• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر سید علی ظفر نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہاہے کہ آئین میں انہیں کوئی ایک شق بھی نہیں ملی جو نااہل شخص(معذول وزیراعظم نوازشریف )کوکسی سیاسی جماعت کا عہدیدار بننے سے روکتی ہو یعنی ان کا مطلب ہے کہ حال ہی میں قومی اسمبلی نے اپوزیشن جماعتوں کی الیکشنز ایکٹ 2017 میںجس ترمیم کو مسترد کیا ہے تاکہ نوازشریف ن لیگ کے صدر رہ سکیںکسی طرح بھی آئین کی خلاف ورزی نہیں ہے۔ تاہم انہوں نے اس کو ’’کالا قانون‘‘ گردانا ۔ سپریم کورٹ نے پاناما کیس کے فیصلے میں سابق وزیراعظم کو نااہل قرار دیا اس کی وجہ سے وہ کسی منتخب عوامی عہدے کے لئے الیکشن نہیں لڑ سکتے ۔ یہ نااہلی اس وقت بھی برقرار رہے گی جب وہ پارٹی کے صدر ہوں گے اور ان کا جماعت کا عہدہ انہیں الیکشن لڑنے کے اہل نہیں بناسکتا۔الیکشنز ایکٹ کی سیکشن 203وہ واحد شق ہے جس کو قومی اسمبلی نے2 باراور سینیٹ نے ایک بار پاس کیا ہے ۔ ایوان بالا نے اسے ایک بار منظور کیا اور ایک بار مسترد کیا۔ یہ شاید پاکستان میں پہلی بار ہوا ہے کہ کسی ایک شق کی ایوان زیریں نے 2بار منظوری دی ۔ سینیٹ جس میں اپوزیشن جماعتوں کی عددی اکثریت ہے اور حکمران جماعت اور اس کے اتحادیوں کی اقلیت ہے نے بھی الیکشنز ایکٹ جس میں سیکشن 203شامل تھی کی منظوری دی تھی جو کہ حزب اختلاف خصوصاً پیپلزپارٹی کے لئے خفگی کا باعث بنی تھی کہ وہاں اس کی اکثریت ہوتے ہوئے بھی حکومت نے یہ شق منظور کرالی تھی ۔ اسی خفگی کو مٹانے کے لئے چند دن بعد ہی پیپلزپارٹی نے سینیٹ سے سیکشن 203کی منسوخی کے لئے ترمیم منظور کرائی ۔ اپوزیشن جماعتوں کی خوش فہمی تھی کہ ن لیگ میں بہت توڑ پھوڑ ہو چکی ہے اور اس کے 60-70ایم این ایز بغاوت کے لئے تیار ہیں لہٰذا یہ بہترین موقع ہے کہ یہ ترمیم قومی اسمبلی میں پیش کی جائے جہاں یہ منظور ہو جائے گی۔ ان کی پریشانی کا عالم قابل دیدنی تھا جب حکمران جماعت میں نہ تو کوئی بغاوت سامنے آئی اور نہ ہی کوئی فارورڈ بلاک ۔ ن لیگ ایک سالڈ بلاک کی طرح اپنے صدر کے پیچھے کھڑی ہوئی اور اپوزیشن کی کوشش کو ناکام بنا دیا ۔
اس کے دوسرے دن ہی عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اپنے چیمبر میں رجسٹرار آفس کے اعتراضات جو انہوں نے پیپلزپارٹی اور کچھ دوسری جماعتوں کی پٹیشنز جن میں سیکشن 203کو چیلنج کیا گیا تھا پر سماعت کی اور اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے حکم جاری کیا کہ سپریم کورٹ ان درخواستوں پر سماعت کرے ۔ رجسٹرارآفس نے اعتراض کیا تھا کہ ان پٹیشنز کو عدالت عظمیٰ میں نہیںبلکہ دوسرے مناسب فورم پر دائر کیاجائے ۔پارلیمانی جماعتوں کو اپنے سیاسی حریفوں کے خلاف میدان پارلیمنٹ کے اندر ہی سجانا اچھا لگتا ہے اگر وہ اعلیٰ عدلیہ کو ان جھگڑوں میں ملوث کرتی ہیں تو پھر وہ خوا ہ مخواہ پارلیمان کے اختیارات کسی دوسرے ادارے کے سپرد کردیتی ہیں۔اسی طرح کی سیاست ہی بلا وجہ اداروں کے درمیان ٹکرائوکا ماحول پیدا کرتی ہے ۔ ن لیگ یقیناً پریشان ہوئی جب ایک دن بعد ہی چیف جسٹس نے ان پٹیشنوں پر سماعت کا آرڈر جاری کر دیا ۔یہ حکم اس کے اس بیانیے کی حمایت کرتا ہے کہ اس کے بارے میں فیصلے تو بہت جلد ہوتے ہیں مگر معلوم نہیں اس کے مخالفین کے بارے میں فیصلے کب آئیں گے۔ جس رفتار سے نوازشریف اور ان کی فیملی کے دوسرے ممبرز کا احتساب جاری ہے وہ پہلے کبھی بھی پاکستان کی تاریخ میں دیکھنے میں نہیں آئی اس سے یقیناً شک و شہبات جنم لیتے ہیں جن کا تدارک اعلیٰ عدلیہ کی ذمہ داری ہے کیونکہ ہر ادارے کو اپنی ساکھ اور غیر جانبداری کا تحفظ اس سے بہتر اور کوئی نہیں کرسکتا۔قصور سیاستدانوں کا بھی ہے جو اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کے لئے اعلیٰ عدالتوں کی طرف بھاگنا شروع کر دیتے ہیں وہ سیاسی میدان میں تو اپنے مخالفین کو مات نہیں کرسکتے اور پھر عدالتوں کا سہارا لینا شروع کردیتے ہیں۔ اسی طرح سیاسی نوعیت کے مقدمات سے گریز کرتےہوئے ان ہزاروں کیسوں کی طرف توجہ دی جانی چاہئے جن کا تعلق عام لوگوں سے ہے اور جو سالہاسال سے زیر التوا ہیں۔ عدالتی نظام اور جسٹس سسٹم سیاسی نوعیت کے مقدمات کی برق رفتاری سے سماعت سے مضبوط نہیں ہو گا اور نہ ہی عوام کا اس پر اعتماد بحال ہو گا ۔ عام لوگ اس وقت ہی اس پر اعتماد کریں گے جب انہیں فوری اور سستا انصاف ملے گا۔
سیکشن 203میں ترمیم مسترد ہونے کی وجہ سے پیپلزپارٹی کافی پریشان ہوئی اور اسی پریشانی کے عالم میں وہ ایک بڑے کام یعنی 2018کے عام انتخابات کے بروقت انعقاد کی تکمیل میں روڑے اٹکا رہی ہے اور وہ تاثر یہ دی رہی ہے جیسے اگلے الیکشنز کا وقت پر ہونا صرف ن لیگ کی ہی ترجیح اور مفاد میں ہے نہ کہ اس کے ۔آئینی ترمیم کا بل جس نے الیکشن کمیشن کو مطلوبہ اختیارات دینے ہیں تاکہ وہ اگلے انتخابات کے لئے حلقہ بندیاں اور صوبوں کے درمیان قومی اسمبلی کی سیٹوں کی تقسیم وغیرہ وغیرہ کر سکے قومی اسمبلی سے تو منظور ہو چکا ہے مگر پیپلزپارٹی اسے سینیٹ میں پاس ہونے نہیں دے رہی حالانکہ حکومت نے اس کا یہ مطالبہ بھی مان لیا تھا کہ سی سی آئی کی میٹنگ میں نئی مردم شماری کے معاملے کو رکھا جائے اور وہیں اس نے آئینی ترمیمی بل کو پاس کرنے پر مکمل اتفاق کیا تھا۔ حکمران جماعت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ سینیٹ میں اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ خود ہی حزب اختلاف کی حمایت کے بغیر یہ بل پاس کر سکے ۔ اب قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کا یہ کہنا ہے کہ حکومت اپنی تجاویز لکھ کر پیپلزپارٹی کی لیڈر شپ(یعنی آصف زرداری ) کو دے تاکہ وہ اس پر غور کر کے اپنا ردعمل دے۔ کچھ عرصہ قبل وڈیرانہ مائنڈ سٹ کا اظہار کرتے ہوئے آصف زرداری نے کہاتھا کہ وہ دن بھی آسکتا ہے جب ن لیگ کی لیڈر شپ ان کی حمایت حاصل کرنے کے لئے ان کے پائوں پڑ جائے گی اسی طرح ہی جس طرح کہ بقول ان کے ایک وقت میں احتساب بیورو کے سابق چیئرمین سیف الرحمن پڑے تھے۔یہ آئینی بل ن لیگ کی لیڈر شپ کی ذات کے بارے میں نہیں ہے کہ سابق صدر یہ توقع کر رہے ہیں کہ وہ دست بدست ان کے سامنے حاضر ہو جائے کہ اس کی مدد کی جائے اس کی آنر شپ تو سب پارلیمانی جماعتوں کی ہے اگر وہ وقت پر عام انتخابات چاہتی ہیں ۔ ہاں البتہ اگر نوازشریف یہ چاہتے ہوں کہ آصف زرداری ان کے بے رحمانہ احتسابی عمل جو ان کے خلاف ایک ایجنڈے کے تحت جاری ہے میں مدد کی جائے تو سابق صدر انہیں کہہ سکتے ہیں کہ وہ اس وقت تک ایسا نہیں کریں گے جب تک ان کے پائوں نہ چھوئے جائیں۔ اس بل کے بارے میں پیپلزپارٹی کے رویئے نے اس کی اپنی جمہوری اقدار کے بارے میںسخت شک و شہبات پیدا کر دیئے ہیں اور لگ یوں رہاہے جیسے وہ ان عناصر کے ہاتھوں میں کھلونا بن رہی ہے جو چاہتے ہیں کہ یہ ترمیم پاس نہ ہو جس کی وجہ سے ملک میں ایک بہت بڑا بحران پیدا ہو جائے اور اگلے انتخابات کا بروقت انعقاد ممکن نہ رہے ۔ ایسی صورتحال میں انہیں جون میں بننے والی نگران حکومت کی میعاد کو توسیع دینے کا موقع مل سکے ۔ پہلے ہی یہ افواہیں گرم ہیں کہ اگلے کیئر ٹیکر سیٹ اپ کو 3سال تک چلانے کا پلان بنایا جارہاہے ۔اگر ایسا ہوتا ہے تو پیپلزپارٹی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا اور ملک میں بے انتہا افراتفری پھیل جائے گی۔

تازہ ترین