• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بحران اب بھی شدید ہے، صرف دھرنا ختم ہوا، اور وہ بھی بعد از خرابی بسیار، اور پیچھے بہت کچھ چھوڑگیا ۔ کشیدگی، اداروں کے درمیان، سیاسی رہنمائوں کے درمیان، اور سب سے اہم، اور شاید خطرناک بات، حکمران جماعت کے اندر، وہ بھی نئے عام انتخابات سے ذرا پہلے۔ وجوہات تو سب کے سامنے ہیں۔ تعین ذمہ داری کا ہونا ہے، وہ جتنی جلد ہو جائے ملک کے عظیم تر مفاد میں ہوگا۔ حیرانی اس پر کہ کئی سال سے برسرِاقتدار جماعت ایک معمولی سے بحران کا سامنا نہ کرسکی، اسے حل نہ کرسکی، اور حالات روز بروز خراب کرنے کا باعث بنی۔ نیت کی خرابی نے اسے زیادہ نقصان پہنچایا، اور اس کے کارپردازوں کی نااہلی جلتی پر تیل ڈالتی رہی۔
معاملات بد ترین صورت حال تک پہنچا دئیے گئے۔ اثرات پورے ملک پر پڑے، اور مزید خراب ہو سکتے تھے،سنبھل نہیں سکتے تھے اگر بروقت اقدامات نہ کئے جاتے۔ ایک معمولی سی اخلاقی جرات کی ضرورت تھی، وہ یہ، لگتا ہے، کھو بیٹھے ہیں۔ وہ جو بچوں کو سکھایا جاتا ہے، ہمیشہ غلطی تسلیم کریں اور معذرت کریں، ان سے وہ بھی نہیں ہو سکا۔ بوسیدہ د لیلوں کا سہارا لینے کی کوشش کی، دھڑام سے گرے، منھ کے بل، اب تک مٹی چاٹ رہے ہیں۔
سارے ہی وزرا، احسن اقبال ان میں زیادہ نمایاں ہیں، ایک ایسے معاملے میں مسلسل جھوٹ بولتے رہے، اور بعد میں بھی غلط بیانی کرتے رہے جس میں انہیں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت تھی اور ہے۔ یہ عقیدے اور عاقبت کا معاملہ ہے دنیاداری نہیں۔ جب سے ختم نبوت کا مسئلہ ان کی جماعت اور
ساتھیوں نے بگاڑا، قوم کے جذبات مجروح کئے،فطری بات ہے ان سے سوال ہوں گے۔ آخر کس طرح ختم ِنبوت کے حلف میں تبدیلی کی گئی؟ یہ سوال انتخابی ایکٹ منظور ہونے کے فوری بعد سے شروع ہوا اور اب تک ہو رہاہے۔ درست کہ اس خامی کو دور کردیا گیا، مگر کب؟ بہت بعد میں، عمومی احتجاج اور ایک مذہبی جماعت کے دھرنے کے بعد ۔ یہ سوال تو اپنی جگہ کہ ذمہ دار کون ہے؟ اسی لئے راجہ ظفرالحق اور کچھ اور افراد پر مشتمل کمیٹی بنی۔ اسی حوالے سے سوال ہوئے۔ رپورٹ کب تک آئے گی؟ ہر بار احسن اقبال اک عجیب بات کرتے ہیں، ناقابل فہم۔ کمیٹی کی رپورٹ تیار ہونے میں وقت لگے گا۔ ان کی دلیل، اگر اسے دلیل کہا جائے، کم سے کم الفاظ میں غلط بیانی، ورنہ دروغ گوئی کو چھوتی ہوئی، عوام کو بے وقوف بنانے کی ایک اور ناکام کوشش۔ ہر بار ایک ہی جواب، پارلیمانی کمیٹیوں کے 126 اجلاس ہوئے، ریکارڈ ہزاروں صفحات پر مشتمل ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ انہیں پتہ ہے مگر وہ تجاہل سے کام لے رہے ہیں۔ مسئلہ ہزاروں صفحات کا نہیں ،صرف اس ایک صفحہ کا ہے جس پر امیدوار کے حلف کا تذکرہ ہے۔ دیکھنا صرف یہ ہے کہ اس صفحہ کے حوالے سے کمیٹیوں کے اجلاس میں کیا ہوا؟ کس نے عنوان میں سے حلف کا لفظ نکالا؟ کس نے شق دو میں سے’’ حلفیہ قسم کھاتا ہوں‘‘ ہٹایا؟ باقی تقریباً 90 صفحات پر تو انتخابی ایکٹ کی تفصیلات ہیں، کس ٹرم کے کیا معنی ہیں، انتخابی فہرست کیسے بنے گی، انتخابات کیسے ہوں گے، وغیرہ وغیرہ۔ حقیقت سے منہ چرانے کے لئے احسن اقبال ہزاروں صفحات کا ایسے ذکر کرتے ہیں جیسے متنازع معاملہ ان ہزاروں صفحات میں تلاش کرنا ہوگا۔ یہ چند گھنٹوں یا زیادہ سے زیادہ چند دن کا کام تھا، کبھی کا ہو جانا چاہئے تھا۔ مگر ان کا رویہ، بار بار ایک غیر متعلق بات کا تذکرہ، لگتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ کوئی ایسی گڑبڑ ہوئی ہے، کی گئی ہے، کہ جس کا چھپانا ضروری ہے، اس کے ظاہر ہونے سے اس ملک کے عوام کو پتہ چل جائے گا کہ در اصل ہوا کیا ہے؟ کیسے اتنی بڑی غلطی ہوئی؟ کس نے کی؟ اگر اس ایک صفحہ پر بحث ہوئی تو اس کا ریکارڈ ہوگا، نہیں ہوئی تو اس کا بھی۔ کمیٹی کے کچھ ارکان نے اب تصدیق کردی ہے کہ اس موضوع پر بات ہی نہیں ہوئی۔ ان ارکان کو کرنی چاہیے تھی۔ اعتزاز احسن تو اجلاسوں میں شریک ہی نہیں ہوئے، خود انہوں نے تسلیم کیا ہے۔ ان ارکان نے اور پارلیمان کے دیگر ارکان نے بھی انتخابی قوانین پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ ذمہ داری ان سب پر بھی عائد ہوتی ہے۔ کمیٹی کے کئی ارکان نے اسی لئے مطالبہ کیا ہے کہ کارروائی کی ریکارڈنگ دیکھ لی جائے، حقیقت سامنے آجائے گی۔ ظفرالحق صاحب کو بس ایک صفحہ کے حوالے سے ہی کارروائی دیکھنی ہے ، ہزاروں صفحات میں وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔
احسن اقبال کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا، مگر وہ اس سے بھی ٹھیک فائدہ نہیں اُٹھاپا رہے، کئی پہلوؤں سے۔ وہ بس اتنے وفاقی وزیر ہیں کہ ان کا اختیار،خودانہوں نے تسلیم کیا، صرف اسلام آباد تک ہے۔ کیا وفاقی نظام میں ایسا ہی ہوتا ہے؟ وفاقی وزیر کو پتہ نہیں ہوتا کہ پورے ملک میں کیا ہورہا ہے؟ دھرنے کے خلاف کارروائی کے دوران چوہدری نثار کے گھر کے باہر جو کچھ ہوا احسن اقبال کو پتہ ہونا چاہئے تھا۔ اگر نہیں تو انہوں نے کس بنیاد پر کہا کہ چوہدری نثار کے گھر پر حملہ میں چھ افراد ہلاک ہو گئے؟ چوہدری نثار نے فوری تردید کی ، احسن اقبال سے جواب نہیں بن پڑا۔ کچھ اس طرح کی گفتگو کی جسے آئیں بائیں شائیں کہا جاتا ہے۔
اس سارے معاملہ میں، جس نے ملک کو شدید بحران میں دھکیل دیا، احسن اقبال کا کردار قابل تقلید تو کیاقابل تعریف بھی نہیں رہا۔ کیا وہ دو باتیں بتا سکتے ہیں: اتنے بڑے بڑے اشتہارات ان کی وزارت نے کیوں شائع کروائے؟ کیا اس سے ان کا کوئی بہتر موقف عوام کے سامنے آیا؟ ان اشتہارات پر اس ملک کے غریب عوام کے کتنے پیسے خرچ کئے گئے؟ ایک اور سوال بھی۔ یہ کس کی اجازت سے ہوا؟ عوام اور ٹیکس دینے والوں کی رقم اس لئے تو نہیں کہ آپ اور آپ کی حکومت یوں بے دردی سے بے دریغ اسے اپنے مقاصد کے لئے خرچ کرے۔ شاید زندگی میں پہلی بار دیکھا کہ جو اشتہار ایک دن آدھے صفحہ کا شائع ہوا وہی اگلے دن پورے صفحہ کا ہوگیا، بات وہی تھی، الفاظ بھی وہی تھے۔ کوئی جواز اگر آپ پیش کر سکتے ہوں تو عوام کو ضرور آگاہ کریں۔ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ جس دن پورے صفحہ کا اشتہار ملک بھر کے اخبارات میں شائع ہوا اس کے اگلے دن دھرنے والوں کے خلاف کارروائی کی گئی، حالات کو مزید خراب کردیا گیا۔
پورا ملک شدید بحران کا شکار ہو گیا۔ ہنگامے پورے ملک میں پھیل گئے۔ فوج نے بروقت کارروائی کی اور دھرنا ختم کرانے میں کردار ادا کیا۔ یہ اور کچھ اور کام بھی ویسے حکومت کو کرنے چاہئیں تھے؛ سب سے پہلی بات انتخابی ایکٹ میں سے حلف کا لفظ نکالنا نہیں چاہیے تھا؛ جب اس کی نشاندہی کی گئی تو دروغ گوئی، کہ کچھ تبدیل نہیں کیا گیا کہنے کی بجائے، اپنی غلطی کا اعتراف کرنا چاہیے تھا؛ اس کے بعد وزیر قانون سے استعفیٰ لے لینا چاہئے تھا، (جو بالآخر لیاہی گیا)؛ احتجاجی دھرناہو گیا تھا تو حکومت کو اسے پرامن طریقے سے ختم کروانا چاہیے تھا۔ یوں نہیں ہوا، حکومت نے کسی مرحلہ پر کسی تدبر کا ثبوت نہیں دیا۔ فوج نے معاملہ ختم کروایا، یوں ملک مزید بحران سے بچ گیا۔ گو اس طرح یہ تنازع پیدا ہو گیا کہ فوج کو کیا کام کرنے چاہئیں اور کیا نہیں؟
ایک بات اور۔ انتخابی ایکٹ کی تفصیل سے مطالعہ کی ضرورت ہے۔ اس میں کئی اہم باتیں شاید نظر سے اوجھل ہو گئی ہوں۔ مثلاً، ایک سے زیادہ جگہ آرٹیکل 62 اور 63کا تذکرہ ہے۔ یہ نہیں لکھا کہ کس قانون کے آرٹیکل کا ذکر ہے۔ یعنی، کئی جگہ آئین کا حوالہ رہ گیا ہے، ایک آدھ جگہ ہے بھی۔ اور بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے رہ گیا ہو۔ پارلیمان کے پڑھے لکھے ارکان اگر اس قانون کا تفصیل سے مطالعہ کریں ، پرانے قوانین سے تقابل کریں تو شایدکچھ اور خامیوں کی نشاندہی ہو جائے۔

تازہ ترین