• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فیض آباد انٹر چینج کے کشادہ اسٹیج پر پیش کی جانے والی جس تمثیل کو ہم دیکھتے رہے ہیں اس پر بے لاگ تبصرہ ممکن ہی نہیں۔ ہم جس ماحول میں رہ رہے ہیں اس میں بہت سی باتیں کہی نہیں جا سکتیں۔ ایسے معاملات پر جب بات ہو تو میرا عذریہ ہوتا ہے کہ میں تو میثاق خاموشی پر دستخط کر چکا ہوں۔ ہاں، جو بات کسی اور نے کہی ہو اور جسے میڈیا نے قبول کیا ہو اس کو دہرایا جاسکتا ہے۔ سوشل میڈیا کی بات الگ ہے۔ کئی ٹوٹے میں نے ایسے دیکھے کہ ان میں کی گئی گفتگو کو سننا بھی انتہائی ناگوار گزرا۔ ٹوئیٹر کے ایک تبصرے کو البتہ نقل کرنے کو جی چاہتا ہے۔ کسی نے کہا یا طنز کہا کہ ’’گرتی ہوئی حکومت کو ایک دھرنا اور دوــ‘‘۔ یہاں دھرنوں کی سیاست کے اسرار و رموز کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔ عمران خان کا اسکور ہمیں یاد ہے لیکن مخالفین کی وکٹ تب بھی نہیں گری تھی اور ایمپائر نے اپنی انگلی نہیں اٹھائی تھی۔ اب پورا منظر نامہ تبدیل ہو چکا ہے۔ جس وکٹ کو گرنا تھا وہ کسی اور میدان میں کھیلے جانے والے کھیل میں گر چکی ہے۔ یوں ہم دیکھ رہے ہیں کہ فیض آباد کا دھرنا کوئی اور ہی چیز ہے اور اس کا پیغام بھی مختلف ہے، جو آپ دیکھ رہے ہیں اور جو آپ سن رہے ہیں اس کو الگ رکھیے۔ جو آپ کا دل محسوس کر رہا ہے اور جو آپ کا ذہن سوچ رہا ہے اس کی دھمک اور اس کی تپش اتنی تیز ہے کہ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا جاتا ہے۔ دیوار پر ٹنگی قائد اعظم کی تصویر دھندلا سی جاتی ہے اور اس تصویر کے اطراف گہرے سائے شعلوں کی طرح لپکتے دکھائی دیتے ہیں۔ کئی کہانیاں ہیں جو مخصوص افراد کے چہروں پر لکھی ہوتی ہیں۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کن آنکھوں میں وحشت ہے اور کن آنکھوں میں فریاد۔ صحافی ہونا ایک الگ بات ہے لیکن میں نے ہمیشہ چہرے پڑھنے کی کوشش کی ہے۔ جب کسی شہر، کسی آبادی پر عذاب نازل ہوتا ہے تو اس کا اندازہ آپ عام لوگوں کے چہروں کے تاثرات سے لگا سکتے ہیں۔ میں اس وقت یہ کہنا چاہتا ہوں کہ فیض آباد کے دھرنے کے پس منظر میں جو چہرے میں پڑھ رہا ہوں ان کی تحریرکچھ زیادہ آتشیں ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ پھر ایسے چہرے بھی ہیں جنہیں آپ متاثرین کے خانے میں رکھ سکتے ہیں۔ یعنی وہ لوگ جن کی زندگی میں خلل پڑ رہا ہے۔ جو تھک گئے ہیں روز روز کی افراتفری سے۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان مختلف تحریروں سے بھی ایک بیانیہ تشکیل پا رہا ہے۔ میری تشویش یہ ہے کہ کیا ہمارے حکمراں بھی یہ تحریریں پڑھ سکتے ہیں؟
فیض آباد کے دھرنے کے بارے میں ایک تبصرہ میں اعتماد کے ساتھ نقل کر سکتا ہوں۔ بات سپریم کورٹ یعنی پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت تک پہنچی ہے۔ سپریم کورٹ کے ازخودنوٹس کے نتیجے میں جمعرات کی کارروائی کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جو ریمارکس دیئے ان میں سے چند کہ جو میڈیا میں شائع بھی ہوئے ہیں کہ لگتا ہے کہ مسلمانوں کا اسلامی ریاست میں رہنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اسلام میں کہیں ایسا نہیں لکھا کہ راستہ بند کر دیا جائے۔ ایک شخص کی رٹ قائم ہے، ریاست کی نہیں۔ کیا عدالتیں بند ہوگئی ہیں؟ کل کوئی اور مسئلہ آئے گا تو کیا پھر شہر بند ہو جائیں گے؟ پاکستان کو دلائل کی بنیاد پر بنایا گیا۔ جب دلیل کی بنیاد ہی ختم ہو جائے تو ڈنڈے کے زور پر صحیح بات بھی اچھی نہیں لگتی۔ جب ریاست ختم ہو جائے گی تو فیصلے سڑکوں پر ہوں گے۔ احکام الہی پر عمل نہیں ہو رہا اور ریاست کا سر جھکا ہوا ہے۔ ہم بھی پریشان ہوتے ہیںمگر گالم گلوچ نہیں کرتے۔ سمجھ نہیں آرہی یہ ملک کیسے چلے گا؟ جسٹس عیسیٰ نے اس سے پہلے کی سماعت میں آئین کی شق 15 کا حوالہ دیا تھا جس میں لوگوں کی ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کی آزادی کا ذکر ہے اور انہوں نے یہ سوال پوچھا تھا کہ حکومت نے عوام کے بنیادی حقوق کے لئے کیا، کیا۔ سو جہاں تک اعلیٰ عدالتوں کا معاملہ ہے تو اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنا حکم بہت پہلے صادر کردیا تھا اور حکام کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ راستے بحال کردیں۔ اس ضمن میں حکومت کی جو مجبوریاں ہیں وہ بھی واضح ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ کسی کو راستے سجھائی نہیں دے رہے۔ سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے آئی۔ایس۔آئی سے دوبارہ رپورٹ طلب کی ہے اور یہ سوال پوچھا ہے کہ اس احتجاج کے پیچھے کون ہے اور اس سے فائدہ کسے ہوسکتا ہے۔ ہمارے اور آپ کے ذہنوں میں بھی سوالات کا دھرنا موجود ہے اور کبھی ایک اور کبھی دوسرا سوال اٹھ کر اپنا نعرہ لگاتا ہے۔ اب کیا ہوگا کی اہمیت اپنی جگہ مگر یہ سمجھنا بھی بہت ضروری ہے کہ ہم یہاں تک کیسے پہنچے۔ ہم میں سے کئی لوگ تو ایسے تھے جنہیں اس راستے کے غلط ہونے کا علم تھا کہ جس پر ہم چلتے رہے ہیں لیکن دھرنا دینے والوں کی بات تو حکمراں چپ ہو کر سن سکتے ہیں البتہ عقلیت پسندی اور روشن خیالی کی آواز کو دبانے کی روایت قائم ہے۔
ایک ایسی حقیقت اب واضح ہوتی جارہی ہے جس کا اقرار ہمارے حکمراں کر نہیں پارہے۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے قدامت پرست اور انتہا پسند طبقوں نے ملک کے جمہوری مستقبل کو یرغمال بنا لیا ہے۔ کسی حد تک یہ ہماری سلامتی کی پالیسیوں کا ردعمل ہے کہ مذہب نے سیاست میں اتنا غلبہ حاصل کرلیا ہے۔ پھر یہ سیاسی جماعتوں کی کوتاہی بھی ہے کہ جو روشن خیالی اور لبرل ازم کے محاذ پر پیچھے ہٹتی جارہی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا المیہ قابل غور ہے اور خدا کرے کہ چند دنوں بعد جب اس کے رہنما پارٹی کے قیام کی پچاسیوں سالگرہ منائیں تو وہ اپنے ابتدائی منشور سے بھٹک جانے کا بھی اعتراف کریں۔ یہ سوچ کر بھی عجیب لگتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی آصف علی زرداری کی ملکیت بن جائے گی۔ عمران خان کا امیج ایک ماڈرن لیڈر کا بھی ہے۔ ہمیشہ نیا پاکستان بنانے کی بات کرتے ہیں لیکن جماعت اسلامی سے دیرینہ دوستی تو اپنی جگہ، اب وہ مولانا سمیع الحق کے ساتھ انتخابی اتحاد بنانے کی بات کر رہے ہیں۔ ان کی سوچ کا سب سے خوفناک پہلو یہ ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک گائوں کی غریب لڑکی پر کئے جانے والے ظلم نے ان کی سیاست کو متزلزل نہیں کیا۔ غضب ہے کہ ایک لڑکی کو برہنہ کر کے گائوں میں پھرایا گیا اور وہ بھی انتقام کے نام پر اور بڑی سیاسی جماعتوں نے ایک فرسودہ، قبائلی رواج کے خلاف کوئی آواز بلند نہیں کی۔کوئی تحریک شروع نہیں کی گئی۔ نواز شریف کی جماعت نے اپنی ساری زندگی لکیر کے دائیں جانب کے حلقے میں گزاری ہے۔ اس کے باوجود باغیانہ رویے سے کچھ امید قائم کی جاسکتی ہے اور اس لئے بھی کہ مریم نواز اپنے والد کی مشعل تھامنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ لیکن جس لکیر کی میں بات کر رہا ہوں وہ ایک گہری کھائی بن چکی ہے اور اسے پھلانگنے کی فی الحال کسی میں ہمت دکھائی نہیں دیتی۔ دہشت گردی کے خلاف بڑی کامیابیوں کے باوجود کئی دردناک خبریں ہمیں ہر ہفتے برداشت کرنا پڑتی ہیں کیونکہ نفرت اور انتہا پسندی کی جڑیں گہری ہیں اور جن مذہبی جماعتوں نے ہمارا راستہ روکا ہوا ہے وہ بھی توطالبان کی دور کی رشتہ دار ہیں۔ ان حالات میں دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے ایک اور ٹوئٹ حاضر ہے۔ ’’ایک طرف سے مذہبی انتہا پسندوں کا دبائو آرہا ہے۔ ایک طرف سے چین آرہا ہے۔ لگتا ہے کوئی گرما گرم سین آرہا ہے۔‘‘

تازہ ترین