• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج بارہ ربیع الاوّل ہے۔ ہر مسلمان کے لیے عید کا دن۔ رحمتوں سے معمور اور سعادتوں سے مشک بار۔ مجھے جب پہلی بار سرورِ کونین حضرت محمد ﷺ کے روضۂ اقدس پر حاضری کی سعادت نصیب ہوئی، تو نعت کے چند اشعار نازل ہوئے ؎
وہی اک دَر ہے سجدہ گاہِ دل، تُو سوچتا کیا ہے
وہیں چل کر کھلے گا زندگی کا مدعا کیا ہے
میں کب تک فلسفے کے جنگلوں میں ٹھوکریں کھاتا
مجھے یہ کون سمجھاتا خودی کیا ہے، خدا کیا ہے
یہ اُس سرکارؐ کا دربار ہے جس کی حضوری میں
خِرد نے خود بہ خود جانا جُنوں کا مرتبہ کیا ہے
شبِ معراج سے عقدہ کُھلا یہ چشمِ عالم پر
بشر کی ابتدا کیا تھی، بشر کی انتہا کیا ہے
فقط تیرے غلاموں کو ہے اِس عظمت کا اندازہ
کہ پیوندِ قبا کیا ہے، شِکَستہ بوریا کیا ہے
خِرد والے نہ سمجھے ہیں، نہ سمجھیں گے کبھی الطافؔ
یہ اہلِ دل سمجھتے ہیں مقامِ مصطفی ﷺ کیا ہے
میں جب اپنے یہ ٹوٹے پھوٹے اشعار پڑھتا ہوں، تو ایک خاص کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ معصیت بھری زندگی کا حساب کرنے لگتا ہوں، تو آنکھوں سے آنسو جھرنوں کی طرح بہہ نکلتے ہیں اور ہچکی بندھ جاتی ہے۔ سوچتا ہوں کہ روزِ محشر آقائے نامدارؐ کو کیا منہ دکھاؤں گا کہ دامن اچھے اعمال سے خالی ہے۔ میں محبوبِؐ خدا سے محبت کا دم کیسے بھروں کہ ان کے اوصافِ حمیدہ کی جھلک میری حیاتِ مستعار میں نظر ہی نہیں آتی۔ وہ تو شفیع المذنبین ہیں، جبکہ میں کسی کی خطا درگزر کرنے کی لذت سے آشنا ہی نہیں۔ میں نے تو اپنے آتش کدۂِ حرص و ہوس سے نیک لوگوں کو جھلسا کے رکھ دیا ہے اور اپنی پارسائی کا سکہ جمانے کے لیے خلقِ خدا کو طرح طرح کی جھوٹی عقیدتوں میں جکڑ رکھا ہے۔ مایوسی کے ان اندھیروں میں گاہے گاہے لا تقنطوا من رحمۃ اللہ کی روشنی جھلملاتی ہے اور یہ اُمید بندھتی ہے کہ اُن کی ذاتِ مکرم پر درودوسلام بھیجتے رہنے اور استغفار کا ورد کرتے رہنے سے راستے کشادہ ہو جاتے ہیں اور گناہوں کی معافی مل سکتی ہے۔
ربیع الاوّل کے مبارک اور عرش بداماں مہینے میں میرا دل بجھا ہوا ہے اور مجھے اندیشہ ہائے دور دراز نے آ گھیرا ہے۔ اسلام آباد کے ایک ایسے مقام پر ہزار دو ہزار لوگ ناموسِ رسالتؐ کے نام پر جمع ہوئے جہاں سے اسلام آباد سے راولپنڈی جانے کا راستہ رک گیا تھا۔ انہوں نے تین ہفتے دھرنا دیا اور قال اللہ اور قال الرسولؐ کا درس دینے والوں سے شہریوں کو آزار ملا۔ روزانہ لاکھوں شہری دھرنے کے عذاب کا ذائقہ چکھنے پر مجبور تھے۔ طلبہ اپنے تعلیمی اداروں میں نہ جا سکے اور اسپتال ڈاکٹروں اور دفاتر اہل کاروں سے خالی رہے۔ بدقسمتی سے اس تحریک نے اسوۂ حسنہ پر عمل کرنے کے بجائے زور زبردستی کی اور اس کے دبائو کے سامنے حکومت سرنگوں ہو گئی جبکہ ریاستی اداروں کے مابین آویزش کے مناظر عریاں ہوتے گئے اور حکمران جماعت کی داخلی شکست و ریخت عیاں ہونے لگی۔ خود ہماری عدالتوں میں بھی سوچ کے ناقابلِ تصور فاصلے دیکھنے میں آئے۔ لاہور ہائی کورٹ کے ایک فاضل جج نے اس امر پر اللہ کا شکر ادا کیا کہ فوج نے دھرنا ختم کرانے میں ایک عظیم الشان کردار ادا کیا ہے ورنہ ملک میں افراتفری پھیل جانے اور بہت ساری لاشیں گرنے کا خطرہ بڑھتا جا رہا تھا۔ میں اس لیے غم زدہ اور دل گرفتہ ہوں کہ اپنا پورا وجود ننگ ِلباس ہو گیا ہے۔
اب فساد کا اصل سبب بھی سامنے آ گیا ہے۔ انتخابی اصلاحات کے لیے ایک کمیٹی 2014ء میں جناب اسحٰق ڈار کی صدارت میں قائم ہوئی تھی جن کی آئین اور قانون کی آگاہی بڑی محدود تھی۔ ابتدائی مشاورت کے بعد ایک سب کمیٹی تشکیل دی گئی جس کے سربراہ وزیر قانون زاہد حامد تھے۔ اس کمیٹی کے پہلے اجلاس میں ایک خاتون نے کہا کہ ہمیں ان گوشواروں سے نجات دلائی جائے جن میں میک اپ کے اخراجات کا حساب دینا پڑتا ہے۔ پھر مالیاتی گوشواروں کی بات چل نکلی جن میں حلفیہ بیان دینا پڑتا ہے۔ اس پر کسی صاحب نے تجویز دی کہ حلف نامے کو اقرار نامے میں تبدیل کر دیا جائے۔ ایک میٹنگ میں الیکشن کمیشن کے سیکرٹری بھی موجود تھے۔ انہوں نے بتایا کہ گوشواروں کا تعلق الیکشن کمیشن کے ضابطوں سے ہے، اس لیے انہیں انتخابی قانون میں شامل نہ کیا جائے۔ انتخابی گوشواروں میں ختمِ نبوت کا حلف نامہ تین بار دینا پڑتا ہے۔ حلف نامے کو اقرار نامے میں تبدیل کرنے کا انتہائی حساس کام سب کمیٹی کے ایک رکن کے حوالے کیا گیا جنہوں نے اپنے معاون کے سپرد یہ کام کر دیا۔ اس طرح کسی بحث و تمحیص کے بغیر حلف نامے میں تبدیلی واقع ہو گئی۔ تبدیلی کی نشان دہی پر وزیر قانون نے پہلے یہ موقف اختیار کیا کہ کلیریکل غلطی ہوئی ہے۔ بعد میں کہا کہ کوئی تبدیلی واقع ہی نہیں ہوئی۔ جب دباؤ بہت بڑھا، تو ہمارے انتہائی قابل وزیر داخلہ نے یہ عجیب و غریب وضاحت پیش کی کہ پارلیمانی کمیٹی کے تیار کردہ بل میں وزیر قانون ایک شوشہ بھی بدل نہیں سکتے تھے، حالانکہ وہ سب کمیٹی کے سربراہ تھے اور ان کی منظوری کے بغیر کوئی رپورٹ آگے نہیں بھیجی جا سکتی تھی۔
وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے دھرنا شروع ہونے سے پہلے تجویز دی تھی کہ ختم ِنبوت کے حلف نامے میں تبدیلی کرنے والے وزرا کو کابینہ سے فارغ کر دیا جائے۔ ان کا مشورہ مان لیا جاتا، تو فساد زیادہ نہ پھیلتا، مگر حیص بیض میں دو تین ہفتے گزر گئے اور ملک کے مختلف حصوں میں اشتعال پھیلتا گیا۔ وزیر قانون کے استعفے کے بغیر مذاکرات نتیجہ خیز ہو ہی نہیں سکتے تھے۔ حالات کی سنگینی پر قابو پانے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ کو تین دن کے اندر مظاہرین کو ایک دوسری جگہ منتقل کرنے کے احکام دینا پڑے۔ وزیر داخلہ آپریشن کے لیے ذہنی طور پر آمادہ نہ تھے کہ طاقت کے استعمال سے ربیع الاوّل کے مہینے میں خون بہنے کا خطرہ تھا۔ حکومت کے ہاتھ پاؤں پھول گئے اور اس نے دستور کے آرٹیکل 245کے تحت فوج طلب کر لی۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے پہلے وزیراعظم کو طاقت کے بجائے مذاکرات کے ذریعے معاملہ طے کرنے کا مشورہ دیا اور بعد میں ملاقات بھی کی۔ باہمی مشورے سے طے پایا کہ وزیراعظم کے حکم پر وزارتِ داخلہ اور آئی ایس آئی مظاہرین سے بات چیت کریں گے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ خود مذاکرات سے الگ تھلگ رہے۔ مظاہرین نے جو مسودہ تیار کیا، اس پر حالات کے دباؤ کے تحت وزیرداخلہ اور سیکرٹری داخلہ نے بے چون وچرا دستخط کر دیئے جبکہ ڈائریکٹر انٹرنل میجر جنرل فیض حمید نے گواہ کے طور پر دستخط کیے۔ اس معاہدے میں کئی ایسی باتیں درج ہیں جو آگے چل کر قومی ہم آہنگی کے لیے نقصان دہ ثابت ہوں گی۔ حالات کی برہمی دیکھ کر غالب کا شعر یاد آتا ہے ؎
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں

تازہ ترین