• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک کالم کی اجرت سے میرے گھر کا چولہا نہیں جلتا۔ زیادہ سے زیادہ میں دیا سلائی جلا سکتا ہوں۔ لیکن آپ دیا سلائی سے کھانا نہیں پکا سکتے۔ کھانا تب پکتا ہے جب آپ کے گھر کا چولہا جلتا ہے۔ آپ دیا سلائی سے صرف سگریٹ سلگا سکتے ہیں۔ مگر عجیب ماجرا ہے۔ جن کا چولہا بلکہ چولہے ایک کام کی آمدنی سے جلتے ہیں وہ بھی آمدنی کے دیگر ذرائع ڈھونڈ نکالتے ہیں اور ان سے وابستہ ہوجاتے ہیں۔ وہ لوگ اسٹاک ایکسچینج میں شیئرز خریدنے اور بیچنے کا کاروبار کرتے ہیں۔ بیروزگاروں کو روزگار دلوانے کے لئے معاوضہ لیتے ہیں۔ جائداد کی خریدوفروخت کا کاروبار کرتے ہیں۔ کسٹم میں ضبط آپ کا اسمگل کیا ہوا مال چھڑواتے ہیں۔ آپ کے نالائق بیٹے کو کسی یونیورسٹی سے تعلیم کی اعلی ٰ ڈگری دلواسکتے ہیں۔ آپ کو پیٹرول پمپ کا پرمٹ دلواسکتے ہیں۔ سرکاری املاک آپ کے نام کرواسکتے ہیں۔ خدمت خلق سے وہ فیضیاب ہوتے رہتے ہیں۔ اگر وہ لوگ یہ سب نہیں کررہے ہوتے پھر بھی ان کے گھر کا چولہا جلتا رہتا۔ لیکن قیامت تک چولہا جلتا ہوا رکھنے کے لئے وہ زندگی بھر ہر وہ کام کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں جس کام سے بیرون ملک بنکوں میں ان کے بیشمار چولہے جلتے رہیں۔ آف شور اور آن شور کمپنیوں میں ان کے چولہے جلتے رہیں۔ ضرورت پڑنے پر وہ دوسروں کے جلتے ہوئے چولہے بجھادیتے ہیں تاکہ اپنا چولہا جلتا ہوا رکھنے کے لئے تمام تر توانائی ان کو ملتی رہے۔ اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ توانا رہنا سب کا بنیادی حق ہے۔ اقوام متحدہ نے اس حق کو قبول کرلیا ہے۔ اس لئے ہم چولہا جلائے رکھنے کا عالمی دن بڑے جوش و خروش سے مناتے ہیں۔ دھوم دھام سے مناتے ہیں۔ میرےکہنے کا مطلب ہےکہ جن کے اندرون ملک اور بیرون ملک بیشمار چولہے جلتے رہتے ہیں وہ بھی جلتے ہوئے چولہوں میں اضافہ کرنے کے لئے اپنا سب کچھ دائو پر لگادیتے ہیں۔ صحت ، عزت ، نام سب کچھ دائو پر لگادیتے ہیں۔ اپنے جلتے ہوئے چولہے مخفی رکھنے کے لئے وہ لوگ دل و دماغ کے سکون سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں۔ وہ دل ، اعصاب اور جوڑوں کے متعدد امراض میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ شوگر کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کےپاس سب کچھ ہونے کے باوجود وہ زندگی میںمیٹھاس محسوس نہیں کرتے۔ زندگی انہیں کڑوی کڑوی لگتی ہے۔ شہد جیسی شیرینی ان پر ممنوع ہوجاتی ہے۔ ملین ڈالرز کے تکیے پر سر رکھنے سے سفر آخرت آسان نہیں ہوتا۔ شہد کا ایک قطرہ آخری ہچکی کو آسان کردیتا ہے۔ مگر ذیابیطس کے مرض میں مبتلا شخص کے لئے شہد ممنوع ہے۔ اربوں ڈالرخرچ کرکے آپ ایسا تکیہ نہیں بنوا سکتے جس پر سر رکھنے سے آپ کو نیند آجائے۔
میرے پاس ایک ہی چولہا ہے۔ وہ چولہا ایک کام کی آمدنی سے نہیں جلتا۔ اگر جل جائے تو کچھ دنوں کے بعد بجھ جاتا ہے۔ اس لئے میں چولہا جلائے رکھنے کے لئے متعدد کام کرتا ہوں۔ میرے ایک کام سے آپ بخوبی واقف ہیں۔ میں ہفتہ میں ایک مرتبہ آپ کو جھوٹے قصے اور کہانیاں سناتا ہوں۔ جن دیگر کاموں سے میرے گھر کا چولہا جلتا ہے، ان کاموں کی نوعیت ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ مثلاً میں بند گٹر کھول سکتا ہوں۔ بند گٹروں کی صفائی کے دوران مجھے میری پسند کی حیران کن چیزیں مل جاتی ہیں۔ ایک مرتبہ گٹر کی صفائی کرتے ہوئے مجھے ایک گراموفون ریکارڈ ملا تھا۔ میرے پاس ایک قدیم گراموفون ہے اس گراموفون پر میرے پڑنا نا کھستوری بائی کلکتہ والی کےریکارڈ چلا کر گانے سنتے تھے۔ گٹر سے ملا ہوا گراموفون ریکارڈ میں نے قدیم گراموفون پر چلایا ۔ گانا سنتے ہی میں اپنے لڑکپن کی طرف لوٹ گیا۔ ’’یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہوں گے، افسوس ہم نہ ہوں گے‘‘۔ آواز محمد رفیع کی تھی۔ بول شکیل بدایونی کے ،ا ور موسیقی نوشاد نے دی تھی۔ فلم تھی میلہ۔ انیس سو سینتالیس یا اڑتالیس کی فلم تھی۔ اداکار تھے دلیپ کمار اور نرگس۔ بندر روڈ پر واقع رنجیت سینما میں چلی تھی۔ بندر روڈ کو اب آپ ایم اے جناح روڈ کہتے ہیں۔ رنجیت سینما کی جگہ اب کلاتھ مارکیٹ بنی ہوئی ہے۔ کلاتھ مارکیٹ کا نام میں آپ کو اس لئے بتا نہیں سکتا کہ نام بتانے سے کلاتھ مارکیٹ کی مفت میں پبلسٹی ہوگی۔ رپورٹنگ کے جدید اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم جائے وقوع بتانے سے گریز کرتے ہیں۔ کراچی میں سات آٹھ فائیو اسٹار ہوٹل ہیں۔ ایک مرتبہ ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں آگ لگی تھی۔ ہم نے آگ لگنے کی بھرپور رپورٹنگ کی تھی مگر فائیو اسٹار ہوٹل کا نام نہیں بتایا تھا۔ جن لوگوں کے دوست احباب رشتہ دار کسی فائیو اسٹار ہوٹل میں کھانا کھانے، چائے پینے ، تقریر سننے یا کسی کتاب کی مہورت میں شرکت کرنے گئے تھے ، وہ پریشان ہوگئے ۔ آگ لگے ہوئے ہوٹل کی تلاش میں وہ لوگ تمام فائیو اسٹار ہوٹلوں کے چکر کاٹتے رہے اور نیم پاگل ہوگئے۔ ہندوستان کے بٹوارے کے بعد بندر روڈ، اب ایم اے جناح روڈ پر رنجیت ٹاکیز یا رنجیت سینما کی جگہ بنی ہوئی کلاتھ مارکیٹ کو تلاش کرنے کیلئے آپ کو بندر روڈ ، اب ایم اے جناح روڈ کے بیسیوں مرتبہ دیوانہ وار چکر کاٹنے پڑیں گے۔ پھر بھی آپ رنجیت ٹاکیز کی جگہ بنے ہوئی مارکیٹ تک نہیں پہنچ سکتے۔ ہم نے ماضی سے مکمل طور پر رشتہ توڑ دیا ہے۔ گھر سے چلے تھے مسجد جانے کا ارادہ کرکے۔ مگر جابیٹھے میخانے میں۔ ہم بات کررہے تھے گھر کا چولہا جلائے رکھنے کی۔
عرض کرچکا ہوں کہ میرے جیسے مولائی ، اللہ سائیں کے آدمی گھر کا چولہا جلائے رکھنے کے لئے ایک سے زیادہ کام کرتے ہیں۔ وہ کام کسی سے چھپاتےنہیں۔ جب آپ کے پاس چھپانے کے لئے کچھ نہیں ہوتا تب آپ آرام کی نیند سوسکتے ہیں۔ آپ کا بلڈ پریشر آپ کا بھیجا فرائی نہیں کرتا۔ آپ کا دل ، جگر یعنی کلیجی اور گردوں کا کٹا کٹ نہیں بنتا۔ آپ ہنس سکتے ہیں۔ مسکرا سکتے ہیں۔ باتھ روم کے اندر اور باتھ روم کے باہر آپ گنگناسکتے ہیں۔ آپ بازو اور گلے میں تعویذ گنڈے نہیں پہنتے۔ آپ پیر سائیوں کے پیروں میں جاکر نہیں بیٹھتے ۔ آپ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے چھپنے یا ان کوراضی خوشی رکھنے کے لئے گھٹیا حرکتیں نہیں کرتے۔ چھپنا اور چھپانا آپ کو نفسیاتی مریض بنادیتا ہے۔ یہ ساری باتیں بچپن میں مجھے ایک سو اسی سالہ بنگالی باوا نے بتائی تھیں۔ یہ ساری باتیں بتانے کے بعد ایک سو اسی سالہ بنگالی باوا یہ کہہ کر الوپ ہوگئے تھے کہ اب وہ ایک سو اسی سال بعد ظہور پذیر ہوں گے۔
آج کل میں لوگوں کے میلے بدبودار کپڑے اور گدلے برتن دھونے اور گاڑیوں کے ڈینٹ نکالنے کے علاوہ ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی کے ساتھ بطور کاپی رائٹر کام کررہا ہوں۔ میرا کام امتحان میں طلبا کو کاپی کرانا نہیں ہے۔ میں اشتہاروں کے لئے سلوگن لکھتا ہوں۔ سگریٹوں کے اشتہار پر پابندی سے پہلے سگریٹ کے اشتہاروں میں جتنی بھی دلفریب باتیں آپ سنتے تھے وہ میری لکھی ہوئی تھیں۔ ان باتوں کو، تعریفی کلمات کو اشتہاری زبان میں سلوگن کہتے ہیں۔ سگریٹ کے بارے میں میرے ایک دوسلوگن بہت مقبول ہوئےتھے۔ ’’میری تنہائی کا ساتھی ، سلگتا ہوا لیڈر سگریٹ۔‘‘ ’’لیڈر سگریٹ کا ایک کش لگائیے اور لیڈر بن جائیے۔‘‘ اپنے گھر کا چولہا جلائے رکھنے کے لئے میں آج کل ایک ایسی ایڈورٹائزنگ ایجنسی کے لئے کام کررہا ہوں جو سیاستدانوں کے لئے اشتہار بنارہی ہے۔ عجیب و غریب ڈیل ڈول کے سیاستدانوں کو نامور بنانے کے لئے جو اشتہار بن رہے ہیں۔ آپ ان میں میرے لکھے ہوئے سلوگن سنیں گے۔ ’’آئے گا، چھا جائے گا۔‘‘ ’’جو جاتا ہے، وہ لوٹ آتا ہے۔‘‘ ’’سیاست کا باوا آدم آرہا ہے۔ بلے بلے۔‘‘

تازہ ترین