• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہماری سیاسی جماعتوں میں بہت سی ’’خوبیاں‘‘ ہیں۔ انہوں نے سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے منافقت میں بھی بڑا نام پیدا کیا ہے ۔ان کی یہ ’’خوبی‘‘ تحریک لبیک پاکستان کے فیض آباد انٹرچینج پر حالیہ پرتشدد قبضے کے دوران کھل کر سامنے آئی۔ ہر ایک نے کوشش کی کہ وہ اس پر اپنے سیاسی محل تعمیر کرے مگر وہ اس میں بری طرح ناکام ہوئیں۔ صرف ایک پیپلزپارٹی تھی جس نے اس سارے بحران میں منافقت کو نزدیک نہیں آنے دیا اور کھل کر اس دھرنے کی مخالفت کی۔ یقیناً اس پالیسی کی وجہ سے اس نے اپنے آپ کو ایک ذمہ دار اور بااصول جماعت کے طور پر پیش کیا۔ بیرسٹر اعتزاز احسن کی مختلف سیاسی امور میں حکمت عملی سے اختلاف اپنی جگہ مگر انہوں نے یہ کہہ کرکہ ’’انتخابی اصلاحات بل پارلیمنٹ نے منظور کیا ذمہ دار سب ہیں‘‘ کمال کر دیا۔ انہوں نے بالکل سچ بولا اور کسی ایک جماعت کو موردالزام نہیں ٹھہرایا۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ تمام پارلیمانی جماعتیں الیکشن حلف نامے کو تبدیل کرنے کی ذمہ دار تھیں اگرچہ یہ تبدیلی بعد میں ختم کر دی گئی اور حلف نامے کو اصلی صورت میں بحال کر دیا گیا جس کی پیپلزپارٹی نے بھی مخالف نہیں کی تھی۔ جو کھری بات اعتزاز احسن نے کی ہے یہ صرف وہی سیاستدان کرسکتا ہے جس کا ذہن صاف ہو اور جو جرات مند ہو ۔ دوسری پارلیمانی جماعتوں نے تو صرف منافقت ہی کی، صرف اس لئے کہ اس بحران میں شاید ان کے ووٹ کسی طرح بڑھ سکیں مگر یہ خواہش صرف خواب ہی رہی۔ الٹا انہوں نے اپنی منافقت کو عوام کے سامنے ایکسپوز کیا۔
جب 22 دن فیض آباد انٹر چینج پر تحریک لبیک کا قبضہ رہا تو سوائے پیپلزپارٹی کے حزب اختلاف کی ہر جماعت اس امید میں رہی کہ حکومت غلطیاں کرے تاکہ کسی طرح ان کا دائو لگ سکے۔ یہ جما عتیں جلتی پر تیل ہی ڈالتی رہیں اور ہر طرح کوشش کرتی رہیں کہ نون لیگ مزید مشکلات کا شکار ہو۔ کسی میں یہ جرات نہیں تھی کہ وہ اس دھرنے کی پرزور مذمت کرتی۔ گندی سیاست ہر طرف تھی۔ پاکستان تحریک انصاف کافی حد تک دھرنے کے دوران خاموش رہی اور عمران خان نے کوئی ٹوئٹ بھی نہیں کیا مگر جونہی یہ بحران گمبھیر ہوا تو موصوف کود پڑے تاکہ انہیں بھی اس میں سے کچھ مل سکے اور نون لیگ کا وہ کچھ نقصان کرسکیں مگر یہ صرف خواہش ہی رہی۔ مسئلہ حل ہونے کے بعد ان کا یہ کہنا کہ ان کے کارکن بھی دھرنے میں آنے کو تیار تھے سوائے منافقت کے کیا ہے۔ تحریک لبیک کی حضرت محمدﷺ سے محبت اپنی جگہ مگر شنید ہے کہ وہ بھی صرف اور صرف سیاست ہی کر رہی تھی۔ جب حکومت نے اس کے سرکردہ رہنمائوں کی وزیر قانون زاہد حامد سے ایک لمبی نشست کا انتظام کیا تو وزیر نے کھل کر اپنا نقطہ نگاہ بیان کیا اور یہ واضح کیا کہ وہ بھی انہی کی طرح مسلمان ہیں اور ان کا بھی حضرت محمدﷺ کے آخری نبیؐ ہونے پر اتنا ہی یقین ہے جتنا کہ ان کا ہے۔ ان کی پر زور وضاحت کے بعد یہ حضرات بالکل مطمئن ہوگئے تھے مگر ان کا کہنا تھا کہ وہ زاہد حامد کے استعفے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے کیونکہ بہت زیادہ جذباتی ماحول پیدا ہونے کی وجہ سے ان کیلئے ایسا کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ چاہے وقتی طور پر ہی سہی وزیر موصوف کو مستعفی ہو جانا چاہئے۔ اس بحران کو حل کرنے میں جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور دوسری مذہبی جماعتوں نے کوئی مثبت رول ادا نہیں کیا بلکہ الٹا اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش ہی کرتی رہیں۔ نون لیگ فائر فائٹنگ میں لگی رہی کہ کسی نہ کسی طرح یہ دھرنا پرامن طریقے سے اختتام پذیر ہو۔ اس نے بہت سے علماء حضرات، جن کا تعلق تحریک لبیک کے فرقے سے ہی تھا ،کو بھی بات چیت میں ملوث کیا مگر یہ دھرنے والےکسی طرح بھی اپنے احتجاج کو ختم کرنے پر تیار نہیں تھے کیونکہ اگر وہ یونہی گھر چلے جاتے تو ان کے سیاسی مقاصد پورے نہ ہوتے جن کیلئے وہ لاہور سے چل کر فیض آباد آئے تھے۔
جس طریقے سے دھرنا ختم ہوا اس سے ملک مزید انتشار اور خون ریزی سے تو بچ گیا مگر یہ بہت سے کرب ناک سوالات پیچھے چھوڑ گیا۔ چند سو افراد لاہور سے چل کر فیض آباد کیسے بغیر کسی روک رکاوٹ کے پہنچ گئے اور انہیں اس لمبے سفر کے دوران کیوں نہ روکا گیا جو اتنا مشکل کام نہیں تھا؟ جب یہ حضرات اس انٹرچینج پر قابض ہوگئے تو دو ہفتے سے زائد عرصہ کیوں انتظار کیا گیا کہ وہ مذہبی جذبات کو بھڑکاتے رہیں اور پورے ملک سے اپنے پیروکاروں کو اس جگہ بلاتے رہیں؟ پھر جب 25نومبر کو دھرنا ختم کرنے کیلئے پولیس اور ایف سی نے کارروائی کی اور کافی حد تک آپریشن مکمل کر لیا تو پھر یہ فورسز اچانک کیوں پیچھے ہٹ گئیں؟ سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے گھر کے سامنے چھ مظاہرین کس طرح ہلاک ہوگئے اور کس کی گولیاں انہیں لگیں؟ جس طرح اسٹیبلشمنٹ کو ملوث کر کے دھرنے کوختم کرنے کیلئے تحریک لبیک سے معاہدہ کیا گیا، کیا اس سے ایسے پرتشدد گروہوں کو حوصلہ نہیں ملا کہ وہ بھی چند سو افراد لے کر اسلام آباد کے ایک اہم ترین انٹرسیکشن پر قبضہ کرلیں اور اپنے مطالبات منوا لیں؟ یہ راستہ بہت خطرناک ہے اور یہ پاکستان کو اندھیروں میں ہی دھکیلے گا۔ اس معاہدے نے ریاست کو مذاق بنا دیا حکومت کی بات تو چھوڑیں یہ سارا ڈرامہ دراصل اسے کمزور کرنے اور نون لیگ کے ووٹ بینک کو نقصان پہنچانے کیلئے تھا۔ 2013ء کے بعد جتنے بھی دھرنے ہوئے ان سب کا مقصد صرف اور صرف نون لیگ کو ہی کمزور کرنا تھا جو پھر بھی مقبول ترین جماعت ہی ہے۔ ایک طرف تو ہم آپریشن ردالفساد بڑی کامیابی سے چلا رہے ہیں اور دہشتگردوں کی کمر توڑ رہے ہیں تو دوسری طرف مذہبی جماعت سے معاہدہ کر رہے ہیں؟ یہ کہنا درست ہے کہ تحریک لبیک ان دہشتگردوں پر مشتمل نہیں ہے جن کیلئے ردالفساد شروع کیا گیا ہے مگر جو کچھ اس جماعت کے کارکنوں نے فیض آباد میں 22 دن تک کیا وہ کسی جرم سے کم تھا؟ جس طرح کی نفرت انگیز تقاریر تین ہفتے تک کی گئیںکیا وہ نیشنل ایکشن پلان کی کھلم کھلا خلاف ورزی نہیں تھی۔ ہمیں آنکھیں کھولنی چاہئیں، پہلے ہم کسی بڑی جماعت کو کمزور کرنے کیلئے ایسے گروہ کھڑے کرتے ہیں اور پھر جب یہ گروپ آپے سے باہر ہو جاتے ہیں تو ملک اور قوم کیلئے سانحہ ثابت ہوتے ہیں۔ ایم کیو ایم کی پیدائش اس کی ایک مناسب مثال ہے۔
پورے معاہدے میں وفاقی حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کیا گیا اور تحریک لبیک کے تمام مطالبات مان لئے گئے۔ حکومت پر مختلف اطراف سے دبائو ہی اتنا ڈال دیا گیا کہ اس کے پاس سوائے گھٹنے ٹیکنے کے کوئی چارہ نہ رہا۔ یہ معاہدہ ہماری تاریخ میں ہمیں ’’ہانٹ‘‘ کرتا رہے گا۔ ایک طرف تو معاہدے کے بعد کئی مظاہرین کو ایک ایک ہزار روپے ان کو اپنے گھر واپس جانے کے سفر کیلئے دیئے گئے جس کی قطعاً ضرورت نہیں تھی کیونکہ انہوں نے فورسز پر بہت ظلم کیا تھا تو دوسری طرف سو سے زیادہ پولیس اور ایف سی کے نوجوان جن کو آپریشن کے دوران تحریک لبیک کے کارکنوں نے ڈنڈوں اور اینٹوں سے مارا جو اسلام آباد اور راولپنڈی کے اسپتالوں میں بری حالت میں پڑے رہے اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ کیا وزیر داخلہ احسن اقبال کو نہیں چاہئے کہ وہ فوراً ان نوجوانوں سےجاکر ملیں، حوصلہ افزائی کریں اور انہیں مالی امداد بھی دیں۔ جب قانون نافذ کرنے والے اداروں کے نوجوانوں کے ساتھ ایسی بے رخی اختیار کی جائے گی تو وہ بھی آئندہ بد دلی سے ہی ایسے آپریشنز کریں گے۔ یقیناً جب ایسی فورسز بددل ہوتی ہیں تو ریاست کیلئے خطرناک ہوتا ہے۔

تازہ ترین