• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی اور لاہور آبادی، کاروباری وسائل اور دیگر ضروریاتِ زندگی کے حوالے سے اسلام آباد سے کئی گنا بڑے اور تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے شہر ہیں مگر اس کے باوجود ان دونوں شہروں کی طاقت اسلام آباد کے بغیر کچھ بھی نہیں کیونکہ کراچی اور لاہور کی قسمت کے سارے بڑے فیصلے اسلام آباد میں ہوتے ہیں ظاہر ہے وجہ یہ کہ اسلام آباد پاکستان کا دارالحکومت ہے اور ہر سرکاری ادارے کا مرکزی دفتر ادھر ہی ہے اور اگر کچھ کا نہیں بھی ہے تو اُن کا واسطہ اسلام آباد سے ہی پڑتا ہے جس کے باعث کراچی اور لاہور سے روزانہ ہزاروں افراداسلام آباد آتے ہیں، ان ہزاروں افراد کا مقصد اپنے سرکاری یا کاروباری معاملات کو سیدھا کرنا ہوتا ہے اسلام آباد شہر کے اندر آپ کو اس طرح کے سینکڑوں افراد ملیں گے جو کہ ان معاملات میں ہر وقت آپ کی مدد کرنے کو تیار ہوتے ہیں مگر مفت نہیں یہ سمجھ لیں کہ یہ ان کا پیشہ ہے اور وہ آپ کو شیشے میں اُتارنے میں بے انتہا مہارت رکھتے ہیں۔ ہر شخص کی مہارت اُس کی حیثیت کے حساب سے ہے مثلاً اگر کسی کا ایک چھوٹے سے سیکشن آفیسر سے تعلق ہے تو وہ اُس کا فرنٹ مین بن کر صبح سے رات تک پارٹیاں ڈھونڈتا پھرتا ہے اور پارٹی پکڑنےکے بعد آگے کا کام سیکشن آفیسر جانے یا اس کا باس۔ اگر کسی کا براہ راست کسی وزیر یا سیکرٹری سے تعلق ہے تو وہ اس کے حساب سے پارٹیاں ڈھونڈتا پھرتا ہے ۔ایسا شخص اسلام آباد میں سب سے زیادہ تعلق والا مانا جاتا ہے جس کا پنڈی اور اسلام آباد دونوں جگہ اثرورسوخ ہو اور ایسے شخص کی اسلام آباد میں بڑی مانگ ہوتی ہے اور اُس کے ڈرائنگ روم کے بڑے بڑے لوگ مہمان بنتے ہیں روزانہ محفلیں ہوتی ہیں اور دوست یار شریک ہوتے ہیں۔ ایسے شخص کا اثرورسوخ اس لئے سب سے زیادہ ہوتا ہے کیونکہ وہ مالداروں سے پیسہ لیکر اپنا حصہ رکھ کر ضرورت مندوں تک پہنچاتا ہے اور بدلے میں ضرورت مند دعا بھی دیتے ہیں اور دوا بھی۔ آپ اگر کبھی کسی بھی کام سے اسلام آباد آرہے ہیں تو آپ کا اسلام آباد آنے سے پہلے ایک ایسے شخص سے تعلق ہونا چاہئے جو آپ کے ہفتوں میں حل ہونے والے مسئلوں کو دنوں میں حل کرانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اس طرح کے لوگوں میں آپ کو صحیح اور غلط دونوں قسم کے لوگ ملیں گے صحیح آدمی آپ کی فائلوں کو پہیے لگادے گا اور غلط آدمی آپ کی فائلوں کو مزید پھنسوادے گا۔ اسلام آباد میں اس طرح کے بہت کردار آپ کو نظر آئیں گے جنہوں نے دیگر لوگوں پر یہ تاثر بنایا ہوا ہے کہ اُن کا ہر بڑی سے بڑی شخصیت سے براہ راست رابطہ ہے کچھ کے مطابق تو اُن سے جب تک ایک دفعہ دن میں یہ کسی اہم مسئلے پر گفتگو نہ کرلیں سوتے نہیں ہیں اور بقول ان کےوزیر اعظم تو ہر وقت بس اُن ہی کے احسان مند ہیں کہ آپ کی وجہ سے میری حکومت چل رہی ہے اس طرح کے آپ کو اسلام آباد میں بہت سے لوگ ملیں گے جو یا تو کاروباری افراد ہیں یا ریٹائرڈ فوجی یا نام نہاد صحافی یا پھر ریٹائرڈ بیوروکریٹس یا کچھ فیشن کے دلدادہ سب نے اپنے اپنے علاقے بانٹے ہوئےہیں اور ہر بڑے سیکٹر میں کوٹھیاں رکھی ہوئیں ہیں ان بڑے جادوگروں کے پیادے بھی ہیں جو پارٹیاں ڈھونڈنے کا کام کرتے ہیں اور اپنے بادشاہ کی شان میں ایسے گُن گاتے ہیں کہ مدد یا تعلق بنانے کا طلبگار فوراً ہی ان کے دروازے پر حاضری دینےکو تیار ہوجاتا ہے یہ مدد کسی بھی طرح کی ہوسکتی ہے کوئی نوکری کا طلبگار ہوتا ہے تو کوئی اپنا اچھی جگہ ٹرانسفر کرانا چاہتا ہے کوئی اپنی فائل آگے بڑھوانا چاہتا ہے تو کوئی ناممکن کو ممکن کرانا چاہتا ہے یا کوئی بس بڑے اور مشہور لوگوں سے دوستی میں ہی خوش ہوجاتا ہے ان جادوگروں نے ہر اُس شخص کو اپنے ڈرائنگ روم کا گرویدہ بنایا ہوا ہے جس کی کسی نہ کسی حوالے سے شہر میں بڑی حیثیت ہے ۔میڈیا کے لوگوں کی سب سے زیادہ ڈیمانڈ ہے اور موجودہ دور میں ہر شخص میڈیا کے لوگوں سے قریب ہونا چاہتا ہے مگر جو واقعی اصول پسند صحافی ہیں وہ اس طرح کے لوگوں کو اچھی طرح پہچانتے ہیں اور اپنے پاس قطعی پھٹکنے نہیں دیتے مگر کچھ غیر اصول پسند بھی ہیں جو کہ آپ کو ہر وقت اس طرح کے لوگوں کے ڈرائنگ رومز میں بیٹھے ہوئے ہی ملیں گے اور ان لوگوں کے ذریعے ہر بڑی پارٹی کو قابو کرنے کی کوشش بھی کررہے ہونگے۔ ان شعبدے بازوں سے ناجانے کتنے سادہ لوح لوگ بدترین نقصانات کا شکار ہوئے ہیں کیونکہ ان کے جھوٹے آسرے دلاسے اور وعدے نہ جانے کتنے لوگوں کو مالی اور کاروباری نقصان پہنچا چکے ہیں نہ جانے کتنے لوگوں کے کاروبار اور مستقبل ان شعبدے بازوں کی وجہ سے تباہ ہوچکے ہیں نہ جانے کتنے ایسے ہیں جن کی جائدادیں، زیور، بینک بیلنس ان کے جھوٹے آسروں کی وجہ سے ختم گئے اور یہ شعبدے باز ایک کے بعد ایک پارٹی کو اپنا شکار کرتے رہے۔ یہاں جج کا نام بھی بکتا ہے جنرل کا بھی اور جرنلسٹ کا بھی جبکہ ان بیچاروں کو پتا بھی نہیں ہوتا۔ ان میں سے کچھ کا صرف یہ نشہ ہے کہ بڑے اور مشہور لوگ ان کے ڈرائنگ روم کی زینت بنتے رہیں اور وہ دوسروں کو اُن کی شکلیں دکھا دکھا کر لوٹتے رہیں ۔ لوٹنے کے طریقے مختلف ہیں یہاں کچھ براہ راست معصوم افراد کو لوٹ لیتے ہیں کچھ اپنے جھوٹے تعلقات بتاکر سرکاری آفیسروں کو ڈرا دھمکاکر کام نکلواکر لوٹ لیتے ہیں کچھ بڑے بڑے لوگوں سے تعلقات بتاکر سرکاری یا غریبوں کے پلاٹوں پر قبضہ کرلیتے ہیں اور اُن بڑے لوگوں کو پتا بھی نہیں چلتا کہ اُن کے نام پر کتنا بڑا کام ہوگیا۔ کچھ بڑے بڑے قرض حاصل کرکے بینکوں کو لوٹ لیتے ہیں ۔ اسلام آباد میں اس طرح کا ہر کردار وزیروں سیکرٹریوں سرکاری آفیسروں کے خلاف خبر کی تلاش میں رہتا ہے جتنی بڑی خبر ہوگی اُتنی ہی زیادہ قیمت مگر حرص اور لالچ کے اس دور میں بھی بہت سے ایسے ایماندار اور جرات مند صحافی ہیں جو بکتے نہیں جھکتے نہیں جبکہ کچھ بکنے کے لئے ہر وقت قیمت لگانے کو تیار رہتے ہیں۔ میں اس طرح کے ہر کردار سے درخواست کروں گا کہ خدا کے لئے لوگوں کی مجبوریوں کا فائدہ نہ اٹھائیں ،اپنی طاقت اور تعلقات کے جھوٹے محل دکھا کر لوگوں کی سچی خوشیوں کو مت روندیں میں ان حقیقی طاقت ور لوگوں سے بھی کہتا ہوں خدا کے لئے اپنا نام اس طرح نہ بکنے دیں اپنی قیمتیں اس طرح نہ لگنے دیں آپ کو پتہ بھی نہیں ہوتا اور آپ کے نام پر بڑے بڑے کام ہوجاتے ہیں۔ آج اسلام آباد میں کم از کم سو ایسے جھوٹے لوگ ہونگے جو وزیر اعظم یا آرمی چیف کے ذاتی دوست ہونے کے جھوٹے دعویدار ہیں جن کے جال میں معصوم پھنستے رہتے ہیں اور جب تک وہ سچ جان پاتے ہیں اُن کا بہت کچھ لُٹ چکا ہوتا ہے۔ میں جال میں پھنسے والے ان معصوم افراد سے بھی کہتا ہوں کہ خدا کے لئے اس طرح کے بہروپیوں سے بچیں آپ کے ارد گرد اکثراس طرح کے دعویدار جھوٹے ہیں، اپنی دولت اور عزت کو ان لوگوں سے بچائیے اور ان کی ظاہری چمک دمک دیکھ کر اعتبار نہ کریں یہ سب چمک دمک آپ جیسے دوسرے لوگوں کو بیوقوف بناکر بنائی گئی ہے اور اگلا نام آپ کا ہوسکتا ہے ان کے شکاروں میں ۔ سب سے زیادہ ذمہ داری صحافی برادری کی ہے وہ اگر چاہے تو اس طرح کے کرداروں کا اصل چہرہ عوام کو دکھا سکتی ہے۔

تازہ ترین