• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اپنا مقدمہ کمزور کررہا ہے۔دنیا پاکستان کی قربانیوں کو بھول رہی ہے۔کالعدم تنظیموں اور دہشت گردوں کی حمایت کرنے کا الزام شدت اختیار کررہا ہے۔پاکستان کی خارجہ پالیسی چند افراد تلے دبتی جارہی ہے۔تلور کی محتاج خارجہ پالیسی اب چند افراد کی محتاج ہوتی جارہی ہے۔پہلے حقانی نیٹ ورک کی حمایت کے الزام نے نئے امریکی صدر ٹرمپ کو ہم سے ناراض کیا ،اب رہی سہی کسر کہیں ایک ،دو کالعدم تنظیموں کے رہنما نہ پوری کردیں؟ پورے ملک کے مستقبل کو چند افراد کی خاطر خطرے میں ڈالا جارہا ہے۔مجھے یاد ہے کہ چند ماہ قبل ہمسایہ ملک چین کے سفیر نے بتایا کہ حافظ مسعود اظہر کے معاملے میں مزید دفاع کرنا ہمارے لئے ممکن نہیں۔اس خاکسار نے ہمسایہ ملک کے سفیر سے پوچھا کہ پھر آپ یہ بات پاکستانی حکام کو کیوں نہیں بتاتے۔چینی سفیر جذباتی ہو کر کہنے لگے کہ پاکستانی وزارت خارجہ کو تحریری طور پر بتایا گیا ہے۔چینی سفیر کی بات سن کر افسوس ہوا کہ ہمارے لوگ مخلص دوستوں کی بات کو بھی سنجیدہ نہیں لیتے۔
ہمسایہ ملک بھارت سے پاکستان کے تنازع کی بنیادی وجہ یہی چند افراد ہیں۔بھارت میں ہونے والے دہشت گردحملوں کا الزام انہی افراد پرلگتا رہا ہے۔مگر کچھ لوگ ان افراد کو اپنا اثاثہ قرار دیتے ہیں۔ہم سے افغان حکومت کے اختلافات کی بنیادی وجہ حقانی نیٹ ورک کےلوگ تھے اور افغانستان الزام عائد کرتا تھا کہ پاکستان تحریک طالبان پاکستان کے خلاف تو کارروائی کرتا ہے مگر حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتا ہے۔پاکستان مسلسل اس الزام کی تردید کرتا رہا مگر چند سال کی مسلسل مہم کے بعد افغان حکام پوری دنیا کو باور کرانے میں کامیاب ہوگئے کہ امریکی فورسز پر حملہ کرنے والے حقانی نیٹ ورک کی محفوظ پناہ گاہیں پاکستان میں موجود ہیں۔پاکستان کے لاکھ انکار کے باوجود دنیا نے پاکستان کا موقف تسلیم نہیں کیا اور ہمیشہ گڈ طالبان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جاتا رہا۔امریکہ کے نئے منتخب ہونے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی افغانستان ،پاکستان کے حوالے سے اپنے پہلے پالیسی بیان میں حقانی نیٹ ورک کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا مطالبہ کیا اوربالآخر حقانی نیٹ ورک کے خلاف بھی کارروائی کی گئی۔دس سال تک بلاوجہ غیر مقبول موقف پر ڈٹے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا،بلکہ دنیا میں پاکستان کا تاثر خراب ہوا۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جتنی قربانیاں پاکستان نے دی ہیں ،دنیا کے کسی ملک نے نہیں دیں۔افغانستان کے ویران پہاڑوں پر حملے ہوتے رہے مگر پاکستان کے ہنستے بستے شہر تباہ ہوئے۔اس قوم نے وہ وقت بھی دیکھا ہے کہ جب ایک دن میں کئی کئی خودکش دھماکے ہوتے تھے۔جس دن کوئی دھماکا نہیں ہوتا تھا ،اس دن خبر ہوتی تھی۔وگرنہ روزانہ کئی کئی خودکش دھماکے معمول کا حصہ تھے۔مگر ہمارے کمزور موقف اور بغیر کسی ٹھوس دلیل کے چند افراد کی حمایت نے پوری دنیا میں پاکستان کا چہرہ متاثر کیا۔اتنی قربانیوں کے بعد تو پاکستان دنیا کا مظلوم ترین ملک ہوتا اور آج پوری مغربی دنیا کو اپنے اشاروں پر چلا رہا ہوتا مگر چند نامعقول فیصلوں نے تمام قربانیوں پر پانی پھیر دیا۔
آج ایک بار پھر ماضی کی سی صورتحال ہے۔بھارت دنیا کی بڑی معیشت بن چکا ہے۔دنیا کا بھارت کے بغیر چلنا ممکن نہیں ہے۔ہمارا سب سے قریبی دوست چین بھی بھارت کو چھوڑنے کو تیار نہیں ہے۔امریکی صدر اگر جنوبی ایشیا میں کسی ملک کو غیر معمولی اہمیت دیتے ہیں تو وہ بھارت ہے۔سعودی عرب اپنے سب سے بڑے سرکاری سول ایوارڈ سے بھارتی وزیراعظم کو نوازتا ہے۔بل گیٹس کی دنیا میں امریکہ کے بعد سب سے بڑی سرمایہ کاری بھارت میں ہے۔اسٹیو جابز کے بعد ایپل کا روح رواں بھارتی ہے۔دنیا کے سب سے بڑے سرچ انجن گوگل کا سی ای او بھارتی ہے۔کولڈڈرنکس بنانے والی بین الاقوامی کمپنی کی سی ای او بھارتی ہے۔دنیا کی نمبر ون گاڑی مرسڈیز بینز کے دنیا میں دو ممالک میں پلانٹس تھے۔
ایک جرمنی او ر دوسرا جنوبی کوریا۔مرسڈیز بینز نے اب اپنا پلانٹ بھارت میں لگایا ہے۔ہالی ووڈ کی شہر آفاق اداکارہ انجلینا جولی کی پسندیدہ گاڑی Range Roverرینج روور کا پلانٹ بھارت میں لگادیا گیا ہے۔ اسی طرح کمپیوٹر کی بڑ ی کمپنیاں ڈیل،ہیولیٹ پیکرڈ وغیرہ بھارت میں منتقل ہورہی ہیں۔ایسی صورتحال میں دنیا بھارت کو نظر انداز نہیں کرسکتی۔بھارت کے غلط موقف کو بھی درست مانا جائے گا اور ہمارے درست موقف کو بھی نظر انداز کردیا جائے گا۔ایک بڑے اسٹیک ہولڈر سے چند افراد کے پیچھے تعلقات خراب کرنا سمجھ سے بالا تر ہے۔جن چند افراد کو اپنا اثاثہ کہا جاتا ہے،تو آج وہ وقت نہیں رہا کہ بھارت ہم پر حملہ کرے گا اور جہاد کی یہ نرسریاں کام آئیں گی۔ایسا کبھی نہیں ہوگا۔
پاکستان سمیت کسی بھی ملک پر حملہ کرنا بھارت کی ترجیحات ہی نہیں اور نہ ہی ہوسکتی ہیں۔بھارت کی معیشت دن بدن اوپر جارہی ہے۔دنیا کا اصول ہے کہ جن ممالک کی معیشت تیزی سے ترقی کررہی ہوتی ہے وہ خود کو جنگوں جیسے مسائل میں نہیں دھکیلتے۔جنگ کی باتیں معاشرتی علوم اور تاریخ کی میٹرک کی کتابوں تک تو اچھی لگتی ہیں مگر اب ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔پاکستان کو حکمت سے کام لینا چاہئے۔ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ ہم مکی زندگی گزار رہے ہیں۔مدنی زندگی تک پہنچنے میں ابھی وقت لگے گا۔جن چند افراد کو ہم چند سال بعد اپنے آپ سے دور کریں گے،انہیں آج ہی دور کردینا چاہئے۔وگرنہ نتائج بہت خوفناک ہونگے۔کیا ہم ایک یا دو افراد کے لئے ایٹمی جنگ کریں گے ؟ ایسا ہر گز نہیں ہے۔بلکہ ان افراد کا Baggage برداشت کرنا اب پاکستان کے بس کی بات نہیں ہے،بلکہ اب بڑا فیصلہ لیتے ہوئے دنیا کو مثبت پیغام دینا چاہئے۔ایک ایسا فیصلہ جس سے ہمسایہ ملک چین کی نظروں میں بھی آپکی اخلاقی حیثیت مضبوط ہو۔وگرنہ داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔۔۔۔اسی پر اقبال نے کہا تھا کہ
آئین نو سے ڈرنا ،طرز کہن پر اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
نوٹ۔ کالم نگار کی اس رائے سے بہت سے لوگوں کو اختلاف ہو سکتا ہے۔ اگر اس حوالے سے کوئی رائے زنی کرنا چاہے تو ادارتی صفحات حاضر ہیں۔ (ادارہ)

تازہ ترین