• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انیس سو سینتالیس سے لیکر آج تک اگر ہم اپنی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں کم از کم ایک بات پر ہمارے سارے حکمراں ایک صفحہ پر نظر آئیں گے کہ ہر بڑے واقعہ یا سانحے کے بعد سب یک زبان ہوکر کہتے ہیں کہ مٹی پاؤ اور آگے بڑھ جاؤ۔ مٹی پاؤ فارمولے کا آغاز قائد کی وفات سے ہی ہوگیا تھا جب کسی نے بھی اُن کی وفات کے حقائق جاننے کے بجائے حقیقت کو قائد کیساتھ ہی دفن کردیا تھا۔ ہمیں محترمہ فاطمہ جناح کی انتخابات میں شکست سے لیکر یحییٰ خان کے آرمی چیف بننے تک 1971کے سانحے سے لیکر سانحہ کارگل تک، اوجڑی کیمپ دھماکے سے سلالہ چیک پوسٹ پر حملے تک، میمو گیٹ سے ڈان لیکس تک، سرے محل سے پاناما لیکس تک، سپریم کورٹ پر حملے سے ڈوگر کورٹس تک، ریمنڈ ڈیوس سے ایبٹ آباد پر سی آئی اے کے حملے تک، ڈیرہ اسماعیل خان کی جیل ٹوٹنے سے آرمی پبلک اسکول کے سانحے تک، بارہ اکتوبر سے لیکر افتخار چوہدری کے قوم کو بیوقوف بنانے تک، ضیاء الحق کے دیئے گئے زخموں سے لیکر مشرف کے ذاتی فیصلوں تک، ایان علی سے ڈاکٹرعاصم تک، شرجیل میمن سے حامد سعید کاظمی تک، بے نظیر کی وصیت سے قطری خط تک، لیاقت علی خان سے بے نظیر کی شہادت تک مجیب الرحمٰن سے بانی ایم کیو ایم تک تک اور دوہزار چودہ اور دو ہزار سترہ کے دھرنوں کے پیچھے چھپی سازش تک کئی بار مٹی پاؤ کا عمل دہرا چکے ہیں۔ ہر بڑے واقعہ کے بعد ہم ان سنہری لفظوں سے آگے نہیں بڑھ پاتے کہ آہنی ہاتھوں سے نبٹا جائیگا، ہم زندہ قوم ہیں۔ کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائیگی، دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ جب قانون قارون کا تابع ہوجائے تو عوام الناس کے نصیب میں یہ ہی سب کچھ ہوتا ہے جو آج ہمارے نصیب میں ہے۔
امریکی سی آئی اے کے سابق اہلکار اور سابق امریکی صدور کے مشیر بروس ریڈل نے اپنے ایک آرٹیکل میں پاکستان میں موجودہ سیاسی صورتحال کا پس منظر بیان کیا ہے۔ بروس ریڈل اپنے تیس سالہ طویل کیریئر میں چار امریکی صدور کی ہندوستان، پاکستان اور مشرق وسطی کی صورتحال پر اپنی مشاورت کے ذریعے مدد کرتے رہے ہیں۔ چند ماہ قبل اخبارات میں بروس ریڈل کا پاکستان کی موجودہ صورتحال پر مضمون شائع ہونا اس لئے ایک بہت بڑی خبر کا درجہ رکھتا تھا کیونکہ بروس ریڈل کو پاکستان کی سیاست اور پاکستان کی نہ صرف خطے میں بلکہ دنیا میں اہمیت کے بارے میں اچھی طرح سے معلوم ہے۔ بروس ریڈل نے اپنے مضمون میں پاکستان میں موجودہ غیر مستحکم صورتحال پر شدید تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ کیونکہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے لہٰذا اس طرح کی غیر مستحکم صورتحال پوری دنیا کے لئے خطرہ بن سکتی ہےخصوصاً جب طالبان اور داعش منہ کھولے کھڑے ہوں اور پاکستان کی سرحدیں بھی جنگ جیسی صورتحال سے دوچار ہوں۔ ایسے وقت میں جب پاکستان چین کے ساتھ پچاس ارب ڈالر کے کاروباری سودے کرچکا ہو، اس طرح کی غیر مستحکم صورتحال معیشت کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے تباہ کن عوامل کا بھی باعث بن سکتی ہے۔ بروس ریڈل کا سب سے زیادہ حیران کن تجزیہ یہ تھا کہ کیوں کہ پاکستان نے یمن سعودی عرب جنگ میں اور قطر کے ساتھ سعودی اختلافات میں سعودی عرب کا ساتھ دینے کے بجائے غیرجانبدار رہنے کو ترجیع دی اور یہ بات نواز شریف کے دیرینہ دوستوں کو اچھی نہیں لگی اور شاید یہ ہی وجہ ہے کہ نواز شریف تنہا رہ گئے ہیں۔ حال ہی میں اسلام آباد میں جو کھیل کھیلا گیا اگر ہم اس کی تفصیل میں جائیں تو ہمیں اندازہ ہوگا جس طرح گزشتہ انتخابات کے بعد ایک سیاسی جماعت کے ذریعے پاکستان کے ہر سیاست دان کی بے توقیری کی گئ اور انھیں طرح طرح کے القابات سے نوازا گیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے اُن کی شان میں ایسے ایسے القابات بیان کئے گئے کہ جنہیں سُن کر ایک عزت دار آدمی بھی شرما جائےاب وہ ہی کام علمائے دین کے لئے کیا جارہا ہے اور ایک دفعہ پھر سوشل میڈیا کو ہی ہتھیار بناکر استعمال کیا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا کی لامتناہی ریاست کے طول وعرض پر پہلے لاکھوں مختلف سوچوں کی یہ فصلیں کہیں نفرت کے ایسے کانٹیں پروان چڑھارہی ہیں کہ جو ایک دن ہم سب کو ایسا زخمی کریں گی کہ اُن زخموں سے رسنے والا خون ایک ایسے سمندر میں بدل جائے گا جس میں بڑے بڑے ٹائٹینک ڈوب جائیں گے اور ہم جب تک اس کا احساس کرپائیں گے دنیا ہمارے ہاتھوں سے نکل چُکی ہوگی ۔ ہمارا دشمن ایک دفعہ پھر ہمیں آپس میں لڑا کر ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بناکر ہمارے ملک ،ہمارے شہروں ،ہمارے محلوں اورہمارے گلی کوچوں کو خون میں نہلانے کا خواب دیکھ رہا ہے وہ ہم سب کے نزدیک ہوکر ہم سب کو ایک دوسرے کے خلاف ایک ایسے غیض وغضب میں لارہا ہے کہ جس کا خراج یا تو ہم جان دے کر لیں گے یا لے کر۔ میں اگر واقعی سچا مسلمان ہوں تو مجھے تو رسول خدا ؐ کی تعلیمات کے مطابق سب سے پہلے یہ پتا ہونا چاہئے کہ میرا پڑوسی خیریت سے ہے بیمار یا بھوکا تو نہیں مجبور یا لاچار تو نہیں مگر بدقسمتی یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ ہم اپنے ارد گرد رہنے والوں کی رسول اللہؐ کی تعلیمات کے مطابق داد رسی کریں ہم تو ایسے راستے پر آگے بڑھ رہے ہیں جو پڑوسیوں کے ساتھ ساتھ ایک دن ہمیں بھی برباد کردے گا اور یہ سب ہم اپنے زمینی خداؤں کو خوش کرنے کے لئے کررہے ہیں سوچیں کیا منہ دکھائیں گے آپ احمدِ مرسل ؐ کو روز قیامت کے یہ کیا ہے ہم نے اُنکی اُمت کے ساتھ کہ مسلک کی بنیاد پر کسی کوصرف اس لئے نفرت کا نشانہ بنایا کہ ہمارے زمینی خدا اُن سے خوش نہیں تھے ۔ ہوسکتا ہے خدانخواستہ خلیجی ملکوں کا اختلاف بڑھتا ہی چلا جائے اور ایک وہشت ناک صورت اختیار کرلے میں صرف یہ پوچھتا ہوں کہ ایسے موقعے پر اس آگ پر ہمیں تیل کا کام کرنا چاہئے یا پانی کا اپنی صفوں میں اتحاد رکھنا ہے یا ایک دفعہ پھر دوسروں کی جنگ میں اپنے آپ کو جھونکنا اور پھر چند سالوں بعد دوبارہ سر پکڑ کر رونا کہ ہم نے ایسا کیوں کیا۔ کیا افغانستان کی جنگ میں جھلسنے کے بعد ابھی تک ہمیں ہوش نہیں آیا کہ آج تک اُن زخموں سے خون رس رہا ہےاور ایک ناسور بن چکا ہے جس کا علاج صرف دوستی اور اخوت کے ڈاکٹر کے پاس ہے، مذہب وملت کے ٹھیکیداروں کے پاس نہیں یاد رکھیں یہ ٹھیکیدار جو بظاہر آپ کے طرف دار بن کر سامنے آتے ہیں ان کو صرف اپنے ایجنڈے سے مطلب ہے سچے مذہب کی تبلیغ ان کا مشن نہیں۔ ہوسکتا ہے کچھ دوستوں کو مجھ سے شدید اختلاف ہو مگر میں اپنے عام عوام سے مخاطب ہوں جس کو کبھی مذہب کے نام پر کبھی زبان کے نام پر اور کبھی غیرت کے نام پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ کیا آپ دوبارہ بھی استعمال ہونا چاہتے ہیں ؟ کیا آپ اپنے بچوں کو خدانخواستہ اسکول کے سفید یونیفارم کے بجائےسفید کفن میں دیکھنا چاہتے ہیں کیا اُن کے ہاتھوں میں کتابوں کے بجائے وقت کے ان نام نہاد رہبروں کے پرچم دیکھنا چاہتے ہیں ؟ میں اپنے اُن عام دوستوں سے مخاطب ہوں جو صبح گھر سے رزق کی تلاش میں نکلتے ہیں تاکہ اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھر سکیں اُن میں سے کسی کے بھی ماتھے پر اُسکی قوم یا مسلک نہیں لکھا ہوتا کوئی بھی کاروبار قومیت یا مذہب کا حوالہ دیکر نہیں کیا جاتا صرف اس لئے کہ دستور دنیا یہ ہی ہے تو پھر کیوں اپنے گھروں کو ان بنیادوں پر آگ لگانے کی تیاری کررہے ہیں کہ جس میں ہمارے بچے بھی جل جائیں اور نسلیں بھی۔ ہمیں اپنے اتحاد کو برقرار رکھنے کے لئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے بس سوشل میڈیا اور گلی کوچوں میں محبت اور رواداری کو آگے بڑھانا ہے اور اس کے بیچ میں آنے والے ہر بہروپیے کو فوراً باہر نکال کر پھینکنا ہے۔ ایک دن ہم سب کو مرنا ہے کیوں نہ جی کر مریں اور لوگوں کے چہروں پر خوشیاں بکھیرنا ہی جینے کی علامت ہے آنسو تو جنازوں پر ہوتے ہیں۔

تازہ ترین