• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ ایک ایسا بچہ جسے لاحق بیماریوں اور جسمانی طور پر کمزور سمجھتے ہوئے ڈاکٹرز نے سختی کے ساتھ کسی بھی کھیل میں حصہ لینے پر پابندی لگا رکھی ہو،جس کو صرف بارہ سے چودہ برس کی عمر کے دوران ہی ہرنیہ جیسے طویل جسمانی آپریشنوں سے گزرنا پڑا ہو، وہ انتہائی کم عمری میں اسکواش کی دنیا میں اپنی کامیابی کے ایسے جھنڈے گاڑے گا جس کی بدولت اسے اسکواش کی آنے والی تاریخ میں بھی صف اول کا کھلاڑی تسلیم کیا جاتا رہے گا، جہانگیر خان جنہیں فخر پاکستان بھی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا جن کی بدولت پوری دنیا میں جب بھی اسکواش کا نام آئے گا تو پاکستان کا اور جہانگیر خان کا نام سر فہرست ہوگا، جہانگیر خان اپنے خاندانی کھیل اسکواش سے تو بچپن سے ہی محبت رکھتے تھے ان کے والد عالمی شہرت یافتہ اسکواش پلیئر روشن خان جنھوں نے پہلی دفعہ 1957میں برٹش اوپن جیت کر دنیا بھر میں پاکستان کا پرچم بلند کیا وہ ہی جہانگیر خان کے ابتدائی کوچ تھے لیکن نہ صرف جہانگیر خان بلکہ ان کے والد روشن خان اپنے بڑے صاحبزادے طورسم خان کو دنیا کا ابھرتا ہوا کھلاڑی دیکھ رہے تھے اور دونوں کی امیدیں طورسم خان سے ہی وابستہ تھیں کہ وہ اسکواش کی دنیا میں اپنا، اپنے خاندان کا اور اپنے ملک کا نام روشن کریں گے، لیکن پھر اچانک ایک روزطورسم خان آسٹریلیا میں کھیلے جانیوالے ایک بین الاقوامی ٹورنامنٹ میں میچ کے دوران ہی اسکواش کورٹ میں ہارٹ اٹیک کے باعث انتہائی کم عمری میں خالق حقیقی سے جاملے اور اپنے چاہنے والوں کیلئے عظیم صدمہ چھوڑ گئے، طورسم خان کی اچانک وفات نے جہانگیر خان اور ان کے والد کے خوابوں کو چکنا چور کردیا تھا لیکن یہی وہ وقت تھا جب جہانگیر خان جو اسکواش سے کنارہ کشی اختیار کرنے کے بارے میں سوچ رہے تھے جنہیں ان کی خراب صحت اور جسمانی کمزوری کی بنا پر پاکستانی سلیکٹرز نے ورلڈ اسکواش چیمپئن شپ کیلئے ڈراپ کردیا تھا لیکن بھائی کی وفات کے بعد ان کے اندر کچھ کر دکھانے کا ایسا جذبہ پیدا ہوگیا تھا کہ انہوں نے ورلڈ ایمیچر انڈویجیل چیمپئن شپ World Amateur Individual Championship ٹورنامنٹ میں حصہ لیا اور صرف پندرہ برس کی عمر میں یہ ٹورنامنٹ جیت کر پوری دنیا کو حیران کردیا، اس کامیابی کے بعد جہانگیر خان نے کبھی پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا اور اگلے چودہ برسوں میں اسکواش کی دنیا میں صرف جہانگیر خان اور پاکستان کا نام ہی صف اول پر چھایا رہا، اپنے کیریئر کے دوران جہانگیر خان نے صرف پندرہ برس کی عمر میں World Amateur Individual Championship کا ٹائٹل اپنے نام کیا، جس کے بعد صرف سترہ برس کی عمر میں انہوں نے کم عمر ترین ورلڈ اوپن چیمپئن کا ٹائٹل اپنے نام کیا، ساتھ ہی اگلے پانچ سال آٹھ مہینوں کے دوران 555میچ لگاتار جیت کر کسی بھی انفرادی یا اجتماعی کھیل میں ایسا ورلڈ ریکار قائم کیا جو شاید کبھی نہ ٹوٹ سکے، دس دفعہ لگاتار برٹش اوپن چیمپئن شپ اپنے نام کی، چھ دفعہ ورلڈ اوپن چیمپئن رہے ،دنیا کے پہلے اسکواش کے کھلاڑی رہے جنہوں نے ورلڈ اوپن چیمپئن شپ کے پورے ٹورنامنٹ کے دوران ایک دفعہ بھی شکست کا منہ نہیں دیکھا، جبکہ اسکواش کی تاریخ کا دوسرا سب سے بڑا میچ کھیلنے کا بھی اعزاز حاصل کیا جس کا دورانیہ دو گھنٹے چھیالیس منٹ تھا، جہانگیر خان دنیائے اسکواش کے لیجنڈ کھلاڑی ہیں وہ ورلڈ اسکواش فیڈریشن کے چھ سال تک صدر بھی رہ چکے ہیں، جہانگیر خان کو ان کی خدمات کے صلے میں حکومت پاکستان پرائیڈ آف پرفارمنس سے نواز چکی ہے جبکہ سول اعزاز ہلال امتیاز سے بھی نوازا جاچکا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ٹائم میگزین نے بھی جہانگیر خان کو ہیرو آف ایشیا کا خطاب دیا ہے اور بھی بہت سے عالمی ایوارڈز جہانگیر خان کو ان کی خدمات کے صلے میں مل چکے ہیں لیکن ایک اور اہم ایوارڈ جو جہانگیر خان کو ممتاز کرتا ہے وہ حالیہ دنوں میں جاپانی حکومت کی جانب سے جہانگیر خان کیلئے یادگاری ٹکٹ کا اجرا ہے جو انہیں کھیلوں کے شعبے میں ان کی خدمات کے صلے میں جاری کیا گیا ہے، چند ماہ قبل جہانگیر خان کے اعزاز میں جاپان میں پاک جاپان بزنس کونسل کے صدر رانا عابد حسین کی جانب سے ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ راقم کو بھی تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔ وہ ایک بہترین تقریب تھی جس میں جہانگیر خان کو خراج تحسین پیش کیا جارہا تھا۔ سب کچھ سن کر بہت اچھا لگ رہا تھا۔ تقریب میں فخر پاکستان جہانگیر خان کے کیریئر کے بارے میں جاپانی منتظم کی جانب سے ہال میں بیٹھے حاضرین کو جہانگیر خان کے حوالے سے بریف کیا جارہا تھا، جہانگیر خان کی ہر کامیابی اور اسکواش کے کھیل میں خدمات پر جیسے جیسے منتظم لوگوں کو بریف کرتے ویسے ویسے ہا ل تالیوں سے گونج جاتا اور منتظم جہانگیر خان کی مزید کامیابیوں کے حوالے سے بریفنگ شروع کردیتے، حقیقت تو یہ تھی کہ میں بھی اس وقت اپنے پاکستانی ہونے پر فخر محسوس کررہا تھا کیونکہ جہانگیر خان جیسی شخصیت کا تعلق بھی پاکستان سے تھا جن کی بدولت آج پاکستان جاپان جیسے ملک میں جہاں زبان بھی مختلف بولی جاتی ہے لیکن عظیم جہانگیر خان کی بدولت پاکستان کا نام روشن ہورہا تھا، بلاشبہ یہ تقریب ہی جاپانی حکومت کی جانب سے جہانگیر خان کے لئے یادگاری ٹکٹ کے اجرا کا سبب بنی، اس ٹکٹ کے اجرا کیلئے تمام کاغذی کارروائی اور پروپوزل بھی پاک جاپان بزنس کونسل کی جانب سے تیار کرکے بھیجا گیا تھا جسے ایک طویل طریقہ کار کے بعد منظور کرلیا گیا اور عنقریب یہ ٹکٹ جاپانی حکومت کے نہ صرف ڈاکخانوں کی زینت ہوگا بلکہ ایمیزان کی جانب سے بھی اس ٹکٹ کو ان کی ویب سائٹ کے ذریعے دنیا بھر میں فروخت کیلئے پیش کیا جائے گا، جہانگیر خان کے ساتھ جاپان کے کئی ریستورانوں میں جانے کا موقع بھی ملا اور خوشی کی بات یہ تھی کہ اپنی ریٹائرمنٹ کے پچیس برس کے بعد بھی جہانگیر خان جاپان جیسے ملک میں بھی مقبول ہیں ان کے پرستار ان کے ساتھ آج بھی جاپان میں تصاویر بنوانے پر فخر محسوس کرتے ہیں، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ جہانگیر خان کو پاکستان میں آج بھی وہ مقام حاصل نہیں ہو سکا ہے جو ان جیسے کھلاڑیوں کو ہونا چاہئے، جہانگیر خان کو کسی بھی ملک سے تعلقات بہتر کرنے کیلئے وہاں بطور سفیر تعینات کیا جاسکتا ہے، امن کا سفیر تعینات کیا جاسکتا ہے تاکہ جہانگیر خان جیسے لیجنڈ کھلاڑی اسپورٹس ڈپلومیسی کے ذریعے پاکستان کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات میں بہتری کیلئے کردار ادا کرسکیں ،جہانگیر خان کو دنیا کے کئی ممالک سے شہریت کی پیشکش ہوئیں لیکن آج بھی وہ اپنے پاکستانی ہونے پر فخر کرتے ہیں ،دنیا بھر میں سفر کرتے ہوئے چالیس پاسپورٹس کے مالک بن چکے ہیں ہر دفعہ بیرون ملک سفیر کیلئےویزےکے حصول کے مشکل پروسس سے گزرتے ہیں لیکن آج تک حکومت نے انہیں ڈپلومیٹک پاسپورٹ بھی فراہم نہیں کیا، جہانگیر خان جیسے لوگ تو چلتے پھرتے ڈپلومیٹس ہوتے ہیں جہاں جاتے ہیں پاکستان کا نام روشن کرتے ہیں، لہٰذا وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی سے درخواست ہے کہ وہ جہانگیر خان کو ان کی خدمات کے صلے میں نہ صرف امن کا سفیر مقرر کریں اور کم سے کم تاحیات ڈپلومیٹک پاسپورٹ کا اجرا کرائیں تاکہ وہ دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کرسکیں، یہ اپنے ہیروز کو خراج تحسین پیش کرنے کا قابل تعریف عمل ہوسکتا ہے۔

تازہ ترین