا۔ اس میں سے مسلم لیگ (ن) نے ایک کروڑ اڑتالیس لاکھ ووٹوں کے ساتھ قومی اسمبلی کی 166سیٹیں، پاکستان تحریک انصاف نے چھہتر لاکھ ووٹ اور 35نشستیں، پاکستان پیپلز پارٹی نے انسٹھ لاکھ ووٹ اور 42نشستیں، متحدہ قومی موومنٹ نے چوبیس لاکھ ووٹ اور 24نشستیں حاصل کیں۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) چودہ لاکھ ساٹھ ہزار ووٹ اور 15نشستیں، پاکستان مسلم لیگ (ق) چودہ لاکھ اور 2نشستیں، پاکستان مسلم لیگ (ف) دس لاکھ اور 6نشستیں، جماعت اسلامی نو لاکھ ساٹھ ہزار اور 4نشستیں، عوامی نیشنل پارٹی چار لاکھ پچاس ہزار اور 3نشستیں، پختون خواہ ملی عوامی پارٹی دو لاکھ چودہ ہزار ووٹ 4نشستیں، نیشنل پیپلز پارٹی ایک لاکھ ستانوے ہزار ووٹ 3نشستیں۔
2013ء میں منتخب ہونے والی اسمبلی میں اکثریتی جماعت کے 166اراکین کو ووٹ ڈالنے والے پاکستانیوں میں سے تینتیس فیصد کا اعتماد حاصل ہے۔ دیگر سرسٹھ فیصد ووٹرز کی نمائندگی 106اراکین کے ذریعے ہورہی ہے۔ یہ بات بھی نوٹ کرنے والی ہے کہ سترہ فیصد ووٹ لینے والی پاکستان تحریک انصاف کی نشستوں کی تعداد 35اور پندرہ فی صد ووٹ لینے والی پاکستان پیپلز پارٹی کی نشستوں کی تعداد 42ہے۔
پارلیمنٹ میں پاکستان کے عوام کی رائے کی حقیقی عکاسی کے لئے موجودہ طریقہ انتخاب میں تبدیلی کرتے ہوئے متناسب نمائندگی (Proportional Representation) کا نظام اختیار کرنا چاہیے۔ اس طرح جو جماعت جتنے فی صد ووٹ لے گی قومی اور صوبائی اسمبلی میں اسے اتنی ہی نشستیں مل جائیں گی۔ اس کا ایک اثر یہ بھی ہوگا کہ کم ووٹ لینے والی جماعت کی اپنے حاصل کردہ ووٹوں کی حد تک اسمبلی میں نمائندگی ہوگی۔ پاکستان میں کئی اساتذہ، اہل قلم اور مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے اصحاب دانش متناسب نمائندگی کے حق میں ہیں۔ اس موضوع پر جماعتی محدود مفادات سے بالا تر ہو کر قومی سطح پر مباحثے اور عوامی رائے شماری کا اہتمام ہونا چاہیے۔ 2018ء کے انتخابات میں تو اس نظام کو اختیار کیا جانا ممکن نہیں ہوگا لیکن عوامی رائے اس کے حق میں ہو 2018ء کے بعد ہونے والے انتخابات سے متناسب نمائندگی کا نظام نافذ کیا جاسکتا ہے۔
۔۔۔۔
محمد ابراہیم جویو
سندھ کے معروف ماہر تعلیم، استاد، مفکر ، ادیب اور کالم نگار محمد ابراہیم جویو9نومبر کو انتقال کرگئے۔
اناللّٰہ وانا الیہ راجعون
محمد ابراہیم جویو نے اپنی تحریروں میں فرقہ واریت، سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام کی خرابیوں کو اجاگر کیا۔ انہوں نے عام آدمی اور مجبور ہاریوں کے حقوق کے لئے بھی آواز اْٹھائی۔ ابراہیم جویو کی وفات سے قوم سندھی زبان کے ایک بڑے ادیب سے محروم ہوگئی۔

تازہ ترین