• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ایک بہادر آدمی ، ہاشمی! ہاشمی!‘‘،1971میں ملک کے طول و عرض میں نوجوانوں کی نوکِ زبان پر، آنے والے دنوں میں ملکی تاریخ کا مقبول ترین طالب علم رہنما ، وطنی سیاست پر چھایا رہا۔ اہم مشکل، دشوار، تکلیف دہ موضوعات کا انبوہ، حسبِ معمول سامنے،دعویٰ ایسی ابتری، مشکلات، دشواریوں کی فراوانی، بہتات ،کبھی نہ تھی۔ اعصاب شکن، جسم و دماغ شل، یا اللہ ایسا تکلیف دہ اظہار و انجام،عمر کے اس حصے کا مقدر کیوں بنا؟باہمی تصادم، جھوٹ ، مکر ، فریب، معاشرتی چلن، طورطریقہ کیوںاور کیسے نصیب بنا؟ وطنی نصیبوں پر پتھرائو کیوں؟ امت مسلمہ رہزنوں کے نرغے میں گھر چکی۔ ’’نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کا شغر‘‘، خونچکاں داستان رقم ہو رہی ہے۔ ایسا بگاڑ؟، الامان الحفیظ!۔ شام، کوریا اور پاکستان تین مقامات ایسے جہاں درجہ حرارت اتنا اونچا کہ شاید پانی آناً فاناً آبی بخارات بننے کو۔ عزیز ہم وطنو! کہیں کسی سطح پر تشویش یا فکر و فاقہ کی کوئی لہر بھی دیکھی؟
سب جہاں مست، اختیارات، اقتدار، مفادات کے توسیع و حصول کی جنگ میں غرق، گھمسان کا رن پڑ چکا ہے۔ ملکی سا لمیت دائو پر، وطن کی فکر کون کرے گا؟ امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس کا دورہ وطنی قیادت کے چودہ طبق روشن کر چکا ہے۔ جیمز میٹس کے ماضی قریب کے بیانات اور CIAچیف کا چند دن پہلے کا بیان ہی بیانیہ رہنا تھا ۔ ڈومور کی بجائے ڈوڈبل یعنی،’’ کوششوں کو دگنا کرو اور رپورٹ دو‘‘۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ نے ارتعاش بڑھا رکھاہے۔ کتنی دفعہ لکھوں امریکہ راہداری منصوبہ کو سبوتاژ کرنے کیلئے ہر انتہا چھوئے گا۔جبکہ چین نے ہر صورت اس منصوبہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے کہ چین کی سیاست، اقتصادیات، تزویراتی تحفظ منصوبے سے منسلک ہے۔ عین اس وقت غیر ضروری جنگ نواز شریف کو صفحہ ہستی سے مٹانا،ہر انتہا کو چھوچکا ہے۔نواز شریف بھی خم ٹھونکے بہت کچھ زیروزبر کرنے پر تل چکے ہیں۔
ایسے میں مخدوم جاوید ہاشمی کا ایکٹو ہونا، نعمت خداوندی سمجھیں۔آواز اتنی توانا نہیںرہی، جو ماضی میں تھی،یقین دلاتا ہوں،اپنا اثر جمائے گی۔پرسوں اسلام آباد میںکتاب رونمائی کی تقریب ہوئی۔2006/7میں جاوید ہاشمی نے اپنے روزنامچے کوـ"زندہ تاریخ" ،رقم کر کے تاریخ حوالے کرنے کی تقریب برپا کی۔ خیرہ کن داستان، ہزاروںبر محل شخصیات کا ذکر، بغیر لفظ چبائے تعریف بھی اور تنقید بھی کہ ایسے معاملات میں ساری زندگی بخل نہیں دکھایا۔ درجنوں بین الاقوامی شخصیتوں کا احاطہ اور اتنی ہی کتابوں کا تذکرہ بمع تبصرہ کر ڈالا۔ سینکڑوں واقعات ، قصے ، کہانیاں، بہ طرز حکایت سعدی رقم کئے۔ ادب ، سیاست، مذہب، تصوف، فلسفہ، معاشرت، کھیل کود، بمع اداروں کی شکست و ریخت کی کہانیاں، سیاستدانوں کی ریشہ دوانیاں۔ سنجیدہ موضوعات، ہلکے پھلکے قصص درویشاں، 3/4سو دنوں پر محیط ہزار داستان ہی سمجھیں۔
اگلے دن کتاب نے موضوع بننا تھا، مخدوم صاحب خود موضوع بن گئے۔ نواز شریف سے ملاقات، مسلم لیگ میںممکنہ واپسی بریکنگ نیوز تھی۔ شام کے ٹاک شو ، تجزیاتی پروگراموں کا مرکزرہے۔ ہاشمی صاحب کی زندگی کے کچھ اہم فیصلوں میں، قرب رہا۔ ہم بھی اکثرموجود تھے ،ہم بھی سب ’’دیکھا‘‘کئے ۔عرصہ سے خواہش کہ جاوید ہاشمی عمران کا دست و بازو بنے۔ پابند سلاسل ہاشمی بحیثیت صدر مسلم لیگ بھرپور رول ادا کر رہے تھے، تحریک انصاف کے پاس کچھ بھی نہیں تھا جو اتنی بڑی قیادت کے لئے مقامِ کشش بنتا۔ 2010میں جان آئی ۔عمران خان نے پشاور میں دور وزہ دھرنا پلان کیا۔ دبی خواہش کے ساتھ جہاں دھرنے میں حاضری کو یقینی بنایا،راستے میںشمولیت کی دعوت دے ڈالی۔ معلوم تھا کہ نواز شریف نئی طاقت پکڑ چکے ہیں۔جملہ معترضہ2009 میں عمران خان سنجیدگی سے نواز شریف کے پہلو میں بیٹھنے کی جگہ ڈھونڈ رہے تھے۔ جاوید ہاشمی مزید اپنارول نہیں دیکھتے تھے کہ جنگجو سیاستدان ، حالتِ امن اور ایوان اقتدار میں مس فٹ ہے۔ نظریاتی شعور، حق گوئی، بے باکی، باغیانہ سوچ، وطنِ عزیز سے غیر مشروط انمٹ محبت، نے طبیعت میں ہیجان برپا رکھا۔ اسمبلی اندر باہر، جلسے جلسوں میں نواز شریف کی موجودگی غیر موجودگی، آڑے ہاتھوں لینے سے کبھی اجتناب نہ کیا ۔پشاور جلسے پر جب آمادہ کیا، تو ساتھ ہی گزارش درج ،مسلم لیگ میں حالات نامساعد و ناموافق، عمران خان کا ظہورہو چکا ،بالآخر نصف نہار تک پہنچنا ہے، تحریک انصاف کا حصہ بن جائیں ۔جاوید ہاشمی کی ثابت قدمی دیدنی،’’حفیظ اللہ خان، میری بہت ساری خواہشات منطقی انجام کوپہنچ چکیں۔ آخری خواہش کہ کفن اوپر مسلم لیگ اور پاکستان کا جھنڈا ہو، عملی سیاست شروع مسلم لیگ سے کی، اختتام مسلم لیگ سے وابستہ رہے گا‘‘۔ قسمت کے کھیل، دل سے نکلی دعا آج قبولیت کے قریب ہے۔
میرا عزم بالجزم غیر متزلزل، بالآخر قائل کرنے میں کامیاب ہوا۔ جاوید ہاشمی کو نظریاتی پاکستان کے سہانے خواب اور حسین لوریاں سناتے 24دسمبر 2011کراچی میںجلسہ سے ایک دن پہلے قافلہ تحریک انصاف شامل کا حصہ بنا ڈالا۔تحریک انصاف کو پلک جھپکتے چار چاند لگ گئے۔ کراچی میں خطاب کیا’’ میں باغی ہوں، میری تنقیدبرداشت کرنا ہو گی، گوبعد ازاں انصافی سفر میں ہمیشہ محتاط رویہ رکھاـ‘‘۔تحریک انصاف میں جاوید ہاشمی پر کیا بیتی،تکلیف دہ کہانی ، تفصیل ضرور لکھوں گا کہ سیاست کا ہر طالب علم جاننا چاہتا ہے ۔تسلسل سے اپنی پارٹی قیادت پر تنقیدکی،داد دینا ہو گی۔خبر لیک ہوئی تو خواجہ سعد رفیق کے گھر پر جاوید ہاشمی کو گھیر لیا گیا،مسلم لیگ کو نہ چھوڑنے پر اصرار ہوا، شریف خاندان کی عورتوں نے منت ترلے کئے منانے کی تمام کوششیں بیکار رہیںکہ ہاشمی وعدہ کر چکے تھے۔ کراچی عمران خان کے ساتھ، لمحہ بہ لمحہ لاہور کی رپورٹ لے رہے تھے۔ عمران کا خیال کہ جذباتی بلیک میلنگ آڑے آئے گی۔عمران کی فرسٹریشن دیدنی، اپنے آپ کو اور مجھے بار بار کوسا جا رہاتھا ، ’’خواہ مخواہ تم نے امید دلا دی‘‘، میرا جواب اتنا، جس جاوید ہاشمی کو میں جانتا ہوں، اسکے فیصلے اٹل، فیصلے کا بھرم رکھے گا ۔ جب اگلے دن، جاوید ہاشمی اپنی سابقہ قیادت، ساتھیوں، کارکنوں کو روتا،بلکتا چھوڑ تا پچھاڑتا کراچی پہنچ گیا۔ ائیر پورٹ پر عمران خان کے ساتھ استقبال کے لئے سیکورٹی لائونج میں موجود ،میرا اللہ گواہ عمران خان کو زندگی میں اتنا جذباتی اور خوش کسی اور موقع پر نہیںدیکھا۔ حیف، روز اول 25دسمبر2011سے یکم ستمبر 2014 تک، جاوید ہاشمی پر تحریک انصاف میں جو بیتی ناقابل بیان ، یادکر کے شرمندگی اور ندامت سے سر جھک جاتا ہے۔ احساسِ جرم ہلکان رکھتا ہے کہ ذمہ دارہوں۔ یقین دلاتا ہوں، ساری صعوبتوں ، مصیبتوں، ریشہ دوانیوں کے باوجود ،جاوید ہاشمی تحریک انصاف نہ چھوڑتے اگر عمران خان 2014میں نادیدہ قوتوں کے اشارے پر ریاست کی چولیں ہلانے کا عزم صمیم نہ دکھاتے۔
عمران خان کا امپائروں سے گٹھ جوڑ اور جمہوریت کی بیخ کنی اور انارکی پھیلانے میں فرنٹ لائن مہرہ بننا، جاوید ہاشمی جیسے نظریاتی ، سیاسی لیڈر کی طبیعت سے کسی طور لگا نہیں رکھتا تھا۔ پاکستان تباہی کی دہلیزپر، جاوید ہاشمی بالآخر جان گئے کہ سازشوں کو بے نقاب کرنا ضروری ہے۔ 31اگست2014 کو میڈیا سامنے سرسری بیان دیاکہ ’’تحریک انصاف کے تمام اکابرین کا متفقہ فیصلہ کہ ہم پارلیمان،ٹی وی اوروزیر اعظم ہائوس پر چڑھائی نہیں کریں گے عمران خان نے نادیدہ اشارہ پرپارٹی فیصلہ بدل دیا‘‘۔ اتنا کہنے پر عمران خان جو ساتویں آسمان پر براجمان تھے، چند گھنٹے بعدکنٹینر سے گویا ہوئے ’’ہاشمی! آج سے تمہاری اور ہماری راہیں جدا ہیں‘‘، جاوید ہاشمی کی خوابیدہ حمیت کو جگانے کے لئے اتنا کافی تھا۔ جاوید ہاشمی جو پلہ نہیں پکڑائی دے رہا تھا۔ کسی طور تفصیلی پریس کانفرنس کے حق میں نہ تھا۔ میں نے جا لیا، خواجہ سعد رفیق بھی پہنچ گئے۔ تاریخی میٹنگ صبح تڑکے 4بجے ختم ہوئی۔ تفصیلات کسی اور موقع پر، اگلے دن جاوید ہاشمی
نے پریس کانفرنس میںاداراتی تدبیروںکو الٹ پلٹ دیا۔ تاریخی پریس کانفرنس گیم چینجر بنی۔ اگلے دنوں کے پلان کو خس و خاشاک بنا گئی۔ دلچسپ پہلو اتنا، جب مسلم لیگ چھوڑی تو دم رخصت مسلم لیگی قائدین،شریف فیملی اور کارکنا ن کی آہ و بکا، منتیں ترلے ہر دل پسیج گیا سوائے جاوید ہاشمی کے، ارادے کبھی متزلزل نہ ہوئے۔دوسری طرف، عمران خان سے دو حرفی اختلاف ہوا توعمران خان سجدہ شکربجا لائے، ـ"ہاشمی ! آج سے ہمارے تمہارے راستے جدا ہو چکے" ۔نتیجتاً تحریک انصاف کے قائدین ، لواحقین، متعلقین، متاثرین جاوید ہاشمی کو آج تک گالیوں سے نواز رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پرہرزہ سرائی دیدنی ہے۔ یہی فرق ہے، پاکستانی روایات بالمقابلہ فاشسٹ، بے ہودہ کلچر میں۔
آج پھر مملکت سنگین بحران کا شکار، 2014سے بدتر حالات میں ہے۔نواز شریف کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی تگ و دوجاری ہے۔ سنجیدہ بات اتنی کہ شریف خاندان کے" عبرتناک انجام" بننے سے پہلے مملکت کا وجود خاکم بدہن عدم وجود ہو سکتا ہے۔امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس یہی جائزہ لینے آیا کہ تدبیریں کتنی کارگرہیں؟
نڈرجاوید ہاشمی کا ایکٹو ہونا انتہائی ضروری تھا۔ ریاستی اداروں کی چیرہ دستیوں کے خلاف نبردآزمائی ہر ایرے غیرے کے بس کی بات نہیں۔ہاشمی ! آپ جنگجو سیاستدان ہو ، حالاتِ امن میںشاید ضرورت نہ ہو، حالت جنگ میں آپکا کودنا، باعمل رہنا ضروری تھا۔ جتنی سیاسی جماعتیں بشمول مسلم لیگ (ن) اڑتے پنچھیوں کی آماجگاہ ہیں۔برے وقت میں فوٹو سیشن میںموجود سب نے اپنے اپنے قائدین کو چھوڑ کر اُڑ جانا ہے۔ وگرنہ جہانگیر ترین، علیم خان، فواز چوہدری وغیرہ آج جنرل مشرف کے ساتھ کھڑے نظر آتے۔
مجھے نواز شریف سے زیادہ پاکستان سے غرض ہے۔ عاقبت نا اندیش، نواز شریف کو ختم کرنے کے چکر میں وطنی سا لمیت آڑے ہاتھوں لے چکے ہیں۔ ایک بہادر آدمی، جو ذہنی ،جسمانی تشدد برداشت کرنے کا لامتناہی تجربہ رکھتا ہے،جناب کی موجودگی حوصلہ دے گی۔جان تو آنی جانی ہے، آپ نے لڑ کر مرنا ہے اوراگر واقعہ ہو گیا توآپ" زندہ تاریخ" امر کر جائیں گے۔’’ہاشمی ایک زندہ تاریخ ہی‘‘،ہمیشہ کے لئے تاریخ میں نام بنا جائے گا۔کیا ایک بے خوف و خطر بہادر آدمی تاریخ میںاپنا نام لکھوانے کو؟
کہنے لگے کہ ہم کو تباہی کا غم نہیں
میں نے کہا کہ وجہ تباہی یہی تو ہے
ہم لوگ ہیں عذاب الہٰی سے بے خبر
اے بے خبر! عذاب الہٰی یہی تو ہے
(رئیس امروہوی)

تازہ ترین