• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے کالم میں اور اس سے پہلے بہت سے کالموں میں ہم دلیل پیش کرتے رہے ہیں کہ کسی بھی مذہبی عقیدے کا انتہا پسندی سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔ یا یوں کہئے کہ ہر مذہب میں انتہا پسند پیدا ہو سکتے ہیں۔ ہماری دلیل اس حقیقت پر مبنی ہے کہ اس وقت برصغیر میں مسلمانوں، ہندوئوں اور بدھوں میں ایک جیسی انتہا پسندی غالب ہے۔ پاکستان کے اندر یہی بات مسلمان فرقوں کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔ کچھ دیر پہلے تک یہ تاثر غالب تھا کہ انتہا پسندی دیوبندی مکتب فکر کے پیروکاروں میں پائی جاتی ہے اور صوفیا کو ماننے والے بریلوی فرقے کے لوگوں کا سیاست اور انتہا پسندی سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ لیکن اب جو کچھ اسلام آباد کے دھرنے میں ہوا اس سے یہ ثابت ہو گیا کہ بریلوی فرقے میں بھی سیاسی اقتدار کیلئے متشدد رجحانات جنم لے سکتے ہیں۔ اب پاکستان میں کوئی قابل ذکر فرقہ باقی نہیں رہا جس کے بارے میں یہ کہا جا سکے کہ وہ انتہاپسندی سے مبرا ہے۔
مذکورہ فرقے کے بارے میں غلط فہمی کی کئی وجوہات تھیں۔ سب سے اہم تو یہ تھی کہ اس فرقے کے بہت سے رہنما ملک کی حکمراں پارٹیوں میں شامل رہے ہیں اور انہوں نے اپنے فرقے کی بنا پر علیحدہ صف بندی نہیں کی۔ پاکستان کی اسمبلیوں میں پیروں، سجادہ نشینوں اور سید زادوں کی بہتات ہے۔ بلکہ یہ کہا جاتا ہے کہ آبادی کے تناسب سے سب سے زیادہ سید زادے اسمبلیوں کے ممبر ہیں۔ اب جب پاکستانی ریاست شکست و ریخت کا شکار نظر آتی ہے تو نظریاتی خلا کو مذہبی فرقہ پرستی سے پر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ پاکستان میں مذہبی جماعتیں دیو بندی یا دوسرے غیر بریلوی مکاتب فکر سے تعلق رکھتی ہیں۔ ستر کی دہائی میں مولانا شاہ احمد نورانی کی جمعیت علمائے پاکستان واحد جماعت تھی جو بریلوی مکتب فکر کی نمائندگی کرتی تھی۔ وقت کے ساتھ یہ سیاسی جماعت زوال پذیر ہو گئی اور بریلوی ووٹ مسلم لیگ (ن) اور دوسری جماعتوں کی طرف منتقل ہو گیا۔ اب چونکہ نظریاتی خلا خوفناک حد تک گہرا ہو چکا ہے اس لئے پاکستانی مسلمانوں کے اکثریتی بریلوی فرقے کے پیروکاروں نے اسے براہ راست پر کرنے کی جدو جہد تیز کردی ہے۔ غالباً بریلوی مکتب فکر کے علمااور رہنماؤں میں یہ احساس پیدا ہو گیا ہے کہ اگرریاست کا نظریہ عقیدہ پرستی پر مبنی ہونا ہے تو ریاستی اقتدار میں ان کو سب سے زیادہ حصہ ملنا چاہئے کیونکہ عوام کی اکثریت ان کی ہم عقیدہ ہے۔
ایک بہت بڑی غلط فہمی یہ بھی تھی کہ چونکہ صوفیا خود ریاستی امور سے الگ تھلگ زندگی گزارتے تھے اس لئے ان کے ماننے والے بھی ان کی تقلید میں سیاسی طاقت کے طلبگار نہیں ہیں۔ یہ تاثر حقیقت کے برخلاف ہے کیونکہ مختلف سجادہ نشین اور پیر گدیوں کے حامل خاندان ملک کے حکمراں طبقے میں ہمیشہ سے شامل رہے ہیں ۔ تاریخی طور پر بھی چشتیہ اور قادری فرقے کے بزرگ ہی ایک عرصے تک کاروبار ریاست سے دور رہے اور صوفیا کے باقی فرقے بادشاہوں اور سلاطین کی خدمات بجا لاتے رہے۔ البتہ چشتیہ مکتب فکر کے اولین رہبران نے حاکمان وقت سے لا تعلق رہنے کے فلسفے پر سختی سے عمل کیا۔ چشتیہ مکتب فکر کے تیسرے رہبر با با فریدمسعود شکر گنج کبھی بھی کسی حاکم کے سامنے نہ پیش ہوئے اور نہ ہی کسی سیاسی حاکم کو اپنی درگاہ میں آنے کی اجازت دی۔ یہ ایک تاریخی واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ تغلق بادشاہوں میں سے ایک اپنی فوج کے ہمراہ پاکپتن سے گزر رہا تھا ۔ اس نے اور اس کے امیروں نے بابا فرید کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت طلب کی تو ان کو منع کردیا گیا۔ چونکہ عام فوجی بھی بابا فرید کی قدم بوسی کے شدید طلبگار تھے اس لئے بابا فرید کے کرتے کی آستین کو باہر دیوار سے لٹکادیا گیا۔ پاکپتن کا قاضی اور صوبیدار بھی بابا فرید کے سخت دشمن تھے۔ بلکہ کہا جاتا ہے کہ اس مخاصمت کی انتہا یہ تھی کہ ان کے سب سے چھوٹے بیٹے کو شہید کردیا گیا۔ بابا فرید نے ملا شاہی کے ہاتھوں بہت سے دکھ اٹھائے اور حاکمان وقت سے کسی طرح کا تعلق قائم نہیں کیا۔ ان کے خلیفہ خواجہ نظام الدین اولیاء نے بھی کسی بادشاہ سے کبھی ملاقات نہیں کی۔ بلکہ ایک مرتبہ جب ایک بادشاہ نے زبردستی درگاہ میں آنے کا عندیہ دیا تو آپ نے اسے رد کردیا۔ وہ بادشاہ ایک حادثے میں ہلاک ہو گیا اور خواجہ نظام الدین اولیاء کی درگاہ پر کسی بادشاہ کے نہ آنے کا ریکارڈ قائم رہا۔ چشتیہ مکتب فکر میں یہ روایت بھی تھی کہ فرقے کی رہنمائی موروثی نہیں بلکہ اہلیت کی بنا پر طے کی جاتی تھی۔ بابا فرید نے اپنے بیٹوں کی بجائے خواجہ نظام الدین اولیاء کو اپنا جانشین مقرر کیا۔ چشتیہ فرقے کی روایات کو قادری مکتب فکر کے بزرگوں نے اپنایا: بلھے شاہ اور سلطان باہو اسی مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے۔
برصغیر کے عوام میں انسان دوست شاعری کی بنیاد بھی چشتیہ اور قادریہ مکاتب فکر کے بزرگوں نے رکھی۔ بلکہ بہت سی زبانوں (پنجابی اور سندھی سمیت) کی باقاعدہ بنیاد چشتیہ مکتب فکر کے رہبران نے تخلیق کی۔ پنجابی کے اولین شاعر بابا فرید ہیںاور ان کا کلام سکھ مذہب کے گرو گرنتھ صاحب میں بھی شامل ہے۔ پنجاب میں بابا فرید سے لے کر میاں محمد بخش اور خواجہ فرید تک تمام صوفی شعرانے انسان دوستی کا سبق دیا۔ سندھ میں شاہ لطیف بھٹائی اور سچل سرمست کا بھی یہی پیغام تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ان عظیم بزرگان کے حلقہ عقیدت میں تمام مذاہب کے لوگ شامل تھے۔ ان تمام عظیم شعراکے کلام میں حاکم طبقے اور ملا شاہی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ عوام میں تصوف اور طریقت انہی عظیم ہستیوں کی وجہ سے مقبول عام ہے۔ لیکن اس سے ایک مغالطہ بھی پیدا ہوا ہے جس کے تحت ہر صوفی فرقے کو عقیدہ پرستی سے بالا ترسمجھ لیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ چشتیہ اور قادری مکاتب فکر کے علاوہ تقریباً ہر صوفی فرقے نے حاکمان وقت اور ملا شاہی کے ساتھ اتحاد قائم کیا۔ خود چشتیہ مکتب فکر کا زوال بھی اس تاریخی حقیقت سے عیاں ہے کہ بابا فرید کے پوتوں نے تغلق دربار سے تعلقات ہموار کر لئے اور اس کے عوض میں بہت بڑی جاگیر پائی۔ المختصر یہ کہا جا سکتا ہے کہ طریقت کے نام پر بہت سے فرقے سیاسی اقتدار کے خواہاں رہے ہیں، اس لئے اسلام آباد دھرنا اسی روایت کا اظہار ہے۔

تازہ ترین