• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ ہفتے میں نے اپنے کالم میں جس کا عنوان ’’سندھی اور اردو دانشوروں کو ایک بار پھر سر جوڑکر بیٹھنا ہوگا‘‘ تھا۔ کئی سال پہلے ممتاز سندھی اور اردو دانشوروں کی طرف سے سندھ کو لاحق لسانی و نسلی خطرات سے محفوظ کرنے کے لئے کافی عرصے تک باہمی مذاکرات کرنے کے بعد اتفاق رائے سے ’’سندھ میں امن و ہم آہنگی کا اعلان نامہ‘‘ کی منظوری دی تھی جس پر سندھ سے تعلق رکھنے والے ممتاز سندھی اور اردو دانشوروں‘ تعلیمی ماہرین اور صحافیوں کی ایک بڑی تعداد نے دستخط کیے‘ اس کالم میں‘ میں نے اس تاریخی اعلان نامہ کے آخری پیراگراف کے چند جملے شامل کیے تھے مگر ایک بار پھر تفصیل سے یہ اعلان نامہ پڑھنے کے بعد میں اس رائے کا ہوں کہ یہ اعلان نامہ واقعی تاریخی نوعیت کا ہے‘ پتہ نہیں جب اعلان نامے پر ان دانشوروں اور دیگر نے دستخط کیے تو کیوں انہی دانشوروں‘ تعلیمی ماہرین‘ صحافیوں اور سیاسی جماعتیں جن کا خاص طور پر سندھ سے تعلق ہے، نے کیوں سندھ میں امن کے لئے اس لاثانی اعلان نامے کے فالو اپ میں اقدامات نہیں کیے، چلئے اس وقت اس سلسلے میں کچھ نہیں کیا گیا مگر یہ جو کہا جاتا ہے کہ ’’دیر آید درست آید‘‘ تو اب کیوں نہ اس سلسلے میں مطلوبہ اقدامات کیے جائیں۔ سچ پوچھیں تو یہ اعلان نامہ آج کی صورتحال کا بھی علاج ہے‘ مگر اب تو اس اعلان نامہ پر عملدرآمد کی اہمیت اور بڑھتی ہوئی محسوس ہورہی ہے۔ واضح رہے کہ ماضی میں جن ’’قوتوں‘‘ کی حرکتوں کے نتیجے میں سندھ میں اور خاص طور پر سندھ کے شہری علاقوں میں ایک دوسرے کا خون بہایا گیا تھا‘ ایک دوسرے کو لاشیں ترسیل کی گئی تھیں اور شاید دنیا میں پہلی بار ’’بوری بند لاشوں‘‘ کی وبا نے سندھ کے شہری علاقوں پر حملہ کیا تھا‘ وہ پھر سر اٹھاتی نظر آرہی ہیں‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس اعلان نامہ میں طے کیے گئے کچھ نکات کو کچھ سال پہلے پارلیمنٹ سے منظور کی گئی 18 ویں آئینی ترمیم میں شامل کیا گیا‘ اس کے باوجود اس اعلان نامہ میں تجویز کی گئی کئی اور تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کی شدید ضرورت ہے لہٰذا ضروری ہے کہ سندھی اور اردو دانشور ایک بار پھر اکٹھے بیٹھیں اور یا تو اس اعلان نامہ میں کچھ مزید مثبت تجاویز شامل کرنے کے بعد یا اسی اعلان نامہ کو من و عن ایک بار پھر منظر عام پر لائیں اور بعد میں ان دانشوروں کی ٹیمیں نہ فقط سندھ مگر ملک بھر کی سیاسی جماعتوں کی قیادت سے ملاقات کر کے اس اعلان نامہ کی روشنی میں ضروری اقدامات اٹھانے کے لئے بھرپور دبائو ڈالیں‘ یہ اعلان نامہ اس وقت نہ صرف سندھ بلکہ سارے پاکستان کی ضرورت ہے۔ واضح رہے کہ سندھ آج بھی کئی جوہات کی بنا پر پاکستان کی بنیاد ہے‘ اگر سندھ کے اندر نسلی منافرت پیدا کرنے سے سندھ تباہ ہوتا ہے تو کیا پاکستان محفوظ رہ سکے گا؟ لہٰذا نہ فقط سندھ میں سیاست کرنے والی جماعتوں کو اس اعلان نامہ کو اپنے اپنے پارٹی کے منشور کا حصہ بناکر اس پر ایمانداری سے عمل کرنا چاہئے بلکہ وہ سیاسی جماعتیں جو خود کو وفاقی پارٹی کہلواتی ہیں اور ملک بھر میں سیاست کرتی ہیں وہ بھی آگے بڑھکر اس اعلان نامہ کو قبول کریں۔ یہ بات سندھ اور پاکستان دونوں کے مفاد میں ہے کہ اس اعلان نامہ میں جو تجاویز دی گئی ہیں ان کی روشنی میں نہ فقط مطلوبہ آئینی ترامیم کےساتھ وفاق اور سندھ کے قوانین میں مطلوبہ ترامیم کی جائیں مگر خاص طور پر سندھ میں اگر سندھ اور پاکستان کو کسی بڑی تباہی سے بچانا ہے تو اس اعلان نامہ کی روشنی میں اجتماعی طور پر آئینی‘ قانونی اور انتظامی اقدامات کرنے پڑیں گے‘ اس اعلان نامہ کی تجاویز کی روشنی میں مطلوبہ تعلیمی اور انتظامی اصلاحات کی جائیں۔ اب میں اس تاریخی اعلان نامہ کا متن شامل کررہا ہوں۔
تمہید:طاقتور مفاد پرست عناصر کی زیر سرپرستی اور مسلسل جاری رکھی جانے والی ناقص پالیسیوں اور عوام کو تقسیم کرنے کی سیاست نیز یہ کہ بعد دیگرے اقتدار میں آنے والی غیر نمائندہ اور عوام دشمن حکومتوں نے سندھ کو سیاسی‘ سماجی اور معاشی تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے‘ مصنوعی اور حقیقی مسائل کی اڑائی ہوئی دھول میں قومی یک جہتی اور معاشی ترقی کے عمل کو تنگ نظری اور لالچ کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے‘ اس انتشار و افراتفری کے نتیجے میں سندھ لہولہان ہوچکا ہے اور اس کے گمراہ بچے باہم دست و گریباں ہیں اور وہ مسلسل ایک دوسرے سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ دیگر باتوں کے علاوہ سندھ میں آباد دو بڑے ثقافتی گروہوں کے درمیان پائے جانے والے قابل فہم اختلافات کو اس کے تناسب سے کہیں زیادہ بڑھا دیا گیا ہے‘ شکایات اور الزامات کی روز افزوں فہرست میں مخاصمت کے تصوراتی اسباب کو بھی شامل کردیا گیا ہے‘ یہاں تک کہ سندھی بولنے والے بہت سے سندھی یہ یقین کرنے لگے ہیں کہ : (1) اردو بولنے والے سندھی انہیں ان معاملات اور مسائل پر بھی اپنی حمایت فراہم نہیں کرتے جن کا تعلق سندھ میں آباد تمام سندھیوں سے ہے بلکہ وہ ایسے عناصر کی حمایت کا میلان رکھتے ہیں جو سندھ کے وسیع تر مفادات کے خلاف سرگرم عمل ہیں۔ 2اردو بولنے والے سندھی ثقافتی برتری کے رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں‘ اس میں ان کا سندھی زبان کو کم تر سمجھنا‘ یہاں تک کہ شہری علاقوں کے اسکولوں سے اس کا اخراج بھی شامل ہے۔ 3ان کے درمیان سندھ کو نسلی بنیادوں پر تقسیم کرنے کے رجحان کو پروان چڑھایا جارہا ہے دوسری جانب بہت سے اردو بولنے والے سندھی یہ یقین کرنے لگے ہیں کہ : (i) انہیں فرزند زمین کے طور پر قبول نہیں کیا گیا ہے۔ (ii) سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں کوٹہ سسٹم کے ذریعے ان کے خلاف امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ (iii) سندھ کے شہری علاقوں کے مسائل جن سے وہ براہ راست متاثر ہوتے ہیں ان کو حل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی۔ چونکہ صوبے میں دانشورانہ بنیادوں اور سیاسی سطح پر ان شکایات کو دور کرنے کی کوئی واضح کوشش نظر نہیں آتی لہٰذا اب یہ ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ تقسیم کرنے والی ان قوتوں کے خلاف اپنی آواز بلند کرے اور لوگوں میں ہم آہنگی پید اکرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرے۔ ہم اس اعلان نامے پر دستخط کرنے والے افراد بجز تشویش میں مبتلا شہری کے اور کسی حیثیت یا اختیار کا دعویٰ نہیں رکھتے لیکن ہم ان حالات پر خاموش تماشائی بنے رہنے کے لئے بھی تیار نہیں ہیں جنہوں نے ایک طویل عرصے سے ہمیں اپنا قیدی بنا رکھا ہے۔ سندھ میں آباد مختلف گروپوں اور گروہوں (بالخصوص اردو اور سندھی بولنے والے سندھیوں) سے متعلق افراد کے درمیان مکالمے اور گفت و شنید کے ایک عمل کے ذریعے ہم ایسی تجاویز مرتب کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں جو سندھ کے مسائل کو حل کرسکتی ہیں‘ ہم مذکورہ تجاویز کو اپنے لوگوں اور ان کے منتخب نمائندوں کے سامنے پیش کررہے ہیں تاکہ وہ ان پر غور و فکر کرسکیں۔ (جاری ہے)

تازہ ترین