• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جس وقت یہ سطور تحریر کی جا رہی تھیں ، پشاور میں نظامت عمومی زراعت کی عمارت کے دہشت گردوں کے حملے اور سیکورٹی فورسز کے آپریشن کے مناظر ٹی وی چینلز پر دکھائے جا رہے تھے ۔ پوری قوم اعصاب شکن صورت حال سے دوچار تھی ۔ دہشت گردوں نے یہ حملہ اس دن کیا ، جب پوری دنیا میں جشن عید میلادالنبیﷺ منایاجا رہا تھا ۔ دہشت گردوں کے خلاف سیکورٹی فورسز کا آپریشن کامیاب رہا اور تادم تحریر تمام حملہ آور دہشت گرد مارے گئے ۔ عمارت میں موجود متعدد افراد جاں بحق اور زخمی بھی ہوئے ۔ شکر ہے کہ اس ڈرامے کا ڈراپ سین جلدی ہو گیا لیکن آئے دن اس طرح کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ ان واقعات کے درمیانی وقفہ میں کچھ اضافہ ہو گیا ہے لیکن یہ واقعات ختم نہیں ہوئے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دہشت گردی پر مکمل طور پر قابو نہیں پایا جا سکا ہے ۔
دہشت گردی کے خاتمے کے لئے جنوری 2015 ء میں نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا تھا ۔ آئندہ جنوری 2018 ء میں اس ایکشن پلان کے تین سال مکمل ہو جائیں گے ۔ تین سال قبل 16 دسمبر 2014 ء کو دہشت گردوں نے آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملہ کرکے معصوم بچوں سمیت 145 افراد کو شہید کر دیا تھا ۔ یہ دہشت گردی کا ایک ایسا ہولناک واقعہ تھا ، جس نے اس پاکستانی قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا ، جو گزشتہ تین عشروں سے لاشیں اٹھاتے اٹھاتے بے حس ہو چکی تھی ۔ آرمی پبلک اسکول کے واقعہ کے بعد پاکستان کی قومی سیاسی قیادت نے سیکورٹی اداروں کے ساتھ مل بیٹھ کر نیشنل ایکشن پلان کی منظوری دی تھی ۔ دہشت گردوں نے تین سال بعد یکم دسمبر 2017 ء کو پشاور میں ہی ایک تعلیمی ادارے پر دوبارہ حملہ کرکے یہ پیغام دے دیا کہ وہ ابھی تک کارروائیاں کر سکتے ہیں ۔ دہشت گردوں نے اس دسمبر کو بھی المناک بنا دیا ہے ۔ واضح رہے کہ نظامت عمومی زراعت پشاور میں زرعی یونیورسٹی اور طالب علموں کا ہاسٹل بھی ہے ۔ جنوری 2018 ء میں نیشنل ایکشن پلان کے تین سال مکمل ہو جائیں گے ۔ یہ ضروری ہو گیا ہے کہ ایکشن پلان کی کامیابیوں اور بعض اہداف حاصل نہ ہونے کا ازسر نو جائزہ لیا جائے اور اس امر پر لازماً غور کیا جائے کہ نیشنل ایکشن پلان وضع کرتے وقت دہشت گردی کے اصل اسباب کا پتہ چلایا گیا تھا یا نہیں ۔
پاکستان میں دہشت گردی کے اصل اسباب کیا ہیں ؟ اس سوال کا درست جواب حاصل نہیں کیا جا سکا کیونکہ اصل اسباب پر کھل کر بات نہیں کی گئی ۔ یہ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔ دہشت گردی کے معاملے پر ایکٹ ’’ بیانیہ ‘‘ رائج کر دیا گیا ہے اور اس بیانیہ سے ہٹ کر بات نہیں کی جا سکتی کیونکہ اس بیانیہ سے ہٹ کر بات کرنے کو پاکستان کے مفادات اور پاکستان کے دشمنوں کا بیانیہ قرار دیا جاتا ہے ۔ پاکستانی قوم ایک عجیب صورت حال سے دوچار ہے ۔
ان سطور میں بھی دہشت گردی کے اصل اسباب کا احاطہ نہیں کیا جا رہا ۔ صرف چند مغالطوں میں سے ایک مغالطے اور چند حقائق میں سے ایک حقیقت کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔ ایک مغالطہ یہ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کا آغاز اور فروغ امریکا میں ’’نائن الیون ‘‘ کے دہشت گردی کے ڈرامے کے بعد ہوا ہے اور ایک حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت نے دہشت گردی کے معاملے سے خود کو لاتعلق بنا دیا ہے۔
یہ تاثر ہمارے ملک میں مضبوط کر دیا گیا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کا آغاز اور فروغ امریکا میں نائن الیون کے واقعہ کے بعد ہوا ۔ یہ تاثر ایک ایسے مغالطہ کو جنم دیتا ہے ، جو دہشت گردی کے اصل اسباب تک نہیں پہنچنے دیتا ۔ پاکستان میں منظم دہشت گردی 1980 ء کے عشرے کی ابتدا میں ہی شروع ہو چکی تھی ۔ کراچی اس کا مرکز تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ دہشت گردی پورے ملک میں پھیلتی گئی ۔ 1980 ء کے عشرے سے پہلے اس طرح کی منظم دہشت گردی پاکستان میں نہیں تھی ۔ 1981-82 سے لے کر 1999 ء تک ( جب پرویز مشرف نے ایک جمہوری حکومت کا تختہ الٹا ) دہشت گردی کے ہزاروں واقعات رونما ہوئے ، جن میں ہزار ہا بے گناہ لوگ مارے گئے ۔ اس عرصے میں دہشت گرد ’’ نامعلوم ‘‘ تھے اور نائن الیون کے واقعہ نے ان نامعلوم دہشت گردوں کو ہمیشہ کے لیے نامعلوم بنا دیا ۔کراچی کے عوام 14 جولائی 1987 ء کی قیامت صغریٰ کو کبھی نہیں بھول سکتے ، جب صدر کے بوہری بازار میں بم دھماکا ہوا تھا اور 200 سے زائد بے گناہ افراد شہید اور 300 سے زائد زخمی ہو گئے تھے ۔ اسی سال 1987 ء میں درجنوں دیگر واقعات بھی ملک بھر میں ہوئے ۔ اسی طرح 9/11 سے پہلے ہر سال کے دہشت گردی کے درجنوں واقعات کی فہرست فراہم کی جا سکتی ہے ۔ غالباً 2010 ء میں ممتاز سیاسی دانشور پروفیسر عزیز الدین احمد کا ایک انگریزی روزنامے میں نائن الیون سے پہلے پاکستان میں دہشت گردی کے حوالے سے ایک فکر انگیز مضمون شائع ہوا تھا ۔ نائن الیون کے بعد نامعلوم دہشت گردوں کو ’’ چہرہ ‘‘ دے دیا گیا لیکن پاکستان میں اس وقت جو دہشت گردی ہو رہی ہے۔ وہ نائن الیون سے پہلے والی دہشت گردی کا تسلسل ہے۔ دہشت گردی کے اصل اسباب کو سمجھنے کے لئے اس مغالطے سے نکلنا ہو گا کہ پاکستان میں دہشت گردی کا آغاز نائن الیون کے بعد ہوا ہے ۔
آخر میں اس درد ناک حقیقت کی نشاندہی ضروری ہے کہ پاکستان کی سیاسی قوتوں نے دہشت گردی کے معاملے سے خود کو لاتعلق کر دیا ہے اور سب کچھ سیکورٹی فورسز پر چھوڑ دیا ہے ۔ دہشت گردی کے معاملے پر بات کرتے ہوئے ان کا بیانیہ بھی غیر حقیقی اور مصلحت پسندانہ ہے ۔ انہی کالموں میں بار بار لکھا جا چکا ہے کہ سیاسی قوتیں دہشت گردی کے حقیقی خاتمے کے لیے ’’ گہرے پانیوں ‘‘ میں اترنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ اس کے بھی مختلف اسباب ہیں ، جن پر پھر کبھی تفصیل سے بات ہو گی ۔ پاکستان کو دہشت گردی سے نجات دلانے کے لئے سیاسی قوتوں کو خود گہرے پانیوں میں اترنا ہو گا۔ اگرچہ بظاہر دہشت گردی کے واقعات کے درمیانی وقفے میں تھوڑا سا اضافہ ہوا ہے لیکن حالات پہلے سے زیادہ خطرناک ہو گئے ہیں ۔ ہم نے سوچا تھا کہ 16دسمبر 2014پھر نہ دہرایا جائے لیکن اس مرتبہ پھر دسمبر آیا ہے تو اس کا پہلا سورج ہی ہمارے بچوں کے خون سے طلوع ہوا ہے ۔

تازہ ترین