• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ عنوان شاہ خنداں جناب ڈاکٹر جنرل شفیق الرحمٰن صاحب کی دو کتابوں کا عنوان ہے، ان کتابوں میں تین کردار بہت جاندار ہیں، ایک تو شیطان کی آپا ہیں، باقی دو کو زید اور بکر کہہ لیجئے، شیطان کی آپا جونہی کوئی واقعہ ہو گزرے، وہ کہتی ہیں مجھے پہلے ہی معلوم تھا، زید جو جسمانی طور پر کمزور مگر باتیں بنانے میں تیز طرار ہے، بکر طاقتور اور خاموش طبع، بکر زید کو اٹھا کر زمیں پر دے مارتا ہے اوراس کے اوپر بیٹھ کر زید کی پسلیوں میں کہنی چبھو دیتا ہے، درد میں بکر کی چیخیں نکلتی ہیں اور وہ رونے لگتا ہے، مگر اسکول میں اپنے دوستوں میں شیخی بھگارتا ہے کہ کل میں نے بکر کو اٹھا کراپنے اوپر گرا لیا، پھر میں نے اپنی پسلیاں اس کی کہنی میں چبھو دیں، بکر کھلکھلا کے رو رہا تھا اور میں (زید) زار و قطار ہنستا رہا۔ اسلام آباد کے دھرنا ڈرامے میں بھی یہ تینوں کردار اسی ترتیب سے دیکھے جاسکتے ہیں، یہاں بھی ایک عدد شیطان کی آپا یورپی سفارت کاروں کو بل پاس ہونے سے پہلے ہی قادیانیوں کے بارے خوش خبری سناتی ہیں، گویا سارے یورپی سفارتخانے قادیانی دوستوں سے بھرے ہیں اور زید نے بکر کو اپنے اوپر گرا رکھا ہے، زید تین ہفتوں سے نیچے گرا زار و قطار ہنستا ہے اور بکر (خادم حسین رضوی) کی کہنی میں زید کی پسلیاں چبھ رہی ہیں اس لئے وہ کھلکھلا کر روئے جاتا ہے۔ حضرت اقبال نے فرمایا؎
کہ درویشی بھی عیاری ہے، سلطانی بھی عیاری
اگر دونوں عیاریاں اکٹھی ہوں تو نشہ بڑھتا ہے، شرابیں جو شرابوں سے ملیں، جنہوں نے دھرنے کا ڈول ڈالا اور جس نے اس کا انتظام کیا، بے شک ان کے ارادے سیاسی تھے لیکن جو شریک محفل (دھرنا) تھے وہ معصوم، جذباتی، سیدھے سادے، مخلص، مذہبی جوش اور عقیدت مندی سے شریک تھے۔ پہیےلگی کرسی پر بیٹھا ان کا لیڈر لاکھ قسمیں، وعدے، دعوے کرے کہ اس کے دھرنے میں کوئی سیاست نہیں مگر سیاست تو ہے اور دور سے بھی صاف نظر آتی ہے۔ تحریک یا رسول اللہؐ الیکشن کمیشن میں بطور سیاسی جماعت کے رجسٹرڈ ہے،۔ اپنے قیام کے بعد دو صوبوں کے ضمنی انتخابات میں حصہ لے چکی ہے اس کی موجودہ دھوم دھڑکےوالی چال نے ہم چشموں کو فکر مند بنا دیا ہے۔ ایک مذہبی فرقے کا ذیلی گروپ تن تنہا اٹھ کھڑا ہوا، تین ہفتوں سے سارے ذرائع ابلاغ ’’قلم اور کیمرہ، ان کے لئے وقف رہے اور تشہیر کے لئے حکومت الگ سے کروڑوں روپے کے اشتہارات چلا رہی ہے، اگر ان کے مقاصد سیاسی یا ذاتی مفاد کے لئے نہ ہوتے تو تنہا پرواز کا شوق نہیں پالتے، دیگر مذہبی جماعتوں، گروہوں اور عوام الناس کو ساتھ لیکر چلتے کیونکہ سارے پاکستانیوں کے جذبات اس سےالگ یا مختلف نہیں تھے۔
پہلے پہل اسلام آباد ہائی کورٹ کا اس مسئلے کو ہاتھ میں لینا اور بعد میں سپریم کورٹ کا از خود نوٹس، اگر عدالت عظمیٰ کو نوٹس لینا ہی تھا تو حکومت کی ’’نالائقی اورناکامی‘‘ کا نوٹس لینے کی ضرورت تھی، جو عدالت کے حکم کا سہارا ملنے کے باوجود چند سو لوگوں کو اٹھانے میں ناکام رہی۔ آپریشن کے ناکام ہونے کی وجہ دھرنے والوں کی طاقت نہیں بلکہ حکومت کی نااہلی ہے، آج ناکام آپریشن کے بعد یہ ’’وبا‘‘ پورے ملک کے ہر شہر اور قصبے میں پھیل چکی ہے اس لئے اب طاقت کے زور پر اسے دبانا ممکن ہی نہیں ہوگا، ہر صورت مذاکرات کرنے ہونگے، چھ لوگوں کی شہادت درجنوں زخمی اور سیکڑوں گرفتاریوں کے بعد اب یہ بلا صرف ایک وزیر کے استعفیٰ سے ٹلنے والی نہیں، اگر پوری کابینہ نہ گئی تو بھی کم از کم چار کی قربانی لازم ہو جائیگی، احتجاج شہر، شہر پھیلتا ہوا وزراء سے لیکر ممبران اسمبلی کے گھروں تک پہنچ چکا ہے، کم از کم دو ممبران اسمبلی اور ایک وزیر استعفیٰ کا اعلان کر چکے ہیں۔ وزیر قانون کے استعفیٰ اور رینجرز پنجاب کے سربراہ کو اختیارات ملنے کے بعد اس قضیئے کے پرامن اور بات چیت سے کوئی حل نکلنے کی امید کی جاسکتی۔ اگرچہ تحریک لبیک یا رسول اللہ کے مقاصد بھی سیاسی ہیں مگر اس جھگڑے کو جب دلیل سے نمٹانے کی نوبت آجائے تو حکومت کا پلڑا ہلکا، دلائل بودے ہیں جن میں کوئی وزن نظر نہیں آتا۔ سوشل میڈیا پر ایک چھوٹا کلپ چل رہا ہے کہ ’’جو پارٹی اور حکومت خود سپریم کورٹ کا فیصلہ ماننے کو تیار نہیں وہ دھرنے والوں سے ہائیکورٹ کا فیصلہ منوا رہی ہے‘‘ وزیر داخلہ بڑی فکر مندی کے ساتھ متحرک رہے، انہوں نے پریس کانفرنس میں کہاکہ ختم نبوت کے عہدنامے کو پہلے سے بھی زیادہ موثر اور بہتر بنا دیا گیا ہے اس لئے اب احتجاج کا کوئی جواز باقی نہیں رہا۔ مگر دھرنے والوں کا مطالبہ کچھ مختلف ہے وہ اس گھنائونی اور قوم کو مضطرب اور مشتعل کرنے والی سازش کے سرغنہ کو منظر عام پر لانے اور سزا دینے کا مطالبہ کررہے ہیں اور وہ بھی راجہ ظفر الحق کی رپورٹ کی روشنی میں جسے حکمران پارٹی نے خود ہی اس کھوج کے لئے مقرر کیا تھا وزیر داخلہ احسن اقبال خود علمی اور دینی گھرانے سے تعلق رکھتے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، وہ استاد بھی رہ چکے ہیں، شروع میں انہوں نے فرمایا تھا کہ ختم نبوت کےقانون یا حلف نامے میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے، اس بارے میں وہ ہر فورم پر مناظرہ کرنے کو تیار ہیں، ان سب سے بڑھ کر پروفیسر ساجد میر ’’خواجہ کا گواہ‘‘ بن رہے تھے جو ایک دفعہ پھر سے منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھے ہیں، ’’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘‘۔ اگر حلف میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی تھی تو دوسری دفعہ ترمیم کرنے اور مسودے کو پہلی حالت میں لانے کے لئے قانون سازی کی نوبت کیوں آئی؟ اگر اس میں کوئی مشکوک اور سازشی کردار تھا ہی نہیں تو راجہ ظفر الحق کی رپورٹ منظر عام پر کیوں نہ آئی؟ اب اس رپورٹ کو شائع کرنے کے لئے چند دن کی مہلت کیوں مانگی جارہی ہے صرف اس لئے کہ رپورٹ میں ضروری ردوبدل کے لئے راجہ صاحب پر دبائو ڈالا جائے لیکن راجہ صاحب موجودہ اوراس عمر میں اپنی نیک نامی کو بٹہ لگانے کے لئے ہرگز تیار نہ ہونگے۔ زاہد حامد کا معاملہ بہت حساس ہے، وہ ہر طرف سے دبائو میں ہیں اگر وہ قصور تسلیم کر کے الگ ہو جائیں تو ان کی حیثیت قربانی کے بکرے کی سی ہے، ان کے ساتھ ایک بکری بھی بندھی چلی آئیگی جو میں میں کر کے مغربی سفارتکاروں کو بہلاتی رہی۔ وزیر قانون تنہا ذمہ دار ہیں نہ اس تبدیلی کے اصل خالق اورکردار ہیں جو اس کے حقیقی کردار ہیں وہی کمیٹیاں تشکیل دے کر وقت حاصل کرنا اور لوگوں کی توجہ ہٹانا یا بٹانا چاہتے ہیں۔
یہاں تک کالم لکھ پایا تھا کہ ایک مہربان دوست نے اسلام آباد سے حکومت اور تحریک لبیک یا رسول اللہ کے مابین طے پانے والے مجوزہ معاہدے کی کاپی ارسال کی ہے، قارئین کی دلچسپی کے لئے درج ذیل ہے۔
تحریک لبیک یا رسول اللہ جو کہ ایک پرامن جماعت ہے، کسی قسم کی تشدد اور بدامنی پر یقین نہیں رکھتی۔یہ جماعت ختم نبوت اور ناموس رسالت میں قانونی ردوبدل کے خلاف اپنا نقطہ نظر لے کر حکومت کے پاس آئی مگر افسوس کہ مقدس کام کا صحیح جواب دینے کی بجائے، طاقت کا استعمال کیا گیا، 21دنوں پر محیط اس کوشش کو اگر بات چیت کے ذریعے حل کرنا ہے تو ہمارے مندرجہ ذیل مطالبات کو پورا کیا جائے، ہم یقین دلاتے ہیں کہ ان شرائط پر اتفاق ہونے پر ہم نہ صرف ختم نبوت دھرنا ختم کریں گے بلکہ ملک بھر میںاپنے ساتھیوں کو پرامن رہنے کی درخواست بھی کریں گے۔ 1۔وفاقی وزیر قانون زاہد حامد جن کی وزارت کے ذریعے قانون کی ترمیم پیش کی گئی کو فوری اپنے عہدے سے برطرف (مستعفی) کیا جائے۔ تحریک لبیک ان کے خلاف کسی قسم کا فتویٰ جاری نہیں کرے گی۔ 2۔الحمدللہ تحریک لبیک یا رسولؐ اللہ کے مطالبے کے مطابق حکومت پاکستان نے الیکشن ایکٹ 2017 میں 7Bاور 7Cکو متن اردو حلف نامہ شامل کر لیا ہے جن اقدام کی تحریک لبیک یا رسول اللہ ستائش کرتی ہے تاہم راجہ ظفر الحق صاحب کی انکوائری رپورٹ 30دن میں منظر عام پر لائی جائے اور جو اشخاص بھی ذمہ دار قرار پائے گئے ان پر ملکی قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ 3۔ 6نومبر 2017 سے دھرنے کے اختتام پذیر ہونے تک ہمارے جتنے بھی افراد ملک بھر میں گرفتار کئے گئے ہیں، ایک سے تین دن تک ضابطہ کی کارروائی کے مطابق رہا کر دیئے جائیں گے اور ان پر قائم کئے گئے مقدمات اور نظر بندیاں ختم کردی جائیں گی ۔ 4۔ 25نومبر 2017ء کو ہونے والے حکومتی ایکشن کے خلاف تحریک لبیک یا رسول اللہ کو اعتماد میں لیکر ایک انکوائری بورڈ تشکیل کیا جائے جو تمام معاملات کی چھان بین کر کے حکومت اورانتظامیہ ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا تعین کر کے اور 30روز کے اندر انکوائری مکمل کر کے ذمہ داران کیخلاف کارروائی کا آغاز کیا جائے۔
5۔ 6نومبر 2017 سے دھرنا کے اختتام تک جو سرکاری و غیر سرکاری املاک کو نقصان ہوا، اس کا تعین کر کے ازالہ وفاقی اور صوبائی حکومت کرے گی۔ 6۔حکومت پنجاب سے متعلقہ جن نکات پر اتفاق ہو چکا ہے ان پر من و عن عمل کیا جائے گا۔
یہ تمام معاہدہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب اوران کی نمائندہ ٹیم کی خصوصی کاوشوں کے ذریعے طے پایا جس کے لئے ہم ان کے مشکور ہیں کہ انہوں نے قوم کو ایک بڑے سانحہ سے بچا لیا۔
یہ معاہدہ ضامن سمیت چھ دستخطوں کے ساتھ منظر پرآیا ہے۔
ہر چہ دانا کند، کند ناداں لیک بعد از خرابی بسیار
جو کچھ عقل مند کرے، بیوقوف بھی وہی کرتا ہے لیکن بڑی خرابی کے بعد۔

تازہ ترین