• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے کوئٹہ میں کی جانے والی تقریر ہم نے کابل میں سنی۔ جب نواز شریف نے شہباز شریف کی تعریف کی تو ایک افغان صحافی نے پوچھا کیا نواز شریف اپنے بھائی کو 2018ء میں وزیر اعظم بنانے پر تیار ہو جائیں گے؟ میرا جواب تھا ’’پتہ نہیں‘‘۔ ایک اور سوال پوچھا گیا کہ کیا آئندہ انتخابات تک نواز شریف کی جماعت ٹوٹنے سے بچ جائے گی؟ میرا جواب تھا ’’پتہ نہیں‘‘۔ افغان حکومت کے ایک اہلکار نے پوچھا کہ کیا 2018ء کے انتخابات مقررہ وقت پر ہو جائیں گے؟ میرا جواب تھا ’’پتہ نہیں‘‘۔ سوالات کی بھرمار سے بچنے کے لئے میں نے افغان دوستوں سے پوچھا کہ آپ کی پارلیمنٹ کے انتخابات 2016ء میں ہونے تھے لیکن نہ ہو سکے پھر اعلان کیا گیا کہ یہ انتخابات 2018ء میں ہوں گے کیا اگلے سال افغانستان میں انتخابات ہو جائیں گے؟ جواب ملا ’’پتہ نہیں‘‘۔
میں نے پوچھا کہ کیا افغانستان میں غیر یقینی صورتحال کی وجہ صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے اختلافات ہیں تو تمام افغان دوستوں نے مسکراتے چہروں کے ساتھ یک آواز ہو کر کہا ’’پتہ نہیں‘‘۔ پھر ہم سب نے ایک زوردار قہقہہ لگایا اور اس قہقہے میں چھپی اپنی اپنی بے بسی کو چھپاتے ہوئے کانفرنس ہال کی طرف چل دیئے۔ جرمن ادارے فرائیڈ رچ ایبرٹ سٹیفٹنگ (ایف ای ایس) کے زیر اہتمام پاکستان اور افغانستان کے صحافیوں کے ڈائیلاگ میں کچھ اہم افغان سیاستدان اور دانشور بھی شریک تھے۔
افغان دوست پشاور کی زرعی یونیورسٹی پر ہونے والے دہشت گرد حملے پر ہمارے ساتھ اظہار افسوس کر رہے تھے۔ چند ماہ قبل افغان صحافیوں کا وفد اسلام آباد آیا تو دونوں ممالک کے تعلقات میں کافی کشیدگی تھی۔ اب پاکستانی صحافی جوابی دورے کے لئے کابل میں موجود تھے۔ صورتحال بدستور کشیدہ تھی لیکن کشیدگی کی سطح میں کچھ کمی نظر آ رہی تھی۔ بظاہر پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور افغانستان ایک ایسا ملک ہے جہاں اصل طاقت غیرملکی حکمرانوں کے پاس ہے لیکن اس وقت دونوں ممالک غیر یقینی صورتحال اور انتشار کا شکار ہیں۔ دونوں ممالک کے سیاستدان اور ادارے آپس میں لڑ رہے ہیں اور اسی لئے موثر فیصلہ سازی سے محروم نظر آتے ہیں لیکن اچھی بات یہ محسوس ہوئی کہ اس مرتبہ کابل کی حکمران اشرافیہ اپنے غیرملکی آقائوں سے مایوس نظر آئی اور پاکستان کے ساتھ تنازعات طے کرنے کے لئے کسی راستے کی تلاش میں سنجیدہ دکھائی دی۔ اس دورے میں افغان حکومت کے اہم عہدیداروں سے ملاقاتوں میں پرانی باتیں سننے کو ملیں لیکن نیشنل سالیڈیریٹی موومنٹ کے سربراہ پیر سید اسحاق گیلانی نے کچھ نئی باتیں کیں۔ گیلانی صاحب نے افغانستان پر روسی قبضے کے بعد پاکستان کو ہجرت کی تھی اور 26سال تک پشاور میں مقیم رہے۔ 2002ء سے وہ افغانستان کی سیاست میں سرگرم ہیں اور پکتیکا سے افغان پارلیمنٹ کے رکن بھی منتخب ہو چکے ہیں۔
پیر سید اسحاق گیلانی نے کہا کہ افغانستان کی سرزمین پر غیرملکی فوجیں موجود ہیں لیکن پورا افغانستان غیرملکی فوجوں کے کنٹرول میں نہیں ہے البتہ افغانستان کی فضائوں پر امریکہ کا مکمل کنٹرول ہے۔ کوئی ہوائی جہاز اور ہیلی کاپٹر امریکہ کی مرضی کے خلاف افغانستان کی فضائوں میں پرواز نہیں کر سکتا لیکن عجیب بات ہے کہ افغانستان کے مختلف علاقوں میں ہیلی کاپٹروں کے ذریعہ داعش کو اسلحہ اور خوراک مہیا کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کھانے کی میز پر مجھے اور رحیم اللہ یوسفزئی کو بتایا کہ ان کے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ زابل میں داعش کے جنگجوئوں کو پراسرار ہیلی کاپٹروں کے ذریعہ امداد مل رہی ہے۔ یہ ہیلی کاپٹر پاکستان کی طرف سے نہیں آتے۔ میں نے پوچھا کہ پھر کہاں سے آتے ہیں؟ پیر سید اسحاق گیلانی نے اپنی ڈاڑھی کھجاتے ہوئے کہا کہ پتہ نہیں کہاں سے آتے ہیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ کچھ عرصہ پہلے تک پاکستانی علاقے تیراہ میں ایک مدرسہ چلایا جا رہا تھا جس میں زیادہ تر چیچن، تاجک، ازبک، کرغیز، قازق اور عرب طلبہ زیر تعلیم تھے۔ تیراہ میں پاکستانی فوج کے آپریشن کے بعد یہ مدرسہ ننگرہار آ گیا اور اب اس مدرسے کو کنڑ منتقل کر دیا گیا ہے۔ اس مدرسے کے طلبہ نہ پاکستانی ہیں نہ افغان، ان کے پاس وسائل کی کوئی کم نہیں، مرغی کا ایک انڈہ ایک ڈالر میں خریدتے ہیں تاکہ مقامی لوگ ان سے خوش رہیں جبکہ کابل میں ایک ڈالر کے چھ انڈے مل جاتے ہیں۔
پیر سید اسحاق گیلانی نے دعویٰ کیا کہ کچھ دن پہلے کوئٹہ میں ڈی آئی جی حامد شکیل صابر پر حملے کا منصوبہ بنانے والوں کو افغانستان میں پچاس ہزار ڈالر ادا کئے گئے۔ میں نے پوچھا کہ یہ ڈالر کس نے ادا کئے تو پیر صاحب نے کہا ’’انڈیا‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ضروری نہیں کہ افغانستان کے راستے سے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں ہمارے ادارے بھی ملوث ہوں لیکن غیر ملکی طاقتیں سب جانتی ہیں وہ چاہیں تو ان سازشوں کو روک سکتی ہیں۔ پیر سید اسحاق گیلانی کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کو ایک دوسرے پر الزامات لگانے اور ایک دوسرے کے خلاف لڑنے کی بجائے اپنے مشترکہ دشمنوں کے خلاف متحد ہو جانا چاہئے۔
افغان پارلیمنٹ کے ایک اور رکن میر ویس یاسینی بھی پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے حامی ہیں تاہم انہوں نے پیر سید اسحاق گیلانی کی کچھ باتوں سے اختلاف کیا۔ یاسینی صاحب کا تعلق جلال آباد سے ہے۔ 2004ء میں انہوں نے میرے ساتھ تورا بورا کا سفر کیا تھا۔ وہ بھی پیر سید اسحاق گیلانی کی طرح روسی فوج کے خلاف مزاحمت میں حصہ لے چکے ہیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ امریکہ داعش کی مدد نہیں کر رہا بلکہ امریکہ نے داعش کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔ میر ویس یاسینی کا دعویٰ تھا کہ افغانستان کے 34میں سے 16صوبوں میں داعش کافی مضبوط ہو چکی ہے۔ داعش اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان مل کر کام کر رہے ہیں اور پاک افغان سرحدی علاقے میں شیعہ سنی تنازع کی آگ بھڑکانے کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں پتہ ہے کہ افغانستان میں داعش، ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کہاں کہاں بیٹھی ہے لیکن شاید ہمارے پاس ان کے خلاف ہر جگہ ایکشن کرنے کی سکت نہیں لیکن آپ کو بھی تو پتہ ہے کہ افغانستان میں حملے کرنے والے پاکستان میں کہاں کہاں بیٹھے ہیں؟ آپ تو ایکشن کی پوری سکت رکھتے ہیں۔ آپ نے کچھ ایکشن کیا ہے لیکن ہم مزید ایکشن کی توقع رکھتے ہیں۔ ہمیں مل جل کر آگے بڑھنا ہے۔ گیلانی صاحب اور یاسینی صاحب میں کئی معاملات پر اختلاف تھا لیکن دونوں پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کے حامی ہیں۔
ہمیں یہ ماننا ہو گا کہ پاکستان اور افغانستان کے بہت سے مسائل کی وجہ غیرملکی مداخلت ہے۔ اگر 1961ء میں جنرل ایوب خان پشاور کے قریب بڈابیر میں امریکہ کو فوجی اڈہ نہ دیتا تو روس کی طرف سے افغانستان کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ کیا جاتا اور اگر نائن الیون کے بعد امریکہ کی طرف سے بھارت کو افغانستان کے راستے پاکستان میں مداخلت کا موقع نہ دیا جاتا تو اب تک پاک افغان تعلقات معمول پر آ چکے ہوتے۔ پاکستان اور افغانستان کو ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے تمام راستے بند کرنے ہوں گے اور مل کر ایک ایسی فضا بنانی ہو گی جس میں امریکہ جلداز جلد افغانستان سے واپس چلا جائے۔ جب تک امریکی فوج افغانستان میں موجود رہے گی اس خطے کے حالات میں بہتری کا کوئی امکان نہیں۔ میں نے افغان حکومت کی ایک اہم شخصیت سے آف دی ریکارڈ پوچھا کہ کیا افغانستان کے حالات میں بہتری کے بعد امریکہ آپ کے ملک سے واپس چلا جائے گا؟ اہم شخصیت نے بے بسی کے ساتھ کہا ’’پتہ نہیں‘‘۔ ہمیں اس پتہ نہیں کو مل کر ختم کرنا ہے۔

تازہ ترین