• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لندن میں ایک حالیہ بات چیت کے دوران پاکستان کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے خود مختارکشمیر کے خیال کو مسترد کرتے ہوئے اسے ایک غیر حقیقی پسند تصّور قراردیا۔یہی اصل میں پاکستان کا سرکاری مؤقف ہے جسکا اظہار بہت کم کیا جاتا ہے۔عمومی طور پر پاکستان مسلسل کشمیریوں کو حق خود اختیاری دینے کی بات کرتا ہے تاکہ وہ خود اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکیں۔ اگرچہ وزیراعظم عباسی نے کشمیر کے حوالے سےپاکستان کے سرکاری نقطہ نظر کو دہراتے ہوئے بتایا کہ ’ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جانا چاہئے جو کشمیر کے لوگوں کے لئے خود مختار ہونے کا مطالبہ کرتی ہیں۔لگتا ہے کہ جموں وکشمیر کے بارے میں پاکستان کا کئی دہائیوں کے غیر یقینی موقف سے انحراف شاید کردستان اور کتلونیا میںآزادی کےلئے ریفرنڈم سے پیدا ہونے والے تنازعات سے جزوی طور پر متاثر ہوکر کیا گیا ہے۔عوامی مقبولیت اور ریفرنڈم کی کامیابی کے باوجود کرد اور کتالن عوام کی آزادی کی خواہشات کو حالات کے جبر نے مسترد کردیا۔
کردوں کی آزادی کے منصوبے کو اگرچہ امریکی، یورپی اور اسرائیلی حمایت حاصل تھی، لیکن تمام علاقائی طاقتیں عراق، ترکی اور ایران، اور یہاں تک کہ شام نےبھی حمایت نہیں کی کیونکہ انکا مؤقف یہ ہے کہ خودمختار کرد ریاست کا منصوبہ مشرق وسطیٰ میں مزید تباہی پھیلانے کا مغربی منصوبہ ہے۔ اسی طرح کتالونیا کیلئے بےپناہ عوامی حمایت کے باوجود یورپی دارالحکومتوں میں اسکی کوئی پذیرائی نہیں ہوئی حالانکہ یہی یورپی ممالک دنیا کے کئی حصّوں میں حق خود اختیاری کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔موجودہ حالات میں خودمختار کشمیر کے نعرے کو مغربی طاقتوں کیجانب سے خطے خاص طور پر پاکستان میں حالات کو غیر مستحکم کرنیکی مسلسل کی جانے والی کوششوں کیساتھ جوڑا جاسکتا ہے۔اسکے علاوہ ایسی کوششوں کو پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے خلاف عالمی اور علاقائی سطح پر ہونے والی سازشوں کے ساتھ بھی جوڑا جاسکتا ہے۔ان حالات میں ایسی کسی بھی تجویز کے خلاف مضبوط چینی ردعمل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔اس تناظر میں وزیراعظم عباسی کا بیان ممکنہ چینی خدشات کو زائل کرنیکی کوشش قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ پچھلے ایک ڈیڑھ برس سے جب سے اس راہدداری کے ارد گرد کا بنیادی ڈھانچہ ایک مستحکم شکل میں سامنے آیا اسکے خلاف بھارت اور امریکہ کی جانب سے مخالفت میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے۔
گزشتہ ہفتے پاکستانی فوج کے چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات نے دعوی کیا کہ بھارتی جاسوسی ایجنسی را نے سی پیک کو سبوتاز کرنے کیلئے 500 ملین ڈالر مختص کئے ہیں۔ سول اور عسکری قیادت میں اس بات پر اتفاق رائے موجود ہے کہ بھارت اور امریکہ سی پیک کو سبوتاژ کر نا چاہتے ہیں تاکہ پاکستان کو سیکورٹی اور اقتصادی اعتبار سے مضبوط ہونے سے روکا جاسکے۔ اکتوبر کے آغاز میں امریکی دفاعی سیکریٹری جیمز میٹس نے واضح الفاظ میں سی پیک کی یہ کہہ کر مخالفت کی کہ اس کا گزر ایک متنازعہ علاقے سے ہوتا ہے جو بقول میٹس کے اس منصوبے کی سب سے بڑی کمزوری ہے،اس سے پہلے ستمبر میں چین میں جی20 سربراہی اجلاس میں بھارتی وزیر اعظم مودی نےسی پیک کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے متنازعہ قراردیا تھا کیونکہ یہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے ہوکر گزرتا ہے۔بھارت کیجانب سے سب سے زیادہ خدشہ بھارتی فوج کے سربراہ جنرل بپن راوت کیجانب سے ظاہر کیا گیا۔ ا س سال اگست کے آخرمیں انہوں نے سی پیک کو بھارت کی سالمیت کیلئے ایک بڑا چیلنج قراردیا،اس سے پہلے بھارتی وزیراعظم مودی نے بھی اس منصوبے پر تنقید کرتے ہوئے اسے ملک کی خود مختاری کیلئے ایک بڑا خطرہ گردانا تھا۔
بھارت اور امریکہ کی مشترکہ مخالفت کے جواب میں پاکستانی ردعمل ابھی تک مبہم ہے۔جیمزمیٹس کے جواب میں پاکستان کے وزیر داخلہ جناب احسن اقبال کا بیان قدرےحیران کن تھا جس میں آپ نے امریکہ سے گزارش کی کہ وہ’ ’سی پیک کو بھارتی نقطہ نظر سے دیکھنے کی کوششیں ترک کرے‘‘۔ احسن اقبال صاحب کے بیان کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ سی پیک کی مخالفت امریکی منصوبہ بندی کاحصّہ ہے تاکہ اس راہداری کیوجہ سے چین اور پاکستان کو اسٹریٹجک فوائد حاصل کرنےسے نہ صرف روکا جاسکے بلکہ پاک چین اسٹریجک پارٹنرشپ کو بھی توڑا جاسکے۔ امریکی دفاعی اداروں کی امداد سے چلنے والے امریکی تھنک ٹینکس برصغیر کے بارے میں مستقبل کے منظر ناموں میں 2016 تک بھارت کے ہاتھوں پاکستان کی تباہی اور پھر قبضے کی نوید دیتے تھے تاکہ امریکی امداد سے نئے اکھنڈ بھارت کے ذریعے چین کی ابھرتی ہوئی طاقت کو غیر فعال یا کنٹرول کیا جاسکے۔بہرحال یہ بات واضح ہےکہ بھارت اورپاکستان دونوں ریاست جموں و کشمیرکی موجودہ تقسیم پر رضامند ہیں اور اسمیں وہ کسی قسم کی تطہیر کے روادار نہیں. ان حالات میں بھارت نواز کشمیری سیاستدان اور جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلی فاروق عبداللہ کی باتیں قابل توجہ بھی ہیں اور غور طلب بھی۔ آپ نے حال ہی میں آزاد کشمیر پر مسلسل بھارتی دعووؤں سے تنگ آکر بھارتی حکومت کو صلاح دی کہ وہ جلد اس علاقے پر اپنا قبضہ جما لے۔ مگر ساتھ ہی انھوں نے یہ یاد دہانی بھی کرائی کہ پاکستان نے چوڑیاں نہیں پہنیں ہیںاور یہ کہ اس کے پاس بھی ایٹم بم ۔ اسکے علاوہ انہوں بات چیت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے مشورہ دیا کہ "ہمیں جنگ کےبارے میں سوچنے سے پہلے اس بات پر غور و فکر کرنا چاہئے کہ ہم کیسے انسانوں کے طور پر رہ سکتے ہیں".
سی پیک کے بارے میں بھارتی مخالفت کو صحیح تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ سی پیک دونوں ممالک اور متنازع جموں و کشمیر کی تعمیر و ترقی کیلئے کافی بہترین مواقع پیش کرسکتا ہے جس سے علاقائی اقتصادی صورتحال پر بےپناہ مثبت اثرات پڑ سکتے ہیں،اپنی دانست میں چینیوں نے بھارتی مخالفت کو نرم کرنے کی ہرممکن کوششیں کی ہیں۔ اس سال مئی کے آغاز میں بیلٹ اور سڑک کے سربراہ اجلاس سے پہلے جسکا بھارت نے بائیکاٹ کر دیا چینی حکّام نے بھارتی اہلکاروں کو سی پیک کا نام بدل دینےکی پیشکش کی تاکہ بھارتی خدشات کا کچھ ازالہ کیا جاسکے۔ ماضی قریب میں مشرف دور میں بھارت اور پاکستان نے جموں وکشمیر کے حوالے سے کئی اقدامات کئے تھے جن میں دونوں حصوں کے درمیان راہداری کو آسان بنانے کے علاوہ ایک بس سروس اورتجارت جیسے اقدامات شامل ہیں۔اس سے نہ صرف اعتماد سازی میں بہت بہتری آئی تھی بلکہ کچھ عرصہ کیلئے مستقبل کے بارے میں بڑی امیدیں بھی بندھ گئی تھیں۔ سی پیک حجم اور عالمی سطح پر اسکی دسترس کیوجہ سے اعتماد سازی کے عمل میں سب سے بڑے عنصر کے طور پر ابھر سکتا ہے۔ شرط بس یہ ہے کہ پاک بھارت تعلقات میں بہتری کی کوئی مستقل سبیل نکل آئے۔

تازہ ترین