• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حال ہی میں پنجاب میں ہیپاٹائٹس آرڈیننس 2017ء نافذ کیا گیا ہے۔ پاکستان میں ہیپا ٹائٹس بی اور سی انتہائی تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے ، یہ مرض جان لیوا ہے اور اس کا علاج بہت مہنگا ہے۔ اگرچہ حکومت نے پی کے ایل آئی (پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ) کو یہ کام سونپا ہے لیکن ہمارے خیال میں پی کے ایل آئی مرض کی شدت اور مسائل پر قابو نہیں پاسکے گا اس لئے کہ پاکستان میں ہر نواں شخص ہیپا ٹائٹس بی یا سی کا شکار ہو رہا ہے۔ ایک 400بیڈز کا اسپتال جس میں ہیپا ٹائٹس اور گردے کے امراض کا بھی علاج ہونا ہے وہ کس طرح ان مسائل پر قابو پاسکے گا۔حکومت نہیں معلوم پی کے ایل آئی کے سربراہ کوکیوں خوش کرنا چاہتی ہے؟ بے شک کرتی رہے، یہ بھی معلوم ہو ہی جائے گی۔ البتہ حکومت پنجاب کا شعبہ پرائمری اینڈ سکینڈری ہیلتھ لائق تحسین ہے کہ اس نے ہیپا ٹائٹس اینڈ انفیکشن پروگرام کے تحت پنجاب میں تحصیل اور اضلاع کی سطح پر 100 سے زیادہ ہیپا ٹائٹس کلینکس قائم کئے ہیں اور صوبہ پنجاب میں خواجہ عمران نذیر وزیر پرائمری اینڈ سکینڈری ہیلتھ کی زیر نگرانی اب تک 30 کروڑ روپے مالیت کی ادویات مفت تقسیم کی گئی ہیں جبکہ 4ماہ میں 20ہزار رجسٹرڈ مریضوں کو ان کے گھروں کی دہلیز تک مفت ادویات فراہم کی گئی ہیں اور رواں سال میں 90ہزار مریضوں کو یہ ادویات مفت دی جائیں گی۔ حکومت ہیپا ٹائٹس کے کنٹرول کے لئے جو اقدامات کررہی ہے وہ لائق تحسین ہے لیکن دوسری طرف سیلون، بیوٹی پارلر اور حجام حضرات اس آرڈیننس کے باوجود اپنی لائسنسنگ اور رجسٹریشن نہیں کرا رہے جس کی وجہ سے ہیپا ٹائٹس کنٹرول پروگرام مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر پائے گا ۔یوسف رضا گیلانی کے زمانے میں بھی ہیپاٹائٹس کنٹرول پروگرام کے اربوں روپے اس کے سربراہ ایک ڈاکٹر لے اڑے تھے۔ آج تک ان کا حسا ب نہیں ہوا۔ اور وہ آج بھی ایک میڈیکل کالج کے سربراہ ہیں۔ کیونکہ آج بھی پاکستان میں لاکھوں حجام کی دکانیں ہیں اور پھر سڑکوں پر جگہ جگہ حجام حضرات بیٹھے ہیں جو بغیر کسی حفاظتی طریقے کے ایک ہی استرے سے شیو اور بال کاٹتے ہیں۔ سو آرڈیننس بے شک حکومت بنا لے مگر جب تک ہیپا ٹائٹس بی کی ویکسی نیشن لازمی قرار نہیں دی جائے گی اور حفاظتی اقدامات نہیں کئے جائیں گے یہ مرض رکنے والا نہیں ہے۔ حکومتی ذرائع کہتے ہیں کہ ہر نواں شخص ہیپا ٹائٹس بی، سی میں مبتلا ہے جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر چوتھا شخص اس مرض میں مبتلا ہو چکا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ آنے والے چند برسوں میں یہ تعداد دگنی ہو جائے گی۔ اس آرڈیننس میں کچھ باتیں بڑی مضحکہ خیز ہیں۔ مثلاً اگر کوئی شخص جان بوجھ کر یا عمداً کسی دوسرے شخص کو ہیپا ٹائٹس کا وائرس یا بیماری منتقل کرنے کا باعث بنتا ہے تو اس شخص کو کم سے کم ایک ماہ قید اور پچاس ہزار روپے جرمانہ ہوگا۔اس بات کا فیصلہ کیسے ہوگا؟ اس کے علاوہ جان بوجھ کر کوئی مریض کسی دوسرے شخص کو ہیپا ٹائٹس کا وائرس منتقل کرنے کا باعث بنتا ہے تو اس شخص کو کم سے کم تین سال کی سزا اور دو لاکھ روپے جرمانہ کیا جائے گا اور ایسا شخص جو لوگوں کو ہیپا ٹائٹس سے محفوظ رکھنے کا ذمہ دار ہے وہ اگر کسی بھی وجہ سے ہیپاٹائٹس کی منتقلی، پھیلائو میں مدد یا اعانت کرتا ہے تو اس شخص کو چھ ماہ قید اور دس لاکھ روپے جرمانہ کیا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ جس شخص کو ہیپا ٹائٹس کا وائرس ہے وہ کسی دوسرے شخص کو خود کیسے یہ وائرس منتقل کر سکتا ہے اور دوسرا جان بوجھ کر یہ وائرس کیسے منتقل کرسکتا ہے۔ جس شخص کو یہ وائرس ہے وہ ہمارے معاشرے کی روایات کے مطابق اپنی بیماری کو Disclose نہیں کرتا۔ ہوٹلوں میں کام کرنے والے سینکڑوں کارکن اس مرض میں مبتلا ہیں اوریہ رپورٹ آچکی ہے۔ یا تو وہ اپنا خون کسی کو لگائے یا اس سے اپنا جسمانی تعلق قائم کرے یا جان بوجھ کر سرنج میں خون بھر کر اپنا خون اس کو منتقل کر دے۔یا پھر نشہ کرنے والے ایک ہی مشترکہ سرنج سے ایسا کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو لوگ شعبہ صحت سے منسلک ہیں چاہے وہ ڈاکٹرز ہیں، پیرا میڈیکل اسٹاف ہے یا نرسیں ہیں اور اگر انہیں ہیپا ٹائٹس بی یا سی ہے اور وہ ڈیوٹی کر رہے ہیں تو اس غفلت کا کون ذمہ دار ہوگا؟ اور پھر کوئی جان بوجھ کر تو کسی کو ہیپاٹائٹس کا مرض منتقل نہیں کرے گا۔ اس آرڈیننس میں کئی چیزیں ایسی ہیں جو واضح نہیں ہیں۔ کتنے دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ پاکستان کے تمام سرکاری محکموں میں کوئی ایسا نظام نہیں ہےکہ ملازمین کے ہیپاٹائٹس بی اور سی کی ا سکریننگ ہو سکے۔ جیلوں میں بدترین حالات ہیں۔ ایڈز اور ہیپاٹائٹس کے مریضوں کی بہتات ہے۔ پھر کہا گیا کہ اسپتالوں میں حاملہ عورتوں کے ہیپاٹائٹس ٹیسٹ کروانے کا اہتمام کیا جائے گا۔ پورے ملک کے کتنے اسپتالوں میں یہ سہولت ہے، اس کا بھی جائزہ لیا جائے۔ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ تمام اسکولوں کالجوں میں داخلے کے وقت فیس کے ساتھ ہیپاٹائٹس کے انجکشنز کے پیسے لے لئے جائیں اور بنک چالان فارم دیتے ہوئے اسی وقت ان کو ہیپاٹائٹس بی کی ویکسینیشن کروا دی جائے، اسی طرح پورے ملک میں فقیروں ، خانہ بدوشوں ، مدرسوں کے طالب علموں کے لئے جنگی بنیادوں پر ہیپاٹائٹس کی ویکسینیشن مہم شروع کی جائے پھر کوئی اچھے نتائج آنے کی توقع ہے۔ ایک پی کے ایل آئی بنا لیں یا دس بنا لیں اس سے کچھ نہیں ہو گا۔ اس ہفتے پاکستان کے انتہائی پرائم میڈیکل انسٹی ٹیوشن کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی تقرری ہو گئی ہے۔ یہ تقرری چار ماہ کے پروبیشن پیریڈ پر کی گئی ہے، اگرچہ تقرری چار سال کے لئے ہے لیکن چار ماہ کا پروبیشن پیریڈ رکھا گیا ہے۔ دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ میرٹ کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے یہ تقرری کی گئی ہے جبکہ کئی پروفیسر ان سے سینئر موجود ہیں اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے گریجویٹ ہیں اور وہ کلینکل سائیڈ کے ڈاکٹرز ہیں۔ کیسے کیسے نامور ڈاکٹر اس ادارے سے منسلک رہے۔ایک ایسے شخص کو وی سی لگایا گیا ہے جو کہ بیسک سائنس کا استاد ہے۔ کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کا گریجویٹ بھی نہیں ہے اور میرٹ پر بھی اس کا داخلہ قائداعظم میڈیکل کالج بہاولپور میں ہوا تھا اور ایک پرائیویٹ یونیورسٹی سے انہوں نے پی ایچ ڈی کی، دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ اس وقت کسی بھی میڈیکل یونیورسٹی اور کالج میں نہ کوئی وی سی میرٹ پر لگایا گیا ہے نہ پرنسپل۔ پھر ادارے اسی طرح تباہ ہوتے ہیں۔ ہمیں یہاں ایک لطیفہ یاد آ گیا۔ ’’دو دیہاتی دوست آپس میں ملتے ہیں تو پہلا دوست دوسرے سے کہتا ہے کہ سنائو! تمہارا جو بیٹا اندھا تھا وہ آج کل کیا کرتا ہے، دوسرا دوست جواب دیتا ہے کہ وہ چاند دیکھنے کے محکمے میں لگ گیا ہے۔ پھر وہ پوچھتا ہے کہ دوسرا بیٹا جو پڑھتا نہیں تھا وہ کیا کرتا ہے، اس نے جواب دیا کہ اس کو ہیڈ ماسٹر لگوا دیا ہے۔ اس نے پھر پوچھا کہ جو بیٹا لنگڑا تھا وہ کیا کرتا ہے تو دوست نے جواب دیا کہ وہ ہاکی کھیلتا ہے۔ پھر اس نے پوچھا کہ جو تمہارا بیٹا سائیکل سے گر جاتا تھا وہ کیا کرتا ہے تو اس نے جواب دیا کہ وہ بس چلاتا ہے۔ پھر اس نے کہا جو بیٹا تیرا چوریاں کرتا تھا وہ کیا کرتا ہے اس دوست نے کہا کہ اسے تھانیدار لگوا دیا ہے۔ سمجھنے والوں کو ہماری یہ بات سمجھ میں آ گئی ہو گی۔ چھوٹے میاں صاحب! اِس طرح اداروں کو برباد نہ کریں اور ہر ایک پر اندھا دھند اعتبار بھی نہ کریں۔

تازہ ترین