• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں دن بدن سیاسی حالات جس تیزی سے خرابی کی طرف جارہے ہیں، اس کا سب سے زیادہ منفی اثر ہماری معاشی اور سماجی سرگرمیوں اور عام افراد کے حالات زندگی پر پڑرہا ہے، خاص کر روزمرہ اجرت پر کام کرنے والے افراد اور کم آمدنی والے خاندان بڑے پریشان ہورہے ہیں۔ سب ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا پاکستان کے حالات اسی طرح خراب ہوتے رہیں گے، کیا پاکستان میں سیاسی لڑائی جھگڑے اسی طرح ہوتے رہیں گے، پاکستان نے تو70سال کے عرصہ میں بہت سی ترقی کی ہے مگرقومی سطح پر قومی سوچ اور فکر کا فقدان کم ہونے کی بجائے بڑھتا جارہا ہے جس سے پاکستان دشمن قوتوں کو عوام کی غربت ،افلاس اور بھوک سے فائدہ اٹھانے کا بھرپور موقع مل رہا ہے۔ یہ سب حالات دن بدن بدتر کیوں ہوتے جارہے ہیں، اس سلسلہ میں قومی میڈیا سمیت سول سوسائٹی کے تمام طبقوں کو مل بیٹھ کر سوچنا چاہئے۔ اس حوالے سے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو بھی اپنا سیاسی سے زیادہ قومی کردار ادا کرنا ہوگا، تاکہ پاکستان میں عدم اعتماد اور مایوسی کے رجحان کی حوصلہ شکنی ہوسکے۔ ایسی صورتحال میں نہ تو کاروبار زندگی صحیح طریقے سے چلتا ہے اور نہ ہی امور ریاست ۔ا س وقت تو ایسے نظر آرہا ہے کہ ریاست میں رٹ نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ ہر طرف قانون شکنی اور ریاستی اداروں کی تضحیک اور انہیں متنازع بنانے کے رجحانات کسی صحت مند سوچ کی عکاسی نہیں کررہے۔ اس وقت حکومتی اور نجی ادارے جتنے مرضی دعوے کریں کہ انہوں نے مشکلات کے باوجود بجلی کی فراہمی کوبہتر بنادیا ہے، مہنگائی پر بھی کافی حد تک قابو پالیا گیا ہے،لیکن اس کے برعکس دن بدن بڑھتی ہوئی بدامنی، قانون شکنی اور ناامیدی کا رجحان بڑھناحددرجہ افسوسناک امر ہے۔ اس صورتحال کی وجہ سے کرپشن جیسا ناسور اب ناسور نہیں ضرورت سمجھا جارہا ہے۔ ہر شعبہ میں ناانصافی اور میرٹ کا نام لے کر میرٹ کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں، یہ سب کیوں ہورہا ہے، کیا ہمارے سیاسی قائدین نے پارلیمنٹ میں اپنے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے قانون پاس کرانے کے علاوہ کوئی قومی مفاد بھی پیش نظر رکھا ہے، کیا کبھی پارلیمنٹ (قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیاں) میں کبھی بے چارے عوام اور پاکستان کی سلامتی پر مرمٹنے والوں کے معاشی تحفظ اور معاشی حقوق کی بحالی کے لئے کبھی کوئی آواز اٹھائی گئی ہے۔ عوام کے معاشی تحفظ کا آئینی دستاویز میں بھی وعدہ موجود ہے مگر سالانہ2 سے 3 ارب روپے کی مراعات اور اخراجات سے چلنے والے پارلیمان اداروں کو عوام سے ووٹ لینے کے سوا کبھی عوامی مسائل اور حقوق کا خیال آیا۔ اب سنا ہے کہ2018ءمیں الیکشن ہونے والے ہیں۔ اللہ کرے ایسا ہو، مگر حالات ایسے نظر آرہے ہیں کہ شاید کچھ اور بھی ہوسکتا ہے، اگر کچھ بھی ایسا ویسا ہوا تو اس کے ذمہ دار جمہوریت کے نام نہاد دعویدار اور ٹھیکیدار ہوں گے اور ہوسکتا ہے کہ عوام کچھ اطمینان کا سانس لیں، عوام کو اس وقت جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے وہ روٹی اور سیکورٹی کا ہے، دونوں چیزیں ہی عوام کی اکثریت کے لئے خواب بنتی جارہی ہیں۔ ملک میں مڈل کلاس پستی جارہی ہے، امیر اور غریب تر طبقہ کے اپنے اپنے مسائل ہیں۔ غرض یہ کہ قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ایک موثر قیادت کی کمی کو شدت سے محسوس کررہا ہے ۔ عوام اور ریاست دونوں ایک ایسی قیادت کی تلاش میں نظر آرہے ہیں جو پاکستان کو ہر لحاظ سے معاشی طور پر مضبوط بناسکے۔ ملک معاشی طور پر مضبوط ہوگا تو قومی سلامتی کو درپیش کئی خطرات خود بخود ختم ہوجائیں گے۔ اس لئے معاشی میدان میں سیاسی مفادات سے ہٹ کر قومی حکمت عملی بنائی جائے، اگر ایسا نہ کرسکے تو پھر2018کا آغاز اور اختتام بھی ایسے ہی روتے دھوتے ہوجائے گا۔

تازہ ترین