• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فیض آباد کا دھرنا ختم ہوا اور اپنے ساتھ حکومت کی اہلیت اور سیاسی بصیرت کا بھرم بھی ختم کرگیا۔وزیر قانون کو استعفیٰ دینا پڑا اور لگتا ہے ابھی کچھ مزید وزراء بھی اقتدار سے محرومی کے منتظر ہیں۔ حکومت کی خواہش ہوگی کہ’’مٹی پائو‘‘ پالیسی پر عمل کیا جائے لیکن دھرنے کے اثرات بہرحال اپنا رنگ دکھائیں گے۔ میں نہ ہی صرف جمہوریت کا مخلص حامی ہوں بلکہ پارلیمنٹ کی مضبوطی کا بھی وکیل ہوں لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ پارلیمنٹ کے کارنامے، اہلیت اور کارکردگی دیکھ کر میں تشویش کی وادی میں بھٹکنے لگتا ہوں۔ دھرنے والے واضح طور پر اعلان کررہے ہیں کہ انہیں نہ حکومت پر اعتماد تھا اور نہ ہی انہوں نے حکومت کے کہنے پر دھرنا ختم کیا ہے بلکہ انہوں نے فوج کی یقین دہانی کے بعد احتجاج کا بستر لپیٹا ہے۔ سیاسی دانشور اور قانونی موشگافیوں کے ماہرین فوج کے آئینی کردار پر بحث کرتے رہیں لیکن یہ ذہن میں رکھیں کہ اگر فوج مداخلت نہ کرتی تو نہ جانے کتنی قیمتی جانیں اللہ کو پیاری ہوجاتیں اور نہ جانے کتنے مزید دن لاکھوں شہری خوار ہوتے رہتے۔ آپ کی’’نقطہ سنجی‘‘ بجا کہ یہ فوج کا کام نہیں میں خود بھی فوج کے سیاسی کردار کا مخالف ہوں لیکن جن کا یہ کام تھا وہ بدقسمتی سے نہ صرف مشکوک ہوچکے تھے بلکہ اپنا اعتبار و وقار بھی گنوا چکے تھے۔ دوسری طرف احتجاج کی لہر پورے ملک میں پھیلتی جارہی تھی اور اسے کنٹرول کرنا سرکار کے بس کا روگ نہیں تھا۔ بنیادی طور پر یہ فرض تو تھا حکومت کا اور پارلیمنٹ کو حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنے تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس طرح حکومت اور پارلیمنٹ دونوں نے ختم نبوت کے حوالے سے اپنے آپ کو بے وقار کیا اور مشکوک ٹھہرایا اس کے بعد ان سے کسی موثر کردار کی توقع عبث تھی۔ وزارت داخلہ کے اشتہارات سابق وزیر قانون کا دفاع کرتے اور اس حوالے سے بنائی گئی کمیٹی اور سب کمیٹی کے علاوہ پارلیمنٹ پر ملبہ ڈالتے رہے جبکہ کمیٹیوں کے اراکین ٹی وی چینلز پر آکر حلفیہ بیانات دے رہے ہیں کہ انہیں اندھیرے میں رکھا گیا، ان ترامیم میں وہ شامل نہیں تھے۔ ختم نبوت کا معاملہ ہمارے لئے اپنی جان سے بھی پیارا ہے۔ اس ضمن میں پارلیمنٹ اور حکومت کے کردار نے عوامی نگاہوں میں اپنے آپ کو مشکوک اور بے وقار بنالیا ہے۔ کیا کوئی حکومت یا پارلیمنٹ اپنے آپ کو مشکوک اور بے وقار بنا کر موثر کردار سرانجام دے سکتی ہے؟ طویل عرصہ قبل میں نے لکھا تھا کہ پاکستان کی سیاست تیزی سے کروٹیں بدلتی نظر آتی ہے اور کچھ بڑے نام صفحہ سیاست سے مٹتے نظر آتے ہیں۔ مطلب یہ کہ ملک کی سیاست میں کچھ بنیادی تبدیلیاں رونما ہوتی نظر آتی ہیں۔ اب مجھے لگتا ہے کہ ہم اس جانب رواں دواں ہیں اور انجام کوئی زیادہ دور نہیں۔ یہ ہرگز غائب کا علم نہیں، تھوڑے سے مطالعے اور تجربے کے آئینے میں ایسی ہی شکل بنتی نظر آتی ہے۔ نہ جانے صبح کے کتنے معتبر نام شام کو غیر معتبر ٹھہریں اور کتنے حضرات سیاست اور ایمان کی باطنی کشمکش سے نجات حاصل کرنے کے لئے بھرا میلہ چھوڑ جائیں۔ سیاست میں منافقت کی بھی ایک حد ہوتی ہے لیکن سب کے لئے نہیں، صرف ان کے لئے جن کے ضمیر میں زندگی کی تھوڑی سی رمق باقی ہے۔
اب آپ کو سمجھ جانا چاہئے کہ ہماری پارلیمنٹ کی اکثریت آئین کی شقوں62-63کی کیوں مخالف ہے لیکن عوامی ردعمل کے خوف سے انہیں ہاتھ نہیں لگاتی۔ ویسے اراکین پارلیمنٹ کے اس سچ کی داد دینی چاہئے کہ وہ کئی بار ببانگ دہل اسمبلی کے فلور پہ کہہ چکے ہیں کہ وہ ان شقوں کے معیار پر پورے نہیں اترتے یعنی ہرگز صادق و امین نہیں۔ میں ان شقوں کا اس لئے حامی ہوں کہ دنیا بھر کی جمہوریتوں میں ایسی شقوں کے آئین میں غیر موجود ہونے کے باوجود قانون سازوں اور حکمرانوں کے لئے اخلاق کے اعلیٰ معیار رکھے جاتے ہیں۔ کسی رکن اسمبلی، وزیر یا حکمران پر ماضی میں بھی جھوٹ، دھوکہ دہی، مفاد پرستی یا بدکرداری کا الزام لگ جائے تو اسے مستعفی ہونا پڑتا ہے یا انکوائری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہم اگرچہ مسلمانی کے دعوے دار ہیں جو اعلیٰ ترین اقدار کی امین ہے اور ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے تحت حلف اٹھاتے ہیں جس میں صادق و امین اور اسلامی اقدار کی پابندی کا حلف بھی شامل ہے لیکن عملی طور پر ہمارے قانون سازوں کی اکثریت اپنے داغ دار دامن چھپاتی پھرتی ہے۔ ماشاءاللہ عوام بھی ووٹ دیتے ہوئے کسی کا کردار نہیں بلکہ تھانے کچہری، ڈیرے داری اور معاشرتی دبائو کے تحت ووٹ دیتے ہیں۔ دولت کی چمک بھی ان کی آنکھوں کو خیرہ کرتی ہے اور ضروریات کی محتاجی بھی مجبوری بن جاتی ہے ورنہ جس پارلیمنٹ کا یہ حال ہو کہ آئے دن اس کے اراکین جعلی ڈگریوں کے سبب نااہل قرار پائیں، ان پر نائو نوش، مجرموں کی سرپرستی، ترقیاتی فنڈز سے فیض یابی وغیرہ وغیرہ کے الزامات لگیں وہ عوامی نگاہوں میں کیونکر باوقار ٹھہرے گی۔ بھلا ہو سوشل میڈیا کا کہ کبھی پریشان کرتا ہے اور کبھی صدمات کے چرکے لگاتا ہے۔ کل میں ایک ٹی وی چینل کی ویڈیو کلپ دیکھ اور سن کر ایک عجیب سے صدمے سے دوچار ہوا۔ ہمارے دو موجود اراکین پارلیمنٹ اور سابق وزراء کو سورہ اخلاص یاد نہیں تھی۔وہ بار بار سورہ اخلاص غلط پڑھ رہے تھے اور آخری آیت بھول کر گول بھی کردیتے تھے۔ دنیا کے معیار کے مطابق یہ دونوں اراکین پارلیمنٹ اور سابق وزراء اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ بڑا نام اور دانشوری کی شہرت رکھتے ہیں لیکن مسلمانی کا یہ حال ہے کہ انہیں چار آیات پر مشتمل سورہ اخلاص یاد نہیں جو ہمارے گھروں میں نماز ادا کرنے کا طریقہ سکھاتے ہوئے بچپن میں ہی رٹا دی جاتی ہے۔ یقیناً انہیں سورہ فاتحہ بھی یاد نہیں ہوگی اور نہ ہی کبھی انہوں نے اللہ کے گھر کا چہرہ مبارک دیکھا ہوگا۔ حکمرانوں اور سیاستدانوں کا اصل چہرہ دیکھنا ہو تو ان ’’گوریوں‘‘ کی کتابیں پڑھو جو صحافی کی حیثیت سے یا کسی اور حیثیت سے پاکستان میں مقیم رہیں۔ انہوں نے نہ ہی صرف ہمارے دل پھینک حکمرانوں کے’’شوق‘‘ کا اپنی کتابوں میں چسکے لے لے کر ذکر کیا ہے بلکہ بعض کی ’’کثرت نوشی‘‘ کی بھی’’تعریف‘‘ کی ہے، اگر آپ نے امریکہ کی سابق سیکرٹری آف اسٹیٹ کونڈولیزا رائس، سانولی حسینہ کی کتاب پڑھی ہے تو آپ کو علم ہوگا کہ وہ کس طرح ہمارے ایک سابق وزیر اعظم کو ایکسپوز کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ کس طرح رائس نے جواباً اسے گھورا اور مشکوک ’’اظہار‘‘ پہ ڈانٹا۔ مختصر یہ کہ اس پس منظر میں مجھے کوئی حیرت نہیں ہوتی جب ہماری پارلیمنٹ بعض اخلاقی و جمہوری قدروں کے منافی قانون بناتی ہے یا آئین سے صادق و امین کی دفعات62-63کو ایک فوجی آمر کی یادگار قرار دے کر نکالنے کے ارادے کا اظہار کرتی ہے۔ ان کا بس چلے تو یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئینی نام سے’’اسلامی‘‘ بھی نکال دیں۔ انہیں فقط عوامی ردعمل کا خوف ہے، خدا کا خوف ہرگز نہیں۔ خدا کا خوف ہوتا تو ختم نبوت جیسے حساس اور طے شدہ معاملے کو نہ چھیڑتے۔

تازہ ترین