• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

راقم اس سے قبل بھی کئی بار پاکستان میں سیکولر ازم کی ضرورت پر زور دے چکا ہے اور اس بارے میں مختلف اوقات میں کئی ایک کالم بھی تحریر کرچکا ہےلیکن موجودہ دورکے حالات کو دیکھتے ہوئے اس کی ضرورت کو ایک بار پھر اجاگر کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ چندمذہبی رہنماؤں نے اپنے خیالات کی ترویج کیلئے سیکولر ازم سے نفرت پیدا کرنے کی کوشش میں اس کو لادینیت، دہریت اور بداخلاقی کا سرچشمہ قرار دیا ہے جو کہ سراسر غلط ہے۔ سیکولر ازم کیلئے موزوں اُردو اصطلاح ”مذہب کے بارے میں ریاست کی غیر جانبداری‘‘ ہوسکتی ہے۔ سیکولر ازم نہ تو کوئی مذہبی عقیدہ ہے اور نہ لادینیت کا نام ہے بلکہ ایک معاشرتی فلسفہ ہے جس کا مقصد مذہب کے بارے میں غیرجانبدارانہ پالیسی اختیار کرنا ہے۔ جس کے تحت ہر انسان کو اپنی سوچ، عقیدے اور مذہب کے تحت زندگی گزارنے کا حق حاصل ہوتا ہے۔ سیکولر ازم ایک عملی تدبیر ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ مذہبی نزاع سے بچتے ہوئے سیاسی اور اقتصادی امور میں مشترک بنیاد پر ملک کا نظام چلایا جائے یعنی کسی ایک فرقے یا مذہب کو کسی دوسرے فرقے اور مذہب کے معاملے میں دخل اندازی کرنے کا موقع ہی میسر نہ آئے۔ سیکولر ریاست کا کوئی سرکاری مذہب نہیں ہوتا۔ اس کے آئین کی رُو سے تمام مذاہب کو مساوی درجہ حاصل ہوتا ہے اور کسی خاص مذہب کے ماننے والوں سے ترجیحی یا امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا۔ سیکولر ریاست کا مقصد ملک میں مختلف مذاہب کے درمیان چپقلش ختم کرنا اور ان کے پیروؤں میں قومی یکجہتی پیدا کرنا ہےجبکہ ہمارے بعض علما جان بوجھ کر سیکولر ازم کو مادرپدر آزاد معاشرہ قرار دیتے ہوئے غلط رنگ دینے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ سیکولر ازم پر عمل درآمد کرنے والی تمام ریاستوں میں ہر مذہب کے پیروکاروں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہوتی ہے اور یہی اصول ہمیں دنیا کی پہلی مسلم ریاست’’مدینہ‘‘میں نظر آتا ہے جو ہمارے پیارے نبیﷺ نے قائم کی تھی۔ اس ریاست کے بنیادی اصولوں کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ مدینہ کی ریاست میں ہر مذہب کے لوگو ں کو اپنے مذہب کی مکمل آزادی حاصل تھی اور ریاست کا انتظام احسن طریقے سے انجام پارہا تھا اور یہی اصول ان ہی سیکولر ریاستوں نے ’’مدینہ‘‘ کی ریاست سے حاصل کرتے ہوئے اپنائے تھے۔
اگر ہم قیام ِ پاکستان سے قبل گیارہ اگست 1947 کی قائد اعظم محمد علی جناح کی تقریر کا جائزہ لیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اپنی تقریر میں واضح طور پر کہا تھا کہ ’’مملکتِ پاکستان میں مذہب اور سیاست کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا، ہندو، مسلم اور عیسائی سب برابر کے شہری ہوں گے‘‘ لیکن بدقسمتی کہ جناح صاحب پاکستان کے بننے کے ایک سال بعد انتقال کر گئے۔ ان کی گیارہ اگست کی تقریر بھی ان کے ساتھ ہی انتقال کر گئی۔ پاکستان کی اس وقت کی مذہبی جماعتوں جنہوں نے قیام ِپاکستان کی بھر پور مخالف کی تھی نے قائداعظم کی رحلت کے بعد نئے نعرے لگانے شروع کردئیے لیکن عوام میں ان کو ذرہ بھر بھی پذیرائی حاصل نہ ہوسکی اور پاکستان قائد اعظم کے اصولوں کے مطابق چلتا رہا اور دن دگنی رات چو گنی ترقی کرتا رہا۔ اسی ترقی کی وجہ سے پاکستان دنیا کے چند گنے چنے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہونے لگا اور اسی دور میں پاکستان نے جرمنی کو قرضہ فراہم کرتے ہوئے اپنی ساکھ کو بہت مضبوط بنا لیا تھا۔ اس وقت پاکستان میں اشرافیہ کی زندگی میں بہت چارم تھا ،مڈل کلاس والے بھی کسی حد تک زندگی کو انجوائے کررہے تھے، لوگ پڑھے لکھے اور کلچرڈ تھے۔ کراچی60ء کی دہائی میں دنیا کے بہترین شہروں میں شمار ہوتا تھا ’’یہ پرامن ترین شہر تھا‘‘ دنیا جہاں کے سفارت کار، سیاح اور ہپی شہر میں کھلے پھرتے تھے، ہوٹل اور بازار آباد تھے، کراچی کا ساحل دنیا کے دس شاندار ساحلوں میں تھا، پی آئی اے دنیا کی چار بڑی ائیرلائنز میں آتی تھی۔ مذہبی لحاظ سے تمام فرقوں کو عبادت کرنے کی مکمل آزادی حاصل تھی۔ اس دور میں کبھی کسی جماعت نے کسی دوسری جماعت پر کافر ہونے کے فتوے جاری نہیں کئے تھے۔ پاکستان کیلئے کسی ملک کے ویزے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی، پاکستانی شہری جہاز میں سوار ہوتے تھے، یورپ کے ممالک میں اترتے تھے اور انھیں ائیرپورٹ پر ویزہ مل جاتا تھا۔ پاکستان اس وقت دنیا کا واحد ملک تھا جس میں صرف ان لوگوں کو پاسپورٹ دیا جاتا تھا جو واقعی جینوئن مسافر ہوتے تھے۔ پاکستان کا معیار تعلیم پورے خطے میں بلند تھا، طالب علم یورپ، عرب ممالک، افریقہ‘ مشرق بعید، ایران، افغانستان، چین اور ترکی سے تعلیم حاصل کرنے کیلئے پاکستان آتے تھے اور کراچی اور لاہور کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے کو ترجیح دیتے تھے۔ پاکستان کا بینکنگ سسٹم جدید اور فول پروف تھا اور دنیا کیلئے قابلِ رشک تھا۔ بھٹو کے آخری دور میں مذہبی حلقوں نے بھٹو کو مذہبی لبادہ پہننے پر مجبور کردیا اور پاکستان کا رشتہ جنوبی ایشیا سے توڑتے ہوئے ترک مڈل ایسٹ سے جوڑ دیا اور پاکستان پر بھی مڈل ایسٹ ممالک کی چھاپ محسوس کی جانے لگی اور بے تحاشا دولت پاکستان آنے لگی، اسلامی بھائی بندی کی باتیں آسمان پر جانے لگیں اور بھٹو کو بھی عالم اسلام کا لیڈر بننے کا شوق ہو گیا اور یہی شوق انہیں لے ڈوبا اور ملک میں رہی سہی کسر مذہب کا نام استعمال کرنے والے فوجی جنرل ضیاء الحق نے پوری کردی اور جس طریقے سے انہوں نے اسلام کے نام پر پوری قوم کو فرقوں میں تقسیم کیا اور مختلف ناموں سے انتہا پسند اسلامی تنظیموں کو پروان چڑھایا اس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ ان کے دور میں انتہا پسندی کا جو سلسلہ شروع ہوا اس نے پاکستان کی بنیادیں ہی ہلا کر رکھ دیں اور پاکستان جو دنیا بھر میں بڑا مہذب ملک سمجھا جاتا تھا انتہا پسند ممالک کی صف میں شامل ہوگیا اور اس کے بعد کوئی بھی حکومت اپنے آپ کو ان انتہا پسندوں سے دور نہ رکھ سکی بلکہ کسی نہ کسی طرح ان کا رابطہ ان انتہا پسند جماعتوں سے رہا اور اب یہ تمام جماعتیں اپنے کئے کا خمیازہ بھگت رہی ہیں۔ جب تک پاکستان کی تمام لبرل سیاسی جماعتیں سر جوڑ کر اکٹھا نہیں ہو جاتیں اور ملک میں انتہا پسندی کے خاتمے کیلئے اور ایک دوسرے کو کافر قرار دینے کی روش کو ختم کروانے کیلئے سیکولرازم کو متعارف نہیں کروادیتیں ملک میں افرا تفری کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ پاکستان کی تمام مذہبی سیاسی جماعتیں جن کے ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان سے گہرے روابط ہیں اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ترکی میں بھی سیکولر ازم پر پوری طرح عمل درآمد کیا جاتا ہے اور موجودہ صدر رجب طیب ایردوان جو اسلامی اصولوں پر پوری طرح عمل درآمد کرتے ہیں ملک میں سیکولر ازم ہی کو ملک کی ترقی اور اتحاد کا ضامن قرار دیتے ہیں تو پھر ہم پاکستان میں سیکو لرازم کی کیونکر مخالفت کرتے ہیں؟ ہمیں سب سے پہلے سیکولرازم کے بارے میں پائے جانے والے غلط نظریات اور اصطلاح کو ختم کرتے ہوئے نئی اصطلاح متعارف کروانے کی ضرورت ہےتاکہ ملک میں تمام فرقوں کے افراد ہم آہنگی سے زندگی بسر کرسکیں اور پاکستان ترقی کی راہ پر دوبارہ گامزن ہوسکے۔

تازہ ترین