• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان یقینی طورپر ایک بڑے لیڈر ہیں۔ کرکٹ کی دنیا سے لے کر سیاسی میدان تک انہوں نے بے شمار فتوحات حاصل کی ہیں۔ ان کی اپنی زندگی لیکن ہمیشہ سے پراسرار رہی ہے۔ اسی پراسرار ہونےکی وجہ سے ان پر گاہے گاہے تنقید کے تیر برسائے جاتے ہیں۔ اسی حوالے سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اپنی زندگی میں ہونے والے عروج کے باعث اور پھر اپنی ذاتی زندگی میں اسی پراسراریت کے باعث حالات کچھ ایسے رہے ہیں کہ بے شمار لوگ انہیں فالو بھی کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کی بعض عادات کےباعث ان پر تنقید بھی کرتے ہیں۔
میرا تعلق چونکہ میڈیا سے ہے سو عمران کی زندگی میں ہونے والی تبدیلیاں مجھے بے حد متاثر کرتی رہی ہیں ان کا مذہب کی طرف بڑھتا ہوا رجحان بھی متاثر کن ہے اور میں ان کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کا خواہشمند رہا ہوں۔ اسی حوالے سے مجھے زندگی میں کئی بار ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ہے۔ اس تحریر میں، میں بغیر کسی تبصرے کے ان ملاقاتوں میں ہونے والے واقعات درج کر رہا ہوں۔ نتیجہ قارئین خود اخذ کرسکتے ہیں۔
میری عمران سے پہلی ملاقات 1984میں ہوئی۔ میں نے جنگ گروپ کا مشہور میگزین ’’میگ‘‘ 1983میں جائن کیا۔ اس وقت میں اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ اس ملک میں عوام کے پسندیدہ ہیرو تین ہی ہیں۔ وحید مراد، بھٹو صاحب اور عمران خان۔ یہ تینوں جہاں جاتے عوام والہانہ ان کےاستقبال کے لئے موجود ہوتے۔ میں بھی ایک جرنلسٹ ہونے کے ناطے عمران خان سے ملاقات کے لئے بے چین رہتا تھا۔ میں نے جنگ کے لئے عمران کا ایک انٹرویو کیا تو ہمارے ادارے کی خواتین نے مجھ پر پریشر ڈالنا شروع کیاکہ اب جب تم عمران کو جان چکے ہو تو اگلی ملاقات میں ہمیں بھی ساتھ لے جائو۔ میں نے عمران سے ملاقات کی درخواست کی تو اس نے مجھے قذافی اسٹیڈیم میں ملنے کو کہا۔ میں نےلڑکیوں کوبتایا تو وہ ملاقات کے دن صبح سے بیوٹی پارلر تیارہونے پہنچیں۔ خود تیار ہوکر جو وہ میرےساتھ ملیں تو ہمیں مقررہ وقت سے کچھ دیر ہوگئی۔ عمران اس وقت تک پریکٹس کرنے گرائونڈ میں جاچکا تھا۔ یہ بات سبھی جانتے تھے کہ ایک بار جب وہ پریکٹس شروع کردے تو پھر چار گھنٹے سےپہلے اس سے ملاقات ممکن نہیں۔ وہ کسی کی طرف توجہ نہیں دیتا تھا۔ خیر چار گھنٹے انتظارکے بعد جب وہ واپس آیا تو منہ ہاتھ دھوکرہمیںملنے آگیا۔ ہم گیلری کے باہر ایک بینچ پر اس کے منتظر تھے۔ وہ آتے ہی زمین پرٹیک لگاکر بیٹھ گیا۔ کچھ دیربات چیت کے بعدمیں نےلڑکیوں سےکہا کہ پوچھوکیاپوچھنا چاہتی ہو؟ ایک لڑکی نے جرأت کرتے ہوئے سوال کیاکہ آپ اتنی دیر پریکٹس کیوں کرتے ہیں؟ عمران نے لڑکی کی طرف دیکھا اور کہا کہ بیٹا! بات اصل میں یہ ہے کہ..... بیٹا کہنے پر تمام لڑکیاں پریشان ہو گئیں۔ عمران جونہی کسی کام سے اٹھ کر گیاایک لڑکی نے دوسری سے کہا، ہاں دیکھو نا اب یہ کتنا بوڑھالگ رہا ہے۔ وسیم اکرم کو دیکھو کتنا ڈیشنگ ہے۔
ایک روز ایک مقامی پنج ستارہ ہوٹل میں میری ملاقات ایشین بینک کی ایک بیرون ملک سے آئی ہوئی لڑکی سے ہوئی وہ بڑی خوبصورت لڑکی تھی۔ میرے ساتھ میر ےایک ساتھی رپورٹر بھی تھے۔ اسی دن رات کو ہمیں عمران خان سے ملنا تھا۔ اس ملاقات میں گفتگو کے دوران میرے ساتھی رپورٹر نے عمران کو بتایاکہ آج ہم ایک بڑی پیاری لڑکی کو ملے ہیں۔کسی یورپی ملک سے آئی ہے۔ اس نے ہمیں اپنا کارڈ بھی دیا ہے۔ وہی عمران جو پچھلی بار لڑکیوں کوڈانٹ رہا تھا اب اس نے بہت دلچسپی ظاہر کی۔ مجھے اس تضاد پر بہت حیرانی ہوئی۔
ایک ملاقات میری اس وقت ہوئی جب ویسٹ انڈیز کی ٹیم ویوین رچرڈز کی قیادت میں پاکستان کے دورے پر تھی۔ میں نے اس دورے میں رچرڈز کا انٹرویو بھی کیا۔ وہ بہت پراعتماد تھا کہ اپنی ٹیم کی ماضی میں زبردست کارکردگی اور پاکستانی ٹیم کی کمزوریوں کے باعث وہ آسانی سے پاکستان کو شکست دے دیںگے۔ میں نے اس انٹرویو کے بعد عمران سے انٹرویو کی درخواست کی۔ اس نے مجھے صبح سویرے بلا لیا۔ میں وقت مقررہ سے کچھ دیر پہلے اس کے گھر جا پہنچا۔ جلدی کی وجہ سے میں ناشتہ بھی نہیں کرسکا تھا۔ عمران اس وقت جوگنگ کے لئے گیا ہوا تھا۔ وہ کچھ دیر بعد ٹریک سوٹ میں ملبوس دودھ کا ایک بڑا گلاس ہاتھ میں لئے میرے سامنے آ بیٹھا۔ وہ مزے سے دودھ پیتا رہا اور میں اس انتظار میں رہا کہ جب اس کا ناشتہ آئے گا تو شاید میرےلئے بھی کچھ آ جائے مگر میرا انتظار انتظارہی رہا۔ ناشتے کے نام پر کچھ نہیں آیا۔ بعد کی کچھ ملاقاتوںمیں بھی یہی معلوم ہوا کہ عمران مہمانوں کو کچھ نہیں پوچھتا۔ اس ملاقات کے دوران عمران کے فون کی گھنٹی مسلسل بجتی رہی۔ اس کے جواب دینے کے انداز سے پتا چل گیا کہ تمام فون لڑکیوں کے تھے۔ وہ سخت لہجے میں انہیں ڈانتا رہا۔ میرے استفسار پرکہنے لگا کہ میں ہر چند دن کے بعد اپنا نمبر تبدیل کرا دیتا ہوں مگر بعض لڑکیاں میری جان کا عذاب بنی ہوئی ہیں۔
ایک ملاقات میں عمران نے بتایا کہ اس کی کار چوری ہوگئی ہے۔ اس روز اسے پریکٹس کے لئے جم خانہ جانا تھا۔ اس کے پاس سواری نہیں تھی۔ میں نے اسے پیشکش کی کہ میں اسے لے جاتا ہوں۔ عمران وہاں پہنچتے ہی پریکٹس میں مگن ہو گیا۔ پریکٹس کے بعد اس سے آٹوگراف لینے والوں کی قطاریں لگ گئیں۔ انہی میں سے ایک بچے نے انگریزی میںاس سے آٹوگراف کے لئے درخواست کی۔ عمران نے اسے اردو میں پوچھا تمہیں اردو نہیں آتی؟ اس بچے کے نہ میں سر ہلانے پر اس نے اس کی ماں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ خدا کے لئے اپنے اس کمپلیکس سے نکلو۔ اس بچے کو اردو سکھائو۔ہمارا بیڑہ غرق تو ایسے کالجوں اور اسکولوں نے کردیاجہاں اردو بولنے پر مار پڑتی تھی لیکن تم اس کا بیڑہ غرق نہ کرو۔

تازہ ترین