• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دوستو! قصہ نیا اور بات پرانی۔ کہتے ہیں ہزاروں سال تک انسان جنگلوں اور غاروں میں زندگی بسر کرتا رہا۔ کہتے ہیں اس زمانے میں انسان انسان کا استحصال نہیں کرتا تھا۔ کہتے ہیں کہ جب انسان نے فصل بونا سیکھ لی، اور غلے کو محفوظ بنانے کے طریقے ایجاد کر لئے تو ریاست کی بنیاد پڑی۔ انسان کے اوپر انسان کی حکمرانی کا آغاز ہوا، اور ساتھ ہی ساتھ استحصال کا بھی۔ اللہ ہی جانے کہ اس تھیوری میں کتنا سچ ہے اور کتنا جھوٹ۔ لیکن معلوم تاریخ کے اولین ذرائع سے جہاں تک انسان کی رسائی ممکن ہو سکی ہے، بھی کسی نہ کسی شکل میں ریاست کے وجود اور اس سے منسلک انسانی استحصال کی گواہی دیتے ہیں۔ جب ایک انسان کو دوسرے انسانوں کی زندگی پر اختیار مل جاتا ہے، جب ایک انسان حکمران اور دوسرے انسان اس کے محکوم بن جاتے ہیں، دوسرے لفظوں میں جب ایک انسان کو دوسرے انسانوں کی اور دوسرے انسانوں کیلئے بنائی گئی ریاست یا ریاست کے ایک حصے کی کمان مل جاتی ہے تو پھر وہ وہی کچھ کرتا ہے جس کا نواز شریف پر الزام ہے۔ریاستی سربراہان اور سرکاری عمال کی کرپشن کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی ریاست کی اپنی تاریخ۔
نواز شریف ایک سیاسی رہنما ہے اور ریاست کے اونچے ایوانوں تک اس کی رسائی عوامی حمایت کے حصول سے منسلک رہی ہے لیکن پاکستان کی ستر سالہ تاریخ گواہ ہے کہ ریاست کا اقتدار و اختیار کبھی بھی صحیح معنوں میں عوامی نمائندوں کو منتقل نہیں کیا گیا۔ حتی کہ جب بظاہر عنانِ حکومت منتخب عوامی نمائندوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے، اس وقت بھی ریاست کا اصل کنٹرول کسی اور کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ نواز شریف ریاست پر مختصر وقت کیلئے محدود اختیار کے باوجود، ہر لحظہ حکومت کی ٹوہ میں رہنے والی اپوزیشن کی پھرتیوں کے باوجود، مخالف میڈیا کی عقابی نظروں کی نگرانی کے باوجود اور ہر سانس اور ہر ساعت کا پیچھا کرنے والے نامعلوم سایوں کی عشروں کی کارگزاری کے باوجود اگر انکے مخالفین کے بقول سینکڑوں ارب روپے ملک سے باہر منتقل کر چکا تو سوچیں ریاست پر مستقل کنٹرول اور اختیار رکھنے والے حکمرانوں کے سرمایہ افتخار کا حساب کتاب کیا ہو گا۔ کہ جہاں تک نہ اپوزیشن کی پہنچ ہے نہ میڈیا کی رسائی، جس راہ پر چلنے سے نہ صرف پارلیمان کے پر جلتے ہیں بلکہ میزان عدل کو بھی جھکائو کے طعنے سننے پڑتے ہیں۔
چلیں چھوڑیں! جان و دل کسے عزیز نہیں۔ ایک جنگل کا قصہ سناتا ہوں۔ افریقہ کے مشہور جنگلات میں سے ایک جنگل کا قصہ۔ اس جنگل کا نام تضادستان تھا، دیگر جنگلوں کی طرح وہاں بھی جنگل کا قانون رائج تو تھا لیکن وہ قانون بھی تضادات کی نذر ہو چکا تھا۔ پورا ملک شکاری جانوروں سے اٹا ہوا تھا حتیٰ کہ ایسے جانور جو گوشت خور نہیں تھے، وہ بھی موقع ملتے ہی اپنے سے چھوٹے جانوروں کو ہڑپ کر جاتے تھے۔ شکاری جانور اس جنگل میں آرام فرماتے تھے اور گائے بھینسوں اور چرند پرند کو شکار پر لگایا ہوا تھا۔ اس جنگل پر بظاہر شیروں کی حکومت تھی لیکن دراصل جنگل کے سارے امور چیتوں، بھیڑیوں اور لومڑوں نے سنبھالے ہوئے تھے۔ وجہ اسکی یہ تھی کہ اس جنگل کے شیروں کو ایک موروثی بیماری نے لاغر اور اپاہج بنایا ہوا تھا۔ کام کی تقسیمِ کار کچھ اس طرح تھی کہ شیروں کا گروہ جنگل کا بادشاہ تھا لیکن شکار نہیں کرتا تھا۔
اس لئے جنگل کے تمام جانوروں کو دن رات شکار پر لگایا ہوا تھا، جوشکار کا سارا مال پوری ایمانداری سے جنگل کے خزانے میں جمع کروانے کے پابند تھے۔ چیتے اور بھیڑیے تھے تو ہٹے کٹے لیکن شیروں کی دیکھا دیکھی وہ بھی کئی پشتوں سے شکار کی زحمت سے کنارہ کش ہو چکے تھےاور انہوں نے خود کو شکار کے مال کی "حفاظت" تک محدود کیا ہوا تھا۔ لومڑوں کا کام تھا کہ سارے جنگل کی خبریں اکٹھی کریں اور بادشاہ و رعایا کے درمیان معلومات کے تبادلے کا فریضہ انجام دیں۔ جیسا کہ کام کی تقسیم کار سے واضح ہے کہ جنگل میں ہر وقت انتشار برپا رہتا تھا۔ جنگل کے سارے جانور دن رات شکار کرتے تھے لیکن انہیں کھانے کو بہت کم ملتا تھا۔ بادشاہ لاچار تھا لیکن تھا تو پھر بھی بادشاہ، شکار کے مال سے جو کچھ ہاتھ لگتا لے اڑتا اور اسی پر "قناعت" کر لیتا۔ دراصل شکار کا سارا مال چیتے اور بھیڑیے کھا جاتے تھے لیکن انہوں نے اپنی لوٹ مار چھپانے کیلئے ایک بڑا پیچیدہ نظام وضع کیا ہوا تھا۔ جنگل کے جانوروں اور بادشاہ کے درمیان رابطے کا واحد ذریعہ لومڑ تھے، انہوں نے لومڑوں کو اپنے ساتھ ملایا ہوا تھا، بدلے میں وہ انکو شکار کے مال سے اچھا خاصا حصہ دے دیتے تھے۔ لومڑ بادشاہ سے کہتے تھے کہ جانور بہت تھوڑا شکار کرتے ہیں جبکہ جنگل کے جانوروں سے کہتے تھے کہ آپ کے شکار کا سارا مال شیروں کا گروہ کھا جاتا ہے۔ اس لئے شیروں کے گروہ اور جنگل کے جانوروں کےدرمیان ہر وقت ایک ہیجانی کیفیت برپا رہتی تھی اور وقتا فوقتا جنگل کے جانور بغاوت کر دیتے تھے اسی لئے کوئی بھی شیر زیادہ عرصے تک بادشاہ نہیں رہ پاتا تھا۔ غرض، جنگل کا سارا نظام عدم استحکام، سازشوں اور استحصال سے عبارت تھا۔
تضادستان کے جانور یہ سمجھتے تھے کہ ہر جنگل میں یہی قاعدہ رائج ہو گا لیکن ایسا نہیں تھا۔ پہاڑ کی دوسری طرف ایک ایسا جنگل تھا جہاں شیر توانا اور چالاک تھے، چیتے اور بھیڑئیے چاق چوبند اور شکار کے ماہر تھے، لومڑ اپنا کام خوش اسلوبی سے انجام دیتے تھے جبکہ جنگل کے باقی جانور اپنی جبلت اور علت کے مطابق امور انجام دیتے تھے۔ یہی حال دریا کے اس پار ایک دوسرے جنگل کا تھا۔ تضادستان کے جانور دوسرے جنگلوں کے بارے میں بھی تضاد کا شکار رہتے تھے، انکا خیال تھا کہ پہاڑ کے پار والا جنگل انکا دشمن اور دریا کے پار والا جنگل انکا دوست ہے اس لئے وہ ہمیشہ محفوظ رہے گا کیونکہ دوست جنگل دشمن جنگل سے انکی حفاظت کرے گا۔ وقت گزرتا گیا، تضادستان اندرونی عدم استحکام کی وجہ سے کمزور سے کمزور تر ہوتا گیا اور ہمسائے والے جنگل مضبوط سے مضبوط تر ہوتے گئے۔ طاقت کا توازن اتنا بگڑا کہ ایک دن آیا کہ پہاڑ کے پار اور دریا کے پار والے جنگلوں میں تضادستان پر جھگڑا ہو گیا۔ کافی جنگ و جدل کے بعد صلح ہوئی تو ان شرائط پر کہ جو حصہ پہاڑ والے جنگل کے کنٹرول میں ہے وہ اس کا ہوا اور جو دریا والے جنگل کے کنٹرول میں ہے وہ حصہ اسکا ہوا۔ یہ صرف ایک جنگل کی کہانی نہیں بلکہ جو جنگل بھی تضادستان کی ڈگر پر چلا اس کا انجام یہی ہوا، جنگلوں کی ہزاروں سال کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے۔

تازہ ترین