• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں پچھلے دو ہفتوں سے سندھ میں مختلف برادریوں خاص طور پر سندھی اور اردو بولنے والوں کے مستقل طور پر امن اور ہم آہنگی پیدا کرنے کے سلسلے میں کالم لکھ رہا ہوں، تقریباً سات آٹھ سال قبل سندھ کے کئی ممتاز اردو اور سندھی دانشوروں کی طرف سے اس ایشو پر ایک لمبے عرصے تک مذاکرات کرنے کے بعد اتفاق رائے سے ایک اعلان نامہ پر دستخط کئے گئے تھے مگر پتہ نہیں سندھ میں امن اور ہم آہنگی کے اس ’’اعلان نامہ‘‘ پر عملدرآمد نہیں ہوسکا، میں نے محسوس کیا کہ اگر پہلے نہیں تو اب اس اعلان نامہ پر سندھ میں لسانی اور نسلی ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے عملدرآمد کیا جائے لہٰذا میں نے پچھلے کالم میں اس اعلان نامہ کی صرف ’’تمہید‘‘ شامل کی تھی جبکہ باقی تفصیلات اس کالم میں پیش کررہا ہوں۔ امید ہے کہ سندھ کے دانشور، تعلیم دان اور دیگر سمجھدار لوگ اس اعلان کا پورا متن پڑھ کر اس بارے میں اپنی رائے سے آگاہ کریں گے، مجھے امید ہے کہ سندھ کے سارے امن پسند لوگوں کو یہ اعلان نامہ پسند آئے گا اور یہ بھی امید ہے کہ اجتماعی طور پر یہ خواہش ظاہر کی جائے گی کہ فوری طور پر اس اعلان نامہ کی روشنی میں اقدامات کرکے سندھ کے باسیوں کو ہمیشہ کے لئے پیار، محبت اور تحفظ کا ماحول فراہم کیا جائے گا، اس اعلان نامہ کی باقی تفصیلات مندرجہ ذیل ہیں-:
صوبائی خود مختاری 1940 ء کی قرارداد
سندھ میں اصل بحران کی جڑیں براہ راست اس امر میں تلاش کی جاسکتی ہیں کہ مخصوص مفادات رکھنے والے عناصر نے غیرمعمولی مرکزیت والی ریاست کی تشکیل کی خاطر قرارداد پاکستان کی خلاف ورزی کی اور دو قومی نظریے کے تصور، نظریہ پاکستان یہاں تک کہ اسلام کا بھی استحصال کیا۔ قرارداد پاکستان کا ذکر کرنا یہاں اس لئے ضروری ہے کہ یہ قرارداد آزادی کی جدوجہد کی قیادت کرنے والوں کی انسانی دانش اور سیاسی حقیقت پسندی کی مظہر اور آئینہ دار ہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ ہندوستان ایک کثیر القومی ریاست ہے جسے سامراجی چالوں نے ایک ملک کی شکل میں جوڑے رکھا ہے، انہوں نے پاکستان میں شامل ہونے والی اکائیوں کے لئے ’’خود مختاری‘‘ کے الفاظ کو تقدس کا درجہ دیا تھا تاکہ ان اکائیوں کو مستقبل میں نہ بدلنے والی اکثریتوں کی بالادستی سے تحفظ حاصل ہوسکے۔ تاہم تخلیق پاکستان کے بعد ہم نے اتحاد کے اصولوں اور قرارداد پاکستان کی مکمل نفی دیکھی اور مرکز نے بتدریج صوبوں کے حقوق غصب کرنا شروع کردیئے، نتیجتاً سندھ کے لوگوں کو اپنی مختلف النوع لسانی تشکیل کے باعث وعدوں کی نفی اور آئین سے انحراف کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی‘ اب یہ آسان ہوگیا ہے کہ لوگوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے سامنے صف آرا کرکے درپردہ حکومت کی جاسکے‘ اس عمل سے لوگوں کے درمیان تفریق مزید شدت اختیار کرتی جارہی ہے۔ اس اعتبار سے صوبائی خود مختاری کا سوال سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے تاکہ سندھ کے عوام کا کنٹرول ان امور پر یقینی بنایا جاسکے جو صوبے کے منتخب نمائندوں کے دائرہ کار میں آتے ہیں یا انہیں اس دائرہ کار میں آنا چاہئے۔ چنانچہ ہم تجویز کرتے ہیں : 1 مرکز کو صوبائی حکومتیں تحلیل کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہونا چاہئے یا موجودہ صورتحا کی طرح مقننہ کو ایگزیکٹو حکم کے ذریعے ختم کرنے کا حق نہیں ہونا چاہئے اگر ایسا کرنا ناگزیر ہو تو یہ عمل سینیٹ کی دو تہائی اکثریت کی منظور شدہ قرارداد کے ذریعے ہونا چاہئے۔ 2 صوبائی معاملات میں خود مختاری کو یقینی بنانے کے لئے صوبائی شعبوں کو ڈیل کرنے والی تمام مرکزی وزارتیں ختم کردی جائیں‘ مختلف صوبوں نیز صوبے اور مرکزی حکام کے درمیان رابطہ کے لئے صرف ایک رابطہ (کوآرڈنیشن) وزارت ہونی چاہئے۔ 3 صوبائی انتظامیہ ہر سطح پر صوبائی حکومت کے عہدیداروں کے ذریعے چلائی جائے اور بعض صوبائی عہدوں پر مرکز کی جانب سے عہدیداروں کے بھیجنے کا سلسلہ ختم کیا جائے، اس کے علاوہ صوبائی حکومتوں کے وہ سرکاری افسران جو کسی دوسرے صوبے سے تعلق رکھتے ہوں انہیں اپنے آبائی صوبے میں واپس بھیج دیا جائے یا مرکز انہیں خود جذب کرے۔4ہائی کورٹس، سپریم کورٹ، الیکشن کمیشن اور گورنرز کی تقرریاں سینیٹ کی منظوری سے عمل میں لائی جائیں۔ 5 آئین میں فیڈرل اور Concurrent Legislative Lists پر نظر ثانی کی جائے، ان میں سے ایسے شعبوں کو خارج کردیا جائے جو صوبائی مقننہ کے دائرہ کار میں آتے ہیں اور مرکز کے شعبوں کی قرارداد پاکستان کی روح کے مطابق صراحت کی جائے۔
آبادی کے توازن میں استحکام
سندھ کے عوام کو عظیم ترین خطرہ دوسرے صوبوں اور ملکوں سے مسلسل آنے والے لوگوں سے لاحق ہے جس کے باعث سندھ میں آبادی کا توازن تہہ و بالا ہورہا ہے، یہ سندھی عوام کا ناقابل تردید حق ہے کہ انہیں اپنے صوبے میں مستحکم اکثریت حاصل ہو، یہ جمہوریت کا عالمی طور پر تسلیم شدہ اصول ہے کہ کوئی بھی ثقافتی اقلیت کہیں تھی، چنانچہ سندھ میں بھی، خود کو اکثریت میں تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کرسکتی۔ ہم اس امر سے آگاہ ہیں کہ دوسرے صوبوں اور سرحد پار سے ہونے والی نقل مکانی پر غیرواضح اور مبہم پالیسی نیز اس موضوع پر لایعنی پیچیدہ اور کج رو بحث کی وجہ سے سندھ کو پہلے ہی بہت زیادہ نقصان پہنچ چکا ہے، پالیسی وضع کرنے والوں کی غیر ذمہ دارانہ روش نے پاکستان کو دنیا کا سب سے زیادہ کھلی سرحدوں والا ملک ہونے کی شہرت عطا کردی ہے، سینیٹ میں ایک حالیہ بحث کے مطابق صرف کراچی میں اس وقت 25 لاکھ غیر قانونی تارکین موجود ہیں، یہ ان کے علاوہ ہیں جو غیر قانونی ذرائع سے شناختی کارڈ اور دوسری دستاویزات حاصل کرکے انسانوں کے اس جنگل میں گم ہوچکے ہیں۔ سندھ میں غیر قانونی تارکین وطن کی آمد صوبے کی معیشت پر ایک بوجھ اور سماجی تانے بانے کے لئے شدید خطرہ ہے، چنانچہ ہم مندرجہ ذیل اقدامات کا مطالبہ کرتے ہیں:
(1) ملک کی کھلی سرحدیں فوری طور پر بند کی جائیں اور امیگریشن کے قوانین سختی سے نافذ کئے جائیں۔ (2) سندھ میں ناجائز طور پر آباد غیر ملکیوں کو گرفتار کرکے ملک بدر کیا جائے‘ وہ نہ صرف صوبے کے محدود وسائل پر بوجھ ہیں بلکہ ملک کی سلامتی کے لئے بھی خطرہ ہیں۔ (3) ڈومیسائل کے اجرا کے قوانین اور اصول زیادہ واضح اور بامعنی بنائے جائیں۔ (4) تمام پاکستانی باشندوں کا ایک اجتماعی کمپیوٹرائزڈ رجسٹر بنایا جائے جس میں ہر شہری کا صوبہ، تحصیل اور مستقل پتے کا اندراج ہو، پاکستانی باشندوں کے اس رجسٹر کی بنیاد پر مندرجہ ذیل دستاویزات کا اجرا ہو: قومی شناختی کارڈ، پاسپورٹ، ڈومیسائل، مستقل رہائش کا سرٹیفکیٹ، قومی، صوبائی اور مقامی ووٹرز کی لسٹ کی تشکیل، صوبائی دفتر روزگار میں نوکری کے متلاشی افراد کا اندراج مع ان افراد کے جو ذاتی کاروبار میں مشغول ہیں۔ (5) سندھ میں صرف نقل مکانی کے سدباب اور آبادی کے تناسب کو برقرار رکھنے کے لئے Statuatory Authority قائم کی جائے جو صوبائی دفتر روزگار کی بھی نگرانی کرے۔
(جاری ہے)

تازہ ترین