• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہا جاتا ہے کہ طاقت کو کبھی شکست کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ جو طاقت سے ٹکراتا ہے پاش پاش ہوجاتا ہے۔ ملک میں سیاہ وسفید کے فیصلے طاقت کی مرضی سے ہوتے ہیں، مگر عہدے اور ادارے کی طاقت ہمیشہ عوامی طاقت کے سامنے بے بس ہوجاتی ہے۔ گزشتہ روز قومی اسمبلی کی کارروائی اس بات کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ چند روز قبل ایک سابق انٹیلی جنس سربراہ سے مشترکہ دوست کے گھر ملاقات ہوگئی۔ نوازشریف کی نااہلی اور اداروں کا کردار زیر بحث تھا۔ میں نے ریٹائرڈ وردی پوش سے پوچھا کہ کبھی طاقت کو بھی شکست ہوتی ہے تو وہ مسکرائے اور کہنے لگے کہ گزشتہ پانچ واقعات میں طاقت کو ہی شکست ہوئی ہے۔ میرے مزید استفسار کرنے پر کہنے لگے کہ دو مرتبہ 2009سے 2013کے سربراہ کے دور میں، دو مرتبہ سابق سربراہ کے دور میں، جب دھرنوں کے باوجود جمہوری حکومت کو گرا نہیں سکے تھے۔ اسی لئے یہ کہنا حق بجانب ہوگا کہ کامیاب ہمیشہ اللہ ہی کی تدبیر ہوتی ہے۔ انسان قدرت کے فیصلے کو نہیں موڑ سکتا۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں عمومی تاثر ہے کہ طاقت جو چاہتی ہے کر گزرتی ہے، کسی بھی شخص میں اتنی قوت نہیں ہے کہ طاقت کے سامنے کھڑا ہوسکے۔ اسی پر ایک واقعہ یاد آگیا، چند سال قبل اسلام آباد کے پنج ستارہ ہوٹل کی لابی میں بین الاقوامی شہرت یافتہ صحافی سے ملاقات ہوگئی۔ افغان امور کی ماہر خاتون صحافی سے پاک افغان تعلقات پر طویل بحث ہوئی۔پاکستان میں حساس اداروں کے کردار پر بھی بات ہوئی۔ خاتون صحافی مسکراتے ہوئے کہنے لگیں کہ پاکستان میں صرف بارش ’’اداروں‘‘ کی مرضی سے نہیں ہوتی، باقی ہر کام انہی کی مرضی سے ہوتا ہے۔لیکن شاید پچھلی ایک دہائی کے دوران حالات خاصے بدل چکے ہیں۔
بہرحال نوازشریف طاقت کے سامنے سر جھکانے کو تیار نہیں ہیں۔ ایبٹ آباد جلسے میں ہونے والی تقریر خاصی سخت تھی، مگر نوازشریف نے اپنی سمت واضح کردی ہے۔جن راستوں پر ادارے نوازشریف کو ڈالنا چاہتے ہیں، نوازشریف نے انہی دو راستوں کا تذکرہ کرتے ہوئے خود ہی برملا اظہار کردیا کہ وہ موت اور جیل سے نہیں ڈرتے۔ ایبٹ آباد جلسے کی تقریر تمام قوتوں اور اداروں کو واضح پیغام تھا۔ نوازشریف کے دو ٹوک موقف کے بعد مسلم لیگ ن کے ورکر کو حوصلہ ملا ہے کہ ہم تنہا نہیں ہیں بلکہ ہمارا قائد ہمارے ساتھ کھڑا ہے لیکن ساتھ ساتھ اداروں کے لئے بہت سخت پیغام بھی گیا ہے۔ تقریر کا سخت ردعمل آنے کے امکانات موجود ہیں لیکن نوازشریف بہت کچھ سوچ کر یہ جنگ لڑ رہے ہیں۔ ایبٹ آباد جلسے کے بعد تمام اداروں کی نظریں پارلیمنٹ کے اجلاس پر لگی ہوئی تھیں۔ یہ خاکسار بھی صبح سے ہی پارلیمنٹ کی راہداریوں میں پھر رہا تھا۔ارکان اسمبلی کا ہجوم اکٹھا تھا۔ نوازشریف کی غیر موجودگی میں حمزہ شہباز شریف ایک ایک ارکان اسمبلی کو علیحدہ مل رہے تھے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کے فرزند نے اجلاس شروع ہونے کے بعد مسلسل وقت اسمبلی ہال میں ہی گزارا۔ جبکہ وزیراعظم اور چوہدری نثار کی موجودگی بھی ارکان کے حوصلے بڑھا رہی تھی۔ کئی اراکین راہداری میں کھڑے ہوئے برملا فون کالز اور اسمبلی اجلاس میں شرکت نہ کرنے کے حوالے سے دباؤ کا ذکر کر رہے تھے۔شہر اقتدار میں مکمل تاثر تھا کہ طاقت بمقابلہ مسلم لیگ ن میدان میں ہیں۔بہت سے خفیہ چہرے کسی بڑے سرپرائز کی نوید دے رہے تھے۔ مگر شیخ رشید کا چہرہ مایوس تھا۔ تحریک انصاف کے کئی ارکان بھی حیران تھے کہ مسلم لیگ ن کے اراکین کہاں سے آگئے ہیں۔ اسمبلی کارروائی شروع ہوئی تو کینسر سے لڑنے والے رکن قومی اسمبلی رجب علی بلوچ کے جذباتی خطاب نے پورے ہال میں سناٹا طاری کردیا۔ وہ خوب بولے کہ ہمیں یہاں آنے کے لئے کسی ڈپٹی کمشنر یا ڈی پی او کے ذریعے پیغام نہیں بھیجا گیا۔جس کی وجہ سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے ہیں آج اسی کی ذات کی خاطر یہاں پر جمع ہوئے ہیں۔ بہرحال موجود ہ حالات میں مسلم لیگ ن کی واضح کامیابی بہت سی قوتوں کے لئے پیغام ہے۔ گزشتہ روز کی کارروائی کے بعد بہت سے اداروں نے یوٹر ن پر غور شروع کردیا ہوگا۔لیکن قومی اسمبلی میں جو کچھ بھی ہوا ہے، اس سے کسی بھی صورت ادارے مضبوط نہیں ہوئےبلکہ اداروں کی ساکھ بری طرح سے متاثر ہوئی ہے۔
اگر اداروں نے مسلم لیگ ن کے اراکین کو فون کالز کرکے اسمبلی اجلاس میں شرکت سے روکا تھا تو یہ انتہائی نامناسب بات ہے۔ اگر اداروں نے ایسا نہیں کیا اور یہ محض الزام ہے تو پھر ایسی کیا وجہ بنی کہ پورے شہر اقتدار میں یہ تاثر تھا کہ ادارے آج مسلم لیگ ن کو قومی اسمبلی میں شکست دیں گے۔ مگر مسلم لیگ ن جیت گئی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اداروں کو ایسا کسی بھی قسم کا تاثر دینے سے اجتناب کرنا چاہئے اور اگر تاثر دیا تھا تو پھر اس کو کامیاب کراتے لیکن طاقت جتنی بھی مضبوط ہو عوامی طاقت بہرحال غالب آکر رہتی ہے۔ حالات اگر یونہی چلتے رہے تو عام انتخابات میں بھی مسلم لیگ ن واضح اکثریت حاصل کر کے حکمران جماعت بن جائے گی اور سازشی عناصر ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ لیکن اگر یہ تاثر طویل ہوگیا کہ اداروں کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ ن جیت گئی ہے تو پھر اس کا پاکستان کو بہت نقصان ہوگا۔ ادارے کمزور ہوجائیں گے۔ قوم کا اعتماد مجروح ہو گا۔ اس لئے بہتر ہے کہ اپنے آپ کو سیاسی معاملات سے علیحدہ کرلیا جائے اور آئینی حدود میں رہتے ہوئے اپنا کردار ادا کیا جائے، وگرنہ ملک کا بہت بڑا نقصان ہوگا۔ جاتے جاتے نوازشریف کی قومی اسمبلی سے جیت پر ایک شعر پیش خدمت ہے؎
حکم یہ نشر کرادو عدم کہ آئندہ
عوام تن کر چلیں، جھک کر شہریار چلے

تازہ ترین