• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غالب کو ایک کمال حاصل تھا۔ انیسویںصدی میں وہ بات کہہ گئے جو آج کے حالات پر یوں چسپاں ہوتی ہے جیسے آج ہی کے لئے کہی گئی تھی۔ کہتے ہیں:
ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ کشتہء تیغ ستم نکلے
ابھی ہم منتظر تھے کہ بھارت کے مسلمان تاج محل کوگرادینے کے متعصبانہ نعرے کے خلاف ہماری فریاد کی لے میں لے ملائیں گے کہ ملک کے دین داروں نے یہ نعرہ ء مستانہ بلند کردیا کہ دلّی میں بڑے پایہ کے مغل بادشاہ ہمایوں کا مقبرہ مسمار کردیا جائے۔اب کوئی یہ نہ پوچھے کہ کیوں۔ اس خبر کے سننے سے ہی جو صدمہ پہنچتا ہے وہ دل کو دہلادینے کے لئے کافی ہے۔ تفصیل میں جاکر اپنے اعصاب کو عذاب میں کیوں ڈالیں۔ مگر دل پہلے کبھی باز رہا ہے جو آج بات ادھوری چھوڑ کر اس میں بھی کسی تسکین کی صورت نکالے گا۔سنئے۔ ایک بڑے ہندوستانی اخبار کے کانپور ایڈیشن نے خبر چھاپی ہے کہ اتّر پردیش شیعہ سینٹرل وقف بورڈ نے کہا ہے کہ مغل بادشاہ ہمایوں کا مقبرہ گرادیاجائے او ر اس کی جگہ مسلمانوں کا قبرستان بنا دیا جائے۔ بورڈ کے سربراہ وسیم رضوی نے کسی اور کو نہیں، وزیر اعظم نریندر مودی کے نام خط لکھا ہے اور کہا ہے کہ شہر دہلی میں مسلمانوں کے قبرستان بھر چکے ہیں اور میتیں دفن کرنے کے لئے جگہ نہیں ملتی۔ اس مسئلے کا ایک حل یہ ہے کہ ہمایوں کا مقبرہ گراکر اس کشادہ جگہ کو قبرستان میں تبدیل کر دیا جائے۔ رضوی صاحب نے اپنے خط میں یہ بھی کہا ہے کہ جہاں تک اسلام کا تعلق ہے، مقبرہ گرانے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ اخبار کا دعویٰ ہے کہ مسلم وقف بورڈ نے اپنے خط میں مودی صاحب کو یہ بھی لکھا ہے کہ یہ مغل لوگ دوسرے ملکوں سے آئے تھے اور انہوں نے ہندوستان کی دولت لوٹی اور اپنی حکمرانی قائم کی۔ وہ لکھتے ہیں:مغلوں نے ہندوستان کی ثقافت کو نقصان پہنچایا اور تاریخ دان اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مغلوں نے اپنی طاقت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے تین ہزار مندر مسمار کئے۔ یہ مغل لوگ نہ تو اسلام کو پھیلا رہے تھے نہ ہی یہ خود پاکباز تھے۔ ان کے مزاروں اور مقبروں کو قومی اثاثہ کہنا درست نہیں۔ رضوی صاحب لکھتے ہیں کہ ہم نے لاکھ چاہا کہ قبرستان کے لئے مناسب زمین مل جائے لیکن دلّی کے اندر یا قریب کوئی جگہ نہیں ملتی۔ ایسے میں اگر ہمایوں کا مقبرہ گرا کر ملبہ ہٹا دیا جائے تو مسلمانو ں کو پینتیس ایکڑ زمین مل جائے گی۔وہ کہتے ہیں کہ مسلم برادری کے نزدیک مقبروں کا ان کے عقیدے یا دینیات سے کوئی لینا دینا نہیں۔ انہوں نے سعودی عرب کی مثالیں دیں جہاں کئی تاریخی مزار1925ء میں مسمار کردئیے گئے تھے۔ رضوی صاحب نے لکھا:مزاروں کا گرایا جانا مسلمانوں کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ۔انہوں نے کہا کہ حکومتِ ہند کو ان مقبروں سے ایک دھیلے کی بھی آمدنی نہیںبلکہ ان کی دیکھ ریکھ پر زرِ کثیر خرچ ہوتا ہے۔ انہوں نے مودی صاحب پر زور دیا کہ عوام کے خزانے کا پیسہ ظالم حکمرانوں کی قبروں کی حفاظت پر ضائع نہ کریںاور ان کی تجویز کی منظوری کا حکم صادر فرمائیں۔
یہ وقف بورڈ کچھ عرصہ پہلے ایسے ہی اختلافات کھڑے کر چکا ہے۔ اس نے سپریم کورٹ میں بیان حلفی داخل کیا ہے کہ بابری مسجد کا اصل مالک وہی ہے اور یہ کہ جھگڑا کس بات کا۔ ہم ذرا فاصلے پر نئی مسجد بنا سکتے ہیںتاکہ رام چندر جی کی جائے ولادت محفوظ رہے۔بورڈ مانتا ہے کہ بابر کے زمانے میں اس جگہ مندر ہی تھا جسے گراکر یہ مسجد کھڑی کی گئی۔اور آخری خبر یہ ہے کہ ایودھیا میں شری رام چندر جی کا جو ایک سو میٹر اونچا مجسمہ بنایا جائے گااس مجسمے کے ترکش کو بھرنے کے لئے یہ وقف بورڈ چاندی کے بنے پورے دس تیر بطور تحفہ دے گا۔ غالب ہی نے کہا تھا: اک تیر میرے سینے پہ مارا کہ ہائے ہائے۔
جس عقیدے پر عمل پیرا یہ بورڈ ہے، اسی کی دینیات کی کتابوں میں مولانا فرمان علی صاحب قبلہ کی یہ تحریر ہم نے جن دنوں ہوش سنبھالا اسی زمانے میں پڑھ لی تھی کہ قبریں کچّی رکھو کہ ان کا نشان جتنی جلدی مٹ جائے ، اس میں دفن میّت کو اتنا ہی ثواب ملے گا یہاں تک کہ اگر اس کی قبر کے اوپر راہ گیروں کی گزر گاہ بن جائے تو میّت اور زیادہ ثواب کمائے گی۔اگر یہ بات درست ہے ، دل کو لگتی بھی ہے تو خیال ہوتا ہے کہ زمانہء قدیم کے ان لق و دق قبرستانوں کو کس دن کے لئے بچا بچا کر رکھا جارہا ہے۔ پرانی قبروں کو وقت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے تو وہ آپ ہی مٹ جائیں گی۔ سنا ہے کہ شہر بمبئی میں قبرستان بھر چکے تھے اور میتیں در بدر ہو رہی تھیں۔ ان کا بھی کوئی وقف بورڈ رہا ہوگا جس نے ساری قبریں مسمار کرکے اس جگہ بہت سی مٹی بھر کر نئی قبریں بنانی شروع کردی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ا س ریلے کے ساتھ جن لوگوں کی یہ آخری نشانی خاک میں ملی ان میں شہر بمبئی کے بڑے بڑے نامور لوگوں کی قبریں شامل تھیں۔مثال کے طور پر عظیم گلوکار محمد رفیع مرحوم کی قبر کا اب نشان تک نہیں۔
میں جس شہر لندن میں آباد ہوں اور یوں لگتا ہے کہ یہ سلسلہ یہیں انجام کو پہنچے گا، میری برادری نے ایک جگہ حاصل کر کے اسے ’وادی السلام‘ کا نام دے دیا ہے۔اس احاطے میں قبریں سلیقے سے بنا دی گئی ہیں۔لوگوں نے اپنا ٹھکانا پہلے ہی خرید لیا ہے۔ اس کی ایک خوبی یہ ہے کہ ایک قبر میں ایک سے زیادہ میّتیں دفن ہو سکیں گی جس کی شریعت میں اجازت ہے۔
اب رہ گئے قدیم مقبرے کہ ہم انہیں مسمار کرنے کی سوچ رہے ہیں اوردوسری جانب مہذب اور ترقی یافتہ قومیں اپنی تاریخ کا سراغ لگانے کے لئے مٹّی کو کرید کرید کر ٹوٹی ہوئی ہانڈیوں ، مٹکوں، گھڑوں کے ٹکڑے نکال کر یوں خوش ہورہی ہیں جیسے کوئی خزانہ ہاتھ لگ گیا ہو۔ اہرام مصر کیا ہیں، فرعونوں کے مقبرے ہیں۔ماہرین آج تک ان میں سر کھپا رہے ہیں۔ تازہ خبر یہ ہے کہ سب سے بڑے ہرم کے بہت اندر کوئی خالی جگہ ہے جہاںخدا جانے کب سے شدید شور کی آواز گونج رہی ہے۔ ماہرین چین سے بیٹھنے والے نہیں ۔ ایک روز معلوم کرکے چھوڑیں گے کہ قدیم نسل انسانی یہ کیسا چمتکار دکھا کر گئی ہے۔ اب رہ گیا ہمارا وقف بورڈ تو اس سے یہ پوچھنے کو جی چاہتا ہے کہ ہر روز جو سینکڑوں ہزاروں اہل ایماں مقدس مقامات کے پہلو میں دفن ہونے کی وصیت کر جاتے ہیں اور وہ وصیت پوری بھی کی جاتی ہے، تو وہ کہاں سماتے ہیں؟ کیا گنجائش نکالنے کے لئے کوئی متبرک مقبرہ گرایا گیا؟

تازہ ترین