• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپنے مذہبی دھرنے کا بنیادی جسمانی دھڑ اٹھا لیا گیا تاہم اس دھڑ کے ایک حصے کے طور پر 28نومبر 2017کی صبح تک لاہور میں دھرنا جاری ہے۔ لیڈروں سے لے کر ان کے پیروکاروں تک، سب اپنی اپنی ذہنی اپروچ کی متقاضی زبان کے سائبان تھے۔ اپنی طبائع میں ڈھلے ہوئے کلام سے کام لے رہے ہیں، پاکستان کے عوام کی اکثریت اس کلام کے معاملے میں اپنی اجتماعی دانش کی رو سے ایک بولتی خاموشی کے ترازو میں اپنی آراء کا اظہار کر رہی ہے، دانشوروں کا موضوع زیر بحث نہیں لایا جا سکتا، اس ملک و قوم کے سوال پر ان کی اکثریت پر توجہ کی گنجائش نظر نہیں آئی، یہ اکثریت پاکستان اور پاکستانی قوم کے، چاہے اخلاص چاہے غیر اخلاص کے ساتھ درپے آزار ہو چکی۔ قوم ان کی طبائع کو کسی بھی نوعیت اور کسی بھی درجہ پر اعتدال کے پیمانے پر لانے میں سو فیصد معذور اور بے بس ہے۔ ہم دھرنے پر کوئی فکری نقطہ نظر اٹھانے یا کسی اجتہادی گفتگو کی جرأت سے کام نہیں لیں گے، ہماری دیانتدارانہ رائے میں مذہبی جماعتوں اور ان کے بلاشبہ لاکھوں پیروکاروں نے پاکستان کے آسمان تلے زندگی کے کسی بھی موضوع پر مکمل ذہنی آزادی کے ساتھ مکمل ذہنی اظہاریوں کی گنجائش ختم کر دی ہے، گو اس کی بنیاد، جماعت اسلامی کی قیادت نے، قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی رکھ دی تھی، بہرحال اب وہ بنیاد ایک بلند ترین، ناقابل تبدیل و تسخیر اہرام ہے جس کا انہدام فطرت کے ان قوانین کے بروئے کار آنے سے پہلے ناممکن ہے۔ جو فطرت کے نظام سے ٹکرانے والے افراد اور گروہوں کا مقدر ہوتے ہیں، چنانچہ ہم اس دھرنے کے مختلف بکھرے ہوئے مناظر کی ایک مجموعی تصویر کشی کی کوشش سے کام لیں گے، اس تصویر کشی کے رنگوں میں شاید آپ کو اس سچائی کی جھلکیاں بھی جا بجا دکھائی دے جائیں جن کے لئے پاکستان کے ترقی پسندوں نے جنگ لڑی غالباً تادم حیات لڑتے رہیں گے، کوئی مقدس ترین جبر بھی انسان کی اس آزادی کو بلاواسطہ، بالواسطہ، اشارتاً، کنایتہ یا سہواً بھی منسوخ، مضروب، ملتوی یا آلودہ کرنے کا استحقاق نہیں رکھتا، یہ خالق کائنات کی لامحدودیت کے مقابل کھڑے ہونے کا گناہ کبیرہ ہے۔
تو آیئے، اپنی جانب سے کچھ کہے بغیر دھرنے کی مجموعی تصویر کشی کی صورت گری کرتے ہیں۔ دھرنا ختم کرانے کے سلسلے میں وفاقی حکومت نے 1973کے متفقہ قومی آئین سے حاصل کردہ آئینی اختیار و قوت کی بنیاد پر افواج پاکستان کو طلب کیا۔ چیف آف آرمی اسٹاف نے اس موقع پر ’’دونوں فریقوں کو تشدد سے روکا جائے‘‘ کی تجویز جاری کی، ساتھ ہی ایسے قومی بحرانوں کے مواقع پر افواج پاکستان کے آئینی فرائض کی تشریح و توضیع کا ایک خاکہ سا بھی سامنے لایا گیا جیسا کہ عرض کیا، ہم اس دھرنے کے پس منظر میں وقوع پذیر ہونے والی ایسی لہروں سے کسی قسم کا تعرض کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے، البتہ ؟
اور اس ’’البتہ‘‘ کا تعلق اسلام آباد ہائیکورٹ کے عزت مآب چیف جسٹس شوکت عزیز دھرنے کے خلاف دائر درخواستوں کی 27نومبر 2017کی سماعت کے دوران عزت مآب چیف جسٹس شوکت عزیز نے ریمارکس دیئے۔
’’فوج نے قانون توڑنے اور قانون نافذ کرنے والوں کے درمیان معاہدہ کرایا، حمزہ کیمپ کی جگہ یہاں جی ایچ کیو ہوتا تو کیا یہاں دھرنا ہوتا؟ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دھرنے کے پیچھے یہ لوگ ہیں، کیا آئین کے تحت آرمی چیف ایگزیکٹو سے الگ ہیں؟ آئین کے مطابق ایگزیکٹو کا حکم ماننے کی بجائے فوج ثالث کیسے بن سکتی ہے؟ فوج کا میجر جنرل کیسے ثالث بنا؟ سازش کے تحت اسلام آباد پولیس اور انتظامیہ کو ناکام بنایا گیا؟ کب تک قوم کے ساتھ یہ تماشا چلتا رہے گا؟ اب تک کا نقصان ریاست کیوں برداشت کرے؟ ردالفساد اور ضرب عضب کہاں گئے؟ یہ تاثر دیا گیا کہ ہر مرض کی دوا فوج ہے، اگر بیرونی جارحیت ہوئی تو فوج کے لئے اپنا خون بھی دیں گے، 1965 کی جنگ میں ہم نے جھولی پھیلا کر افواج کے لئے چندے جمع کئے، اب بھی ملک کو کوئی خطرہ ہوا تو افواج پاکستان کے شانہ بشانہ ہوں گے لیکن فوج کا یہ کردار ہمیں قبول نہیں، فوج اپنا کردار آئینی حدود میں ادا کرے، جن فوجیوں کو سیاست کا شوق ہے وہ ریاست کی بندوق واپس کر کے ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں آئیں، جانتا ہوں کہ ان باتوں کے بعد میری زندگی کی بھی اب کوئی ضمانت نہیں رہی ہے، میں مار دیا جائوں گا یا لاپتہ کر دیا جائوں گا، عدلیہ میں اب جسٹس منیر (ر) کے پیروکار نہیں رہے، ایجنسیوں نے دھرنے کے ذریعے وفاقی دارالخلافہ کو بند کرنے کی تیسری کوشش کی ہے، اپنے ملک کے ادارے اپنی ریاست کے خلاف کام کر رہے ہیں، دھرنے والوں نے ججز کو گالیاں دیں، معافی کی شق معاہدے میں کیوں نہیں؟ دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج مقدمات ختم کرنے کی معافی کیسے دی جائے گی؟ عدالت نے اس موقع پر انٹیلی جنس بیورو سے استفسار کیا کہ ’’بتائیں دھرنے والوں کے پاس اسلحہ، آنسو گیس، فائر کرنے والی گنز اور حفاظتی ماسک کیسے پہنچے اور پولیس جب فیض آباد خالی کرانے کے قریب تھی تو دھرنا مظاہرین کی مدد کس نے کی؟
عزت مآب چیف جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے احسن اقبال سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا:
’’رپورٹ مکمل ہے، آپ سے دستخط ہی نہیں کرائے گئے، آپ بھی راجہ ظفر الحق کمیٹی میں شامل تھے، رپورٹ بنی ہے مگر اس پر ابھی تک آپ کے دستخط نہیں ہوئے۔ رپورٹ پر مشاہد اللہ اور بیرسٹر ظفر اللہ کے دستخط ہیں، ہم بیرسٹر ظفر اللہ کی ڈیوٹی لگا کر رپورٹ منگوا لیں گے اور رپورٹ کے حوالے سے قوم کو بتا دیں گے کہ کس کا کیا کردار ہے؟ ہمیں پتا ہے راجہ ظفر الحق کے گھر کون کس کو لے کر گیا، معاہدہ اس لئے کیا گیا کہ پراجیکٹ مکمل ہو گیا، یہ بھی پتا چل جائے گا کہ دھرنے کے لئے فیض آباد کا انتخاب کس نے کیا، یہ کسی تنظیم کا معاملہ نہیں، پوری قوم و ملت کا مسئلہ ہے، قانون شکنی کرنے والوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان فوج کیسے ثالث بن سکتی ہے، آپ لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ جوہری طاقت والے ملک کی سیکورٹی کا حال یہ ہے؟ آپ نے کوئی کام نہیں کیا صرف دھرنے والوں کے سامنے سرنڈر کیا ہے؟
دھرنے کے مناظر کی تصویر کشی سے ابھرنے والے اس تاریخی منظر کی رونمائی کے بعد آگے چلتے ہیں، وہ صحافت و ادب میں ہمارے بہت ہی محترم و معتبر ہیں، الیکٹرانک میڈیا کے ذمہ دار ہی نہیں فرض شناس تجزیہ کار یعنی دنیا بھر کے ان لوگوں میں جو اپنے اپنے ملک اور اپنی اپنی قوم کے آگے جوابدہی کا احساس رکھتے ہیں۔ شہرت اور پیسہ انہیں ملک و قوم کے سامنے ، ابتذال اور فتنہ گری کے کھیل سے باز رکھتا ہے، لیکن اس بار ان کی جانب سے ’’امید‘‘ دلانے کی ’’غیر فطری مقدار‘‘ کے طرز عمل پر فیصلہ کن شکوہ کرنا ہے، ان کا اظہار یہ ہے، اپنے مفادات سے ہر ایک کو اوپر اٹھ کر دیکھنا چاہئے، قانون کے دائرے میں احتجاج نہ کرنے سے ہم اپنے آپ پر جہنم کے دروازے کھول رہے ہوں گے، لاقانونیت کی حوصلہ افزائی اپنے اوپر خود کش دھماکہ ہے، جناب والا! پلیز! پاکستانی قوم کے صبر و حوصلے کو ولیوں کے درجہ پر نہ رکھیں، مفادات سے گزشتہ 70برسوں میں مجموعاً کوئی بھی اوپر نہیں اٹھا، جہنم کے دروازے برسوں سے دہشت گردی کی شکل میں چاروں اور کھل چکے، ایک بھی بند نہیں ہوا، لاقانونیت کی حوصلہ افزائی ہی نہیں، گزرے 70برسوں میں اس کی تنظیم کی گئی، پاکستان میں وقت نارمل انسانی زندگی کی سرحدیں پار کر چکا، آپ دیکھیں گے، لازم ہے کہ دیکھیں، اب یہاں قدرت کی عملیت پسندی کا فارمولا بروئے کار آنے کا امکان ہے، ہاں! اس لمحے کا تعین بھی اسی کے پاس ہے! اب تو وقت کا ہی گجر بجے گا۔

تازہ ترین