• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

درویش کی نظر میں مصر کے صدر انور سادات سے زیادہ حقیقت پسند حکمران شاید ہی کوئی گزرا ہو جس نے شکست کھانے کے بعد ایک کیمپ سے دوسرے کیمپ کا سفر کرتے ہوئے تاریخی الفاظ کہے تھے کہ ’’میں اسرائیل سے تو لڑ سکتا ہوں امریکا سے نہیں‘‘۔۔ہمارے وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کی حالت کچھ ایسی ہی صورتحال سے ملتی جلتی ہے جب پارٹی قیادت نے سب کے سامنے اُن سے یہ پوچھا کہ چولی کے پیچھے کون تھا؟ تو انہوں نے بھری بزم میں راز کی بات بیان کرنے سے احتراز کیا مگر علیحدگی میں دردِ دل بیان کرتے ہوئے کچھ چھوڑا بھی نہیں۔احسن اقبال جن حقائق کو راز خیال کر رہے ہیں اُن کی لنکا تو گھر کے ایک بھیدی نے عین چوراہے میں پھوڑ دی ہے مقاصد شائد دو طرفہ منہ چومنے جیسے ہیں، کسی داغ کو دھونے کے ہیں یا یہ باور کرانا ہے کہ ہم طاقتوروں کے اتنے بھی تابع مہمل نہیں کہ اُن کی مرضی کے بغیر چھینک بھی نہ مار سکیں۔
لنکا کے بھیدی سے ہمیں اسلام آباد کے ایک مشہور و معروف جج صاحب یاد آگئے ہیں جنہوں نے وفاقی وزیر داخلہ کو اپنی عدالت میں طلب کرتے ہوئے ایسے ایسے سوالات اٹھائے ہیں جنہیں اٹھانے کا یارا شاید (ن) لیگ کی قیادت کو بھی نہیں ہے’’ یہ آپ نے کیا معاہدہ کیا ہے ؟ ہم نے تو آپ کو دھرنا ختم کرنے کا حکم جاری کیا تھا دھرنے والوں کے سامنے سرنڈر کرنے کا تو نہیں کہا تھا؟ عظیم ماں کے بیٹے اور عظیم نانا (چوہدری عبدالرحمن) کے نواسے ہوتے ہوئے آپ نے کس کے حکم پر سرنڈر کیا ہے؟‘‘ پھر خود ہی اپنے اٹھائے گئے سوالات کا جواب دیتے ہوئے فرمایا’’ کہ طاقتور اداروں کی سیاست کیسی، جسے سیاست کا شوق ہے ریٹائرمنٹ لے کر سیاست میں آجائے آئین سے کوئی ماوراء نہیں۔کیا آئین کے مطابق آرمی چیف ’ایگزیکٹو‘ سے الگ ہیں ؟ آئین کے مطابق ایگزیکٹوز کا حکم ماننے کی بجائے وہ الٹے ثالث کیسے بن گئے ؟ سازش کے تحت اسلام آباد پولیس اور انتظامیہ کو ناکام بنایا گیا ۔ کب تک قوم کے ساتھ یہ تماشا چلتا رہے گا ؟ جانتا ہوں ان باتوں کے بعد میری زندگی کی بھی ضمانت نہیں مار دیا جاؤں یا لاپتہ کر دیاجاؤں لیکن اب ہم جسٹس منیر کے پیروکار نہیں رہے۔ صاف کہتے ہیںکہ ایجنسیوں نے دھرنے کے ذریعے وفاقی دارالحکومت کو بند کرنے کی یہ تیسری کوشش کی ہے۔ آپریشن ردالفساد اور ضربِ عضب کہاں گئے ہیں ؟ یہاں کیوں کسی کو فساد نظر نہیں آیاہے؟ اپنے ملک کے ادارے اپنی ریاست کے خلاف کام کر رہے ہیں ۔ یہ کسی خادم یا کسی تنظیم کا معاملہ نہیں ہے پوری قوم کا مسئلہ ہے کیا آپ لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ جوہری طاقت والے ملک کی سکیورٹی کا یہ حال ہے ؟ حمزہ کیمپ کی جگہ یہاں جی ایچ کیو ہوتا تو کیا یہاں دھرنا ہوتا؟‘‘ احسن اقبال نے جواب دیا کہ یہ تو مظاہر ین ہی بتا سکتے ہیں میں کیا بتا سکتا ہوں ۔ جسٹس صاحب نے کہا کہ’’ یہ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے پیچھے کون لوگ ہیں ۔ آرمی چیف کی آزادانہ کیا حیثیت ہے؟ اُن کا شکریہ کس بات پر ادا کیا جا رہا ہے یہ میجر جنرل کون ہیں۔
قوم کے ساتھ یہ تماشا کب تک چلتا رہے گا ۔ انتظامیہ اور پولیس کو ذلیل کروا دیا دہشت گردی کی شقوں والے مقدمات کیسے ختم ہونگے؟ ججز کو گالیاں دینے والوں کے لیے معافی کی شق کیوں معاہدے میں شامل نہیں کی گئی؟۔ راجہ ظفر الحق کمیٹی کی رپورٹ کہاں ہے؟ راجہ ظفرالحق کے گھر کون کس کو لے کر گیا؟ معاہدہ اس لیے کیا گیا کہ پراجیکٹ مکمل ہو گیا رپورٹ آنے پر پتہ چل جائے گا کہ دھرنے کے لیے فیض آباد کا انتخاب کس نے کیا؟
درویش کی رائے میں جسٹس صاحب کی طرف سے اٹھائے گئے تمامتر سوالات کے جوابات محض وفاقی وزیر داخلہ کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ قومی صحافت و دانش کی بھی یہ قومی ذمہ داری ہے کہ وہ ان سوالات کے جوابات تلاش کریں البتہ بصد ادب اُن کی خدمت میں ہمارا سوال یہ ہے کہ اگر بقول اُن کے مقتدر ادارے کا یہ حق نہیں ہے کہ وہ حکومت اور قانون شکنوں کے درمیان ثالثی کا رول ادا کریں تو پاناما اور اقاما کیسز میں جو کردار انصاف دینے والے ادارے نے ادا کیا ہے آئین کی رو سے اُس کا کیا جواز تھا؟ کیا وقت کا مورخ نہیں پوچھے گا کہ پاناما میں بطور ملزم جس کا نام تک نہیں تھا حیلوں بہانوں سے آپ نے اُسے تو تخت سے تختے تک پہنچا دیا۔ آج آپ بجا طور پر یہ سوالات اٹھا رہے ہیں کہ ’’دھرنے والوں کے پاس اسلحہ، آنسو گیس ، فائر کرنے والی گنز اور حفاظتی ماسک کیسے پہنچے‘‘؟ یا یہ کہ ’’پولیس جب فیض آباد خالی کرانے کے قریب تھی تو دھرنا مظاہرین کی مدد کس نے کی‘‘؟ آپ کا یہ سوال بھی اپنی جگہ قابلِ غور و فکر ہے کہ ’’جن کو سیاست کا شوق ہے وہ ریاست کی بندوق واپس کر کے پہلے ریٹائرمنٹ لیں پھر یہ کام کریں‘‘ ۔
جو لوگ کچھ پڑھے اور جانے بغیر میڈیا چینلز پر بیٹھے دن رات اداروں کے احترام کا راگ الاپ رہے ہوتے ہیں اُن کی خدمت میں ہماری گزارش ہے کہ وہ قوم کے احترام کا بھی کچھ سوچ لیں قوم کی منتخب قیادت کے احترام اور پارلیمنٹ کے تقدس کا بھی کچھ ادب اور حیا رہنے دیں ہم لوگ اپنی مساجد میں دن رات یہ دعائیں مانگتے ہیں کہ یا الہیٰ راہِ مسافراں خیر۔ ہماری مقدس کتب مسافروں کے لیے آسودگی اور سہولیات کا اہتمام کرنے والوں کی توصیف و ثواب سے بھری پڑی ہیں لیکن ہم سٹرکیں یا موٹر ویز بنانے والے کے خلاف تو دن رات چرب بیانی کرتے نہیں تھکتے البتہ جن لوگوں نے بیس روز تک ان راستوں کو روک کر عوامی زندگی اجیرن بنائے رکھی اُن کی ہمدردی کے لیے ثالث بنے کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ اب کیا اپنے اور پرائے کی تفریق روا رکھی جائے گی۔ کیا ہماری اقلتیںہماری شہری نہیں ہیں جن کے تحفظ کی خاطر ہم نے پاکستان بنایا تھا بابائے قوم نے ان کے ساتھ کیا وعدے کیے تھے؟ یہ کہ انہیں تمام تر برابر کے حقوق حاصل ہونگے کیا آج اُن کے متعلق اسی مملکت میں امتیازی قوانین موجود نہیں ہیں؟ آج کس میں یارا ہے کہ ان امتیازی قوانین کے خلاف زبان کھولے؟ کیا ہمارے پاک پیغمبرؐ نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ اگر کسی ذمی یا معاہد کے ساتھ کسی مسلمان نے زیادتی کی تو میں محمدؐ قیامت کے روز خدا کی عدالت میں اُس کے خلاف مدعی بن کر کھڑا ہونگا؟ تو کیا اسی مسلم مملکت پاکستان میں دن رات اقلیتوں کے ساتھ زیادتیاں روا نہیں رکھی جا رہی ہیں؟ہم پوچھتے ہیں کہ غیرمسلم تو ایک طرف رہے زاہد حامد جیسے پکے مسلمان کا قصور کیا تھا؟
پارلیمنٹ میں بشمول جماعت اسلامی جمعیت العلماء پی ٹی آئی اور پی پی تمام بڑی پارٹیوں کی نمائندگی موجود ہے لیکن کسی نے بھی کوئی ایک نقطہ نہ اٹھایا کیونکہ کوئی نقطہ تھا ہی نہیں مگر بعد میں طوفان کھڑے کر دیا گیا۔ ہماری نظر میں یہ طوفان تو گزر گیا ہے لیکن اپنے پیچھے با قیات کی صورت میں جو تلخ سوالات چھوڑ گیا ہے اُن پر کھلا قومی مباحثہ ضرور ہونا چاہیے۔جب ایک آفیسر بلوے کرنے سرکاری املاک کو تباہ کرنے اور آگ لگانے، پولیس پر حملہ کرتے ہوئے انہیں ہلاک اور زخمی کرنے کے مرتکب لوگوں میں رقوم تقسیم کرتا پایا جائے تو اس پر اعتراض تو ہوگا۔ اس معاملے کے بعد منتخب وزیراعظم کی طرف سے اٹھائے گئے سوال کہ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کا جواب پوری قوم کو مل جانا چاہیے۔ جن مہربانوں نے یہ طوفان اٹھایا تھا انہوں نے ہی کمال مہربانی سے اسے بٹھا یا بھی ہے اہل سیاست کو یہ جتلایا بھی ہے کہ آئندہ اپنی اوقات میں رہنا جس ووٹ بنک کا آپ کو زعم ہے ہم وہ توڑ بھی سکتے ہیں اور قوم کو یہ سمجھایا ہے کہ آپ کے اگر کوئی نجات دہندہ ہو سکتے ہیں تو وہ صرف ہم ہی ہیں۔ہم پس پردہ رہ کر آپ کی خدمت کر سکتے ہیں ، ہم اپنی ابا بیلوں سے ہاتھیوں یا شیروں کو مروا سکتے ہیں ۔ بلاشبہ دھرنے نے میلا لوٹ لیا ہے آئین اور ریاستی وقار کی قیمت پر انہوں نے جو فتح مبین حاصل کیا ہے الحمدللہ اب کئی حضرات ہماری تقدیروں کے مالک بن کر ابھریں یا گے اے میری پیاری قوم کی پیاری دانش کیا آپ کو اس کی کوئی فکر ہے ۔

تازہ ترین