• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہر کراچی میں فی الحال کوئی سیاسی یا مذہبی جماعت ہڑتال نہیں کرسکتی۔ اب کوئی سیاسی کارکن کھلی دکانیں بند کراسکتا ہے، نہ گاڑیاں جلا سکتا ہے۔ بھتہ بھی کھلے عام نہیں مانگا جا سکتا۔ شہر کے جرائم پیشہ اور دیگر مسلح گروہ بھی بظاہر ختم کردئیے گئے ہیں یا شاید روپوش ہیں! گویا شہر میں امن ہے۔ اگرچہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے یہ کارنامہ کراچی کے شہریوں اور ملک و قوم کے بہترین مفاد میں سرانجام دیا ہے لیکن دارالحکومت اسلام آباد میں کوئی بھی سیاسی یا غیر سیاسی جماعت اُٹھ کر آج بھی ہفتوں اور مہینوں کے لئے شہر کی تعلیمی، کاروباری اور سماجی زندگی کو تہس نہس کرنے کی اہلیت رکھتی ہے! شہر میں تازہ دھرنا اس حقیقت کا تازہ ثبوت ہے۔
اسلام آباد اب دنیا میں صرف پاکستانی دارالحکومت کے طور پر ہی نہیں بلکہ طویل مدتی دھرنوں اور گالم گلوچ سے بھرپور اَن گنت احتجاجی جلسوں اور شہریوں کے لئے اعصاب شکن دھرنوں کے حوالے سے بھی مانا اور جانا جانے لگا ہے۔ چند برسوں میں بتدریج سامنے آنے والی سچائی یہ ہے کہ ملک کا کوئی بھی سیاسی و غیر سیاسی چھوٹا یا بڑا گروپ اپنے مطالبات منوانے کے لئے دارالحکومت کے کسی بھی حساس یا اہم مقام پر جب چاہے اور جتنی مدت کے لئے چاہے، دھرنا دے سکتا ہے۔ عجب یہ کہ دھرنا دینے والوں کو بخوبی علم ہوتا ہے کہ چاہے کسی کی جان جائے یاعزت، تعلیم کا حرج ہویا کاروبار زندگی مفلوج ہوجائے، ملک کا کوئی ادارہ دھرنا ختم ہونے تک اِن کا بال بیکا نہیں کرسکتا۔ اُنہیں یقین ہوتا ہے کہ جدید طرز پر تیار کئے گئے خیمے، خوراک اور ٹوائلٹ کی سہولتیں دھرنے کے خاتمے تک دستیاب رہیں گی۔ انہیں کامل یقین ہوتا ہے کہ ناکامی کی صورت میں اُنہیں اپنے دھرنے سے جان چھڑانے کا کوئی بہانہ بھی مل جائے گا۔
ملک میں آج بھی ریاست اور سیاست کے درمیان آنکھ مچولی جاری ہے۔ ریاست دہشت گردی، بدعنوانی اور انتخابی ہیرا پھیری کے معاملات میں عموماً سیاسی جماعتوں کو مورود الزام ٹھہرا کر ملک میں جاری اچھے یا برے سیاسی اور جمہوری عمل میں مداخلت کی مرتکب ہوتی ہے۔ اِسی طرح سیاسی عناصر کی جانب سے ریاستی اثرو رسوخ ہتھیانے کی مستقل خواہش اور جدوجہد، ریاست و سیاست کے درمیان مسلسل جاری رہنے والی کشیدگی میں شدّت کا سبب بنتی ہے۔ اگرچہ اسلام آباد کی تازہ صورتحال اِن دو عناصر کے درمیان بظاہر اسی کشیدگی کا تسلسل دکھائی دیتی ہے، سمجھ بوجھ رکھنے والوں کو اندازہ ہوجانا چاہئے کہ منظم سیاسی جرائم اور لاقانونیت درحقیقت قانون کے صحیح نفاذ میں مسلسل ناکامی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
سال 2014میں کوئی چار ماہ جاری رہنے والے پی ٹی آئی کے دھرنے کے دوران بہت کچھ دیکھنے اور سمجھنے کو ملا۔ کون بھول سکتا ہے کہ اس عرصے میں اسلام آباد میں کاروباری اور تعلیمی سرگرمیاں کس حد تک متاثر ہوئیں، پیشہ ور طبقہ کس قدر پریشان رہا، معمول کی آمدورفت اور دارالحکومت کے کم از کم چھ اہم سیکٹرز میں کس طرح معمولات زندگی معطل رہے۔ اُن چار مہینوں میں کوئی اپنی سیاسی ساکھ کی فکر میں، کوئی اپنی سیٹ کھو دینے کے خوف سے، کوئی نوکری بچانے کی خاطر اور کوئی منتخب حکومت کے خاتمے کی خواہش کے تحت، صرف ہاتھ پر ہاتھ دھرے تماشا دیکھتا رہا۔ شاید اسی لئے آج ملک میں مذہب کے نام پر جبر، جہاد کے نام پر دہشت گردی، طاقت کے زور پر سیاست، سیاست کے نام پر بدعنوانی، سیکورٹی کے نام پر پروٹوکول، دھرنے کے نام پر بلیک میلنگ اور احتجاج کی آڑ میں جرائم کی روایات تیزی سے پروان چڑھ رہی ہیں۔
دنیا کا ہر جرم مختلف سطحوں پر محرومی اور خدشات کے تحت جنم لیتا ہے۔ غیر ترقی یافتہ اور غیر مہذب معاشروں میں ہونے والے جرائم کی تعداد اور اقسام یقیناً غیر متوقع طور پر زیادہ ہوسکتی ہیں۔ ان میں اسٹریٹ کرائم، گھریلو اور جنسی تشدد، قتل اور بد عنوانی قابل ذکر ہیں۔ سیاسی اور ریاستی اداروں سے وابستہ عناصر بھی مختلف سطحوں پر بدعنوانی، جوڑ توڑ، انتخابی معاملات میں ہیرا پھیری اورسیاسی بلیک میلنگ میں ملوث ہوسکتے ہیں۔ ہمارامعاشرہ اِس مثال پر پورا اترتا محسوس ہوتا ہے۔
پولیس کے ذمہ دار افسران اپنے ادارے میں بدعنوانی اور غیر پیشہ ورانہ رویوں کو صحیح طور سمجھنے اور اُن کا سدباب کرنے کے بجائے عموماً ریاستی اور سیاسی عناصر کی مداخلت کو قانون کے نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہیں۔ شکایت غلط نہیں لیکن میں نے کراچی پولیس کے ایک سابق سربراہ کو ایک انتہائی اہم ٹریبونل میں بیان دیتے ہوئے سنا تھا کہ (اُس وقت کے) وزیراعلی سندھ اور دیگر بااثر افراد ان کے کام میں مداخلت کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ ایسی کسی کوشش کو خاطر میں نہیں لاتے۔ چند روز بعد ایک نجی ملاقات میں انہوں نے دہرایا کہ سیاست دان اور ادارے کسی پیشہ ور پولیس افسر کے کام میں بار بار مداخلت نہیں کرسکتے۔ اِن کا کہنا تھا کہ افسران اور اہلکاروں میں ایمانداری اور قابلیت کا فقدان، اِن پر مستقل دبائو کا سبب بنتا ہے۔
بدعنوانی، نااہلی یا سیاسی دبائو کے باعث قانون کے نفاذ میں جھول کسی بھی سیاسی یا غیر سیاسی فرد یا گروہ کو جرائم کی طرف راغب کرسکتا ہے۔ ابتدا ہی میں قانونی روک ٹوک نہ کی جائے تو غیر سیاسی مجرم کسی منظم مافیا کی صورت اختیار کرلیتے ہیں جب کہ سیاسی تنظیم کے مسلح کارکنان اپنے مخالفین کے منظم قلع قمع اور بڑے پیمانے پر مالی بدعنوانی میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ درحقیقت کسی سیاسی تنظیم میں مسلح ونگ کی موجودگی کی بنیادی ذمہ داری پولس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر ہی عائد ہوتی ہے۔
المیہ یہ رہا ہے کہ کسی بھی سیاسی تنظیم کے کسی کارکن کے ہاتھوں ہونے والے پہلے قتل پر قانون کو صحیح طور حرکت میں نہیں لایا جاتا ۔ لہٰذا جب قانون سے ماورا یہی مسلح کارکن سو سے زائد قتل کا اعتراف کرتا ہے تو اس اعتراف کے ساتھ ہی تمام متعلقہ اداروں کی نااہلی کا بھانڈہ بھی پھوٹ جاتا ہے۔ حیرت یہ کہ حکام اِن اعترافات پر انتہائی فخر کے ساتھ پریس بریفنگ دیتے ہیں۔ ایسے اعترافات درحقیقت قانون کے نفاذ میں کسی بڑے اور مستقل جھول اور تحقیقاتی اداروں کی مسلسل نااہلی کے ساتھ ساتھ، ریاست اور سیاست میں کبھی ساز باز اور کبھی آنکھ مچولی کی اَن گنت، پیچیدہ اور ناپسندیدہ داستانوں کا پتہ دیتے ہیں۔ ستم یہ کہ ایسے ہولناک اور مایوس کن اعترافات پر بھی افسران اور اہلکاروں کی معطلی یا استعفوں کے بجائے ان کی ترقیوں کی خبریں ملتی ہیں۔
جدید دنیا کے کسی بھی بدحال معاشرے میں اگر ایک جانب ریاست سیاسی معاملات میں اپنے اثرو رسوخ کو برقرار رکھنے کی مستقل کوششیں کرتی رہے اور دوسری جانب سیاست ریاستی اختیارات کے حصول کے لئے مسلسل جنگ کرتی رہے، تو سیاسی اور غیر سیاسی جرائم سے موثر اور مکمل نجات ممکن نہیں! صحیح راستہ صرف یہی ہے کہ ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر ملک میں بلا تخصیص زبان، علاقے اور عقیدے پوری قوم کی مجموعی بہتری کے لئے اپنے پیشہ ورانہ فرائض انجام دیں۔ اہم بات یہ کہ ایک جانب کراچی اور بلوچستان میں احتجاج کرنے والوں پر بار بار کڑی تنقید اور سختی اور دوسری جانب دارالحکومت کو ہفتوں اور مہینوں مفلوج رکھنے والوں کو ہر بارکھلی چھٹی، ریاست پر امتیازی سلوک برتنے کے شک و شبہات کو تقویت فراہم کرسکتی ہے۔

تازہ ترین