• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر کامیاب افراد کی زندگی کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے وہ سب خیر تقسیم کرنے والے، لوگوں کی بھلائیاں چاہنے والے، درگزر کرنے والے،معاف کرنے والے اور صبر و تحمل سے کام لینے والے تھے۔ اس کے دو پہلو ہیں۔ نمبر مذہبی پہلوہے اوردوسرا معاشرتی پہلوہے۔ دونوں پہلوئوں سے ہی اس کی بڑی اہمیت ہے۔ اگر ہم مذہبی اعتبار سے دیکھیں تو ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ اچھائیاں پھیلائیں اور برائیوں سے منع کریں۔ خیر کے کام کریں اور شر کے کاموں سے بچیں۔ قرآن کی سورئہ آل عمران کی آیت نمبر 110 ہے: ’’تم نیکی کی تلقین کرتے ہو، برائی سے روکتے ہو ۔‘جب آپ ﷺنے حضرت معاذ بن جبل کو یمن کا گورنر اور قاضی بناکر بھیجا تو آپ ﷺنے ان سے فرمایا: ’’لوگوں کو خوشخبریاں سنانا اور نفرتیں نہ دلانا۔ لوگوں کےلئے آسانیاں پیدا کرنا ، مشکلات نہ پیدا کرنا۔‘‘ گویا ہمیں مذہبی اعتبار سے حکم ملتا ہے کہ لوگوں کے لئےآسانیاں اور سہولتیں پیدا کریں۔ ایسے کام نہ کریں جن سے عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ہمیں محبتیں بانٹنی چاہئیں۔ نفرتوں کے سوداگر نہیں بننا چاہئے۔ لوگوں کے لئےاچھا سوچیں۔ ان کے چہروں پر خوشیاں بکھیرنے کی کوشش کریں۔ کمزوروں کو سہارا دیں۔ امیدوں کے چراغ جلائیں۔اگر ہم معاشرتی پہلو کو دیکھیں تو ہرمعاشرے میںاس شخص کو پسند کیا جاتا ہے جو لوگو ںکی فلاح و بہبود کے لئے کام کرتا ہے، غریبوں کی مدد اورمعاشرے کو بہتر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج ہر دوسرا شخص نفرتوں کا سوداگر بن چکا ہے۔ اشتعال انگیزی ہے۔ غصہ ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف نفرتیں ہیں۔ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچی جارہی ہیں۔ کوئی کسی دوسرے کو خوشحال دیکھ کر راضی نہیں۔ آپ عالمی سطح سے لے کر ملکی سطح تک اور پھر اداروں سے لے کر افراد تک باریک بینی سے جائزہ لے کر دیکھ لیں کہ کیا ہورہا ہے؟خدا کےلئے ایک دوسرے کو برداشت کرنا سیکھیں۔ ایک دوسرے کو
معاف کرنا سیکھیں۔ یاد رکھیں! انتقام سے مسائل حل نہیں ہوتے ہیں۔ انتقام در انتقام سے ملک و قوم ترقی نہیں کرسکتے۔ ہمیں ایک دوسرے کو اسی طرح معاف کرنا چاہئے جس طرح رحمت دو عالم ﷺنے معاف کیا تھا۔آپ فتح مکہ کا واقعہ تو دیکھیںکس طرح رواداری، بھائی چارگی اور امن وسلامتی کا پیغام دیا گیا ہے۔ رہبر اعظم ﷺنے ان لوگوں کے لئے اپنے دروازے کھول دئیے جو ساری زندگی آپ کے راستے میں کانٹے بچھاتے اور سنگ باری کرتے رہے۔ دنیا نے ایسا فاتح نہیں دیکھا ہوگا جس نے اپنے دشمنوں کے لیے ایسی فراخدلی کا ثبوت دیا ہو۔ آپ نے فرمایا: ’’جو شخص ہتھیار پھینک دے، جو شخص توبہ کرلے، معافی مانگ لے، سب کو امان ہے۔‘‘ہندہ، جس نے آپ ﷺکے چچا حضرت امیر حمزہ ؓکا کلیجہ چبایا تھا، آپ نے اس کو بھی معاف کردیا۔ وحشی، جو پیارے رسول کے چچا امیر حمزہ کا قاتل تھا، جب مسجد میں داخل ہوا تو صحابہ کرام نے اسے قتل کرنے کے لئے تلوار سونت لی۔ آپ نے فرمایا: ’’چھوڑدو!‘‘آپ نے ان کو بھی معاف کرنے کے بعد صرف اتنا کہا:میرے سامنے نہ آیا کریں کیونکہ مجھے میرے چچا یاد آجاتے ہیں۔ دوسروں کو معاف کرنا بڑ ہمت کی بات ہے۔ یہ کام وہی کرسکتا ہے جو قوم کے ساتھ مخلص ہو۔ جو خدمت کے جذبے سے سرشار ہو۔ جو خیرخواہ اور ہمدرد ہو۔ معاف کرنے سے ہی قومیں آگے بڑھتی ہیں۔ ترقی کرتی ہیں۔اب میں ماضی قریب کی اور غیرمسلم معاشرے کی بھی ایک مثال دیتا ہوں۔ دیکھیں! نیلسن منڈیلا نے اپنی قوم کی آزادی کے لئے طویل اور صبرآزما جدوجہد کی۔ 20 سال تک سلاخوں کے پیچھے رہے۔ قید تنہائی کاٹی، لیکن جب اقتدار میں آئے تو سب کو معاف کردیا۔ آج ہمارے سیاست داں بڑے فخرسے نیلسن منڈیلا کا نام لیتے ہیں کہ انہوں نے اقتدار میں آکر ان لوگوں کو بھی معاف کردیا تھا جنہوں نے انہیں 20 سال تک قیدِ تنہائی میں رکھا تھا، لیکن ہمارے یہ حکمراں جب اقتدار میں آتے ہیں تو انتقامی کارروائیاں کرتے ہیں۔ یہ کیوں معاف نہیں کردیتے؟ کیا معاف کردینے سے ان کی تضحیک ہو گی؟ نہیں بلکہ ان کی قدر و منزلت میں اضافہ ہوگا، ان کا قدبڑھ جائے گا۔ جب تک ہمارے حکمراں انتقامی کارروائیوں سے باز نہیں آتے، ذاتی عناد ختم نہیں کرتے، پسند اور ناپسند کے کلچر سے نہیں نکلتے اس وقت تک اس ملک پر خوف اور آسیب کے سائے چھائے رہیں گے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ایک دوسرے کو معاف کریں۔ ایک دوسرے کی غلطیوں کو درگزر کریں۔ ہر شخص اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھے کہ اللہ نے ان کے کیسے کیسے عیوب پر پردہ ڈالا ہوا ہے۔ہم مسلمان ہیں۔ دینِ اسلام نے ہمیں پردہ پوشی
کا حکم دیا ہے کہ دوسروں کے عیبوں پر پردہ ڈالیں۔گندی مکھی نہ بنیں جس کی سینکڑوں آنکھیں ہوتی ہیں، اس کے باوجود وہ گندگی اور پھوڑے پھنسی پر ہی بیٹھتی ہے۔ اگر ہم کامیاب افراد کی زندگی کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے وہ سب درگزر کرنے اور معاف کردینے کی صفات رکھنے والے تھے۔لہٰذا آپ بھی معاف کریں۔ غصے پر قابو رکھیں۔ پیچھے مڑکر نہ دیکھیں۔ شیخ سعدیؒ شہر میں کہیں جارہے تھے کہ کسی نے پتھر مارا، لیکن شیخ سعدیؒ چلتے رہے۔ ساتھیوں نے پوچھا کہ آپ نے پیچھے مڑکر بھی دیکھا تو انہوں نے کہا: ’’اگر میں پیچھے مڑ کر لوگوں کو جواب دینے لگ جائوں تو اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکوں گا۔‘‘ لہٰذا آپ بھی آگے ہی بڑھتے رہیں۔ معاف کریں۔ انتقام سے ترقی نہیں ہوتی۔ معاف کردینے سے کامیابی ملتی ہے۔ آپ بھی کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو آج ہی سے معاف کردینے کی عادت ڈالیں۔

تازہ ترین