• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی وزیر دفاع جنرل (ر) جیمز میٹس پاکستان کا ایک روزہ اہم دورہ کرکے واپس جاچکے۔ دو طرفہ ملاقاتوں اور مذاکرات کے بارے میں امریکہ اور پاکستان دونوں طرف سے اپنے اپنے موقف پر مبنی بیانات بھی جاری ہوچکے جو اب تفصیلی تقابل اور تجزیوں کا تقاضا کرتے ہیں بلکہ جنوبی ایشیا کےبارے میں عالمی طاقت امریکہ کی تبدیل شدہ ترجیحات اور اسٹریٹجی کے عملی تناظر میں کسی خوش فہمی یا مایوسی کا شکار ہوئے بغیر بین السطور معنی اور مقاصد کو بھی سمجھنے کی کوشش ایک لازمی ضرورت ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ امریکی وزیر دفاع اپنی فوجی ملازمت کے دوران افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کے زمانے میں افغانستان، جنگ میں فرنٹ لائن امریکی اتحادی پاکستان کے اعلانیہ، خفیہ اور فوجی رول کے تمام تر حقائق سے مکمل طور پر واقف ہیں لہٰذا وہ جنوبی ایشیا بلکہ امریکی سینٹرل کمان کی زیرنگرانی آنے والے مشرق وسطیٰ، سینٹرل ایشیا کے ممالک کے تمام فوجی اور انٹیلی جنس معاملات اور سیاست سے بھی بخوبی واقف ہیں لہٰذا کسی معاملےپر لاعلمی، مبہم رائےکی گنجائش کم ہے۔ اب آئیے اس اہم دورہ کے مقاصد، مندرجات اور ممکنہ اثرات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
(1)امریکی وزیر دفاع بنتے ہی جیمز میٹس کے وارننگ نما بیانات اور نتائج کی دھمکیوں نے پاکستان کیلئے پریشان کن صورتحال پیدا کردی۔ صدر ٹرمپ کی نےاپنی نئی جنوبی ایشیا اسٹرٹیجی کے اعلان میںپاکستان کے اتحادی روپ کو یکسر تبدیل کرکے بھارت کو امریکہ کا اعلانیہ اتحادی اور پاکستان کو امریکہ مخالف ملک اور دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کا حامل ملک قرار دے ڈالا۔ پاکستان کے ازلی مخالف اور دہشت گردی کے خلاف ایک بھی گوئی چلائے بغیر اس جنگ کے تمام فوائد و ثمرات کو حاصل کرنے کے خواہشمند بھارت کو جنوبی ایشیا بلکہ ایشیا میں فرنٹ لائن امریکی اتحادی اور پارٹنر کا رول ٹرمپ نے دے کر تمام فوجی، معاشی اور ہتھیار سازی کا امریکی تعاون بھی فراہم کردیا۔
(2)اگر ان مذکورہ بیانات اور اقدامات کو کچھ عرصہ قبل کے اقدامات قرار دے کر نظرانداز کر بھی دیا جائے اور امریکی وزیر دفاع کے اس دورے کو، پاکستان کیلئے ’’آخری وارننگ‘‘ والے بیان کو بھی محض دبائو یا لفظی جنگ کہہ کر بھی نظرانداز کردیں تب بھی جنرل (ر) میٹس کے گزشتہ ایک ماہ بالخصوص گزشتہ دس دنوں کے اپنے ہی بیانات کے متن پڑھ لیں بلاشبہ واضح ہوجائے گا کہ امریکہ کی جنوبی ایشیا کی پالیسی میں قطعاً کوئی تبدیلی یا نرمی نہیں آئی نہ ہی کسی نظرثانی کا امکان ہے۔ پاکستان پر دہشت گردوں کو پناہ گاہوں کا ملک قرار دینے، پاکستان سے ڈومور کے مطالبے اور بھارت کی برتری کو تسلیم کرانے کی امریکی حکمت عملی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے بلکہ یہ امریکی مطالبات بدستور موجود ہیں۔ امریکی وزیر دفاع نے یکم دسمبر کو 5 دن میں چار مسلم ممالک، مصر، اردن، پاکستان اور کویت کے دورے پر روانہ ہوتے وقت صحافیوں کے ساتھ جو ’’آن دی ریکارڈ‘‘ گفتگو کی ہے اس کا متن ہی واضح کردیتا ہے کہ اُن کا دورہ پاکستان کسی امریکی نرمی یا انڈر اسٹیڈنگ کیلئے نہیں تھا بلکہ امریکی نئی حکمت عملی میں بھارت کے قائدانہ برتر رول سمیت امریکی مطالبات منوانا مقصود تھا۔
(3)افغانستان میں امریکی فوج کے موجودہ کمانڈر جنرل نکلسن کا یہ بیان کہ پاکستان میں کچھ تبدیل نہیں ہوا اور ہم دہشت گردی کے خلاف پاکستانی بیانات پر عمل دیکھنا چاہتے ہیں۔ یکم دسمبر کو اپنے دورے کے حوالے سے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی وزیر دفاع نے اپنے ہمراہ سفر کرنے والے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکہ کی نئی جنوبی ایشیا پالیسی اور افغانستان کے بارے میں ’’4-R‘‘ پر مبنی پالیسی کو دہرایا اور کہا کہ ہم پاکستان سے ان چار۔R کی پالیسی پر عمل کرانا چاہتے ہیں جو کچھ یوں ہیں۔ ریجنلائزیشن یعنی افغانستان میں بھارتی رول کو پاکستان قبول کرے بالفاظ دیگر بھارتی برتری قبول کی جائے۔ ری کنسلیشن یعنی طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی ذمہ داری پاکستان ادا کرے۔ یعنی پاکستان طالبان سے جنگ کرے امریکہ بھی اُن پر ڈرون حملوں اور دیگر اقدامات سے قیادت کو قتل کرتا رہے اور انہیں مارپیٹ کر مذاکرات کی میز پر لاکر بٹھائے اور افغانستان میں امن قائم کرائے۔ یعنی جو مقاصد ایک لاکھ سے زائد مسلح امریکی افواج 13 سال کے عرصہ اور 800ارب ڈالرز کے اخراجات اور افغانستان میں قیام کے بعد بھی حاصل نہ کرسکیں وہ مقاصد 16سال سے دہشت گردی کے خلاف مسلسل مصروف پاکستانی فوج اور اس کے وسائل حاصل کرکے امریکہ کی جھولی میں ڈال دیں۔ بھارت کو افغانستان میں اپنے اثرورسوخ اور انٹیلی جنس نیٹ ورک کے باوجود دہشت گردوں سے لڑنے کی ضرورت نہیں بلکہ وہ صرف وہاں اپنی مارکیٹ قائم کرے۔ ری انفورسمنٹ اور ری الائنمنٹ کے مقاصد بھی پاکستان پورے کرے۔ مختصر یہ کہ افغانستان کو امن و امان والا ملک بناکر تمام معاملات کو معمولات پر لانے کی ذمہ داری بھی پاکستان اداکرے۔ ظاہر ہے یہ پاکستان کیلئے ممکن ہی نہیں۔ یکم دسمبر کی اپنی آن دی ریکارڈ بریفنگ میں خود امریکی وزیر دفاع نے کہا ہے کہ پاکستان ہمارے ان چار "R" کی پالیسی قبول کرنے سے انکار کررہا ہے۔
(4)ہمارے لئے افسوس اور فکر کا مقام یہ ہے کہ ایک صحافی نے گزشتہ دنوں اسلام آباد میں دیئے جانے والے دھرنے کا حوالہ دیتے ہوئے جنرل (ر) میٹس کے سامنے حکومت اور فوج کو اسلامی ریڈیکلزم سے نتھی کرنے کی کوشش بھی کی۔ آخر ہمارے داخلی سیاست کے معاملات بھی ہمارے لئے مشکلات میں اضافے کا باعث کیوں ہیں؟ 3دسمبر کو بھی پاکستان پہنچنے سے قبل جنرل جیمس کے ہمراہ آنے والے صحافیوں کے ساتھ گفتگو کا متن بھی آن دی ریکارڈ موجود ہے اور اسی سمت میں بہت کچھ واضح کررہا ہے۔ علاوہ ازیں جنرل میٹس نے انہی صحافیوں سے ’’آن دی ریکارڈ‘‘ گفتگو کا جو سیشن منعقد کیا ہے۔ اس کے بارے میں کچھ کہنا یا لکھنا نہ تو اخلاقی نہ ہی پروفیشنل لحاظ سے درست ہے یا موزوں ہے پھر ’’اڑتی ہوئی سنی ہے زبانی طیور کی‘‘ لہٰذا اسے افواہ اور ناموزوں قرار دیکر مسترد کرنا چاہئے۔ صرف مذکورہ بالا بیانات اور حقائق کے تناظر میں اپنے محترم وزیر خارجہ خواجہ آصف کے اس ملاقات کے بعد دیئے گئے موقف سے اختلاف کرتے ہوئے سوال کرونگا کہ انہوں نے امریکی وزیر دفاع کے مہذب لب و لہجہ اور دھمکی آمیز الفاظ کی بجائے اپنے مذکورہ امریکی ایجنڈے پر اصرار کی حکمت عملی ’’تڑی‘‘ کی بجائے مفید گفتگو کیسے تعبیر کرلیا۔ ہم تفصیل سے بتاتے ہیں کہ ہم کیا کیا یہ نہیں بتاتے کہ دوسرے فریق کا جواب کیا تھا۔ آئی ایس پی آر کے جاری کردہ بیان کے مطابق آرمی چیف نے ملاقات میں پاکستان کا جو موقف بیان کیا ہے وہ حقائق پر مبنی پاکستانی جراتمندانہ موقف ہے لیکن امریکی وزیر دفاع نے اس کا جواب دیا؟ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی مثالی قربانیاں ایک ایسی حقیقت ہیں کہ امریکی بھی انکار نہیں کرسکتے لیکن کیا ان قربانیوں کا زبانی اعتراف اور امریکہ کی جنوبی ایشیا پالیسی میں پاکستان کے ساتھ سلوک پاکستان کیلئے اس کا انعام ہے یا انتقام۔
(5)پاکستان کے دورے پر امریکی وزیر دفاع کے پہنچنے سے چند گھنٹے قبل امریکی سی آئی اے کے موجودہ سربراہ مائیک نے پاکستان کے حوالے سے جو جارحانہ الٹی میٹم کے انداز میں بیان جاری کیا ہے کہ پاکستان اپنے ہاں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں خود ختم کردے ورنہ امریکہ ان پناہ گاہوں کو ختم کردے گا۔ کیا ہمارے وزیر خارجہ کیلئے یہ بھی ’’تڑی‘‘ نہیں ہے؟ اس دورے کے موقع پر 39ممالک کے ناٹو معاہدےکے سیکریٹری جنرل کی اسی تناظر میں پاکستان مخالف گفتگو بھی اگر سمجھنے کیلئے کافی نہیں ہے تو پھر امریکی وزیر دفاع کے دورہ پاکستان کے اختتام پر امریکی محکمہ دفاع کے 4دسمبر کو جاری کردہ ’’ریڈ آئوٹ‘‘ NR-410-17کا صرف سات سطری متن پڑھ کر اندازہ خود فرمالیں کہ اس دورے میں امریکی مقاصد، مطالبات اور مفادات کیا تھے اور پاک۔ امریکہ تعلقات کہاں کھڑے ہیں؟
پنٹاگون کے جاری کردہ تقریباً 120 الفاظ اور سات سطور پر مشتمل اس ’’ریڈ آئوٹ‘‘ (Read Out) میں سویلین حکومت سے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیر دفاع خرم دستگیر سے ملاقات کے علاوہ اس ملاقات کی تصاویر اور ویڈیو میں موجود تمام وفاقی وزراء کے بارے میں خاموشی کا پروٹوکول اختیار کیا گیا اور فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار سے ملاقات کا ذکر ہے۔ آخری چار سطور میں ملاقات و مطالبات کے بارے میں امریکی موقف یوں بیان کیا ہے ’’سیکریٹری میٹس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کیا۔ سیکریٹری (میٹس) نے اُس اہم رول پر زور دیا جو پاکستان امریکہ اور دیگر کے ساتھ ملکرافغانستان میں امن کا پروسیس لاکر خطے میں استحکام اور سیکورٹی کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔ سیکریٹری (میٹس) نے اس کا اعادہ کیا کہ پاکستان عسکریت پسندوں اور دہشت گردوں سے نمٹنے (Confront) کی اپنی کوششوں کو لازماً ’’ری ڈیل‘‘ کرے جو ملک کے اندر آپریٹ کررہے ہیں‘‘۔ مقصد اور امریکی مطالبات واضح ہیں کہ پاکستان میں دہشت گرد اور عسکریت پسندوں کی پناہ گاہیں موجود ہیں پاکستان ان کا صفایا کرے اور افغانستان میں امریکہ اور دیگر (بھارت، افغانستان اور ناٹو فوج) کے ایجنڈے اور ٹارگٹ پورا کرنے میں اپنی ذمہ داری پوری کرے۔ پاکستان کی ماضی کی شکایات، مفادات، مطالبات کا امریکہ نہ ذمہ دار ہے نہ جواب دے گا۔ پاکستانی حکومت نے جو کچھ کہا وہ اُن کے بیان کا حصہ ہے اور آئی ایس پی آر نے آرمی چیف سے ملاقات اور اختیار کردہ مہذب اور معقول انداز میں امریکی مطالبات ماننے سے ا نکار پر مبنی موقف جاری کیا ہے۔ گویا دونوں فریقوں کے درمیان اختلافات واضح طور پر موجود ہیں۔ ازلی دشمن پاک۔ امریکہ تعلقات کی اس صورتحال پر بہت خوش ہے۔ اسلام آباد کو چاہئے کہ وہ آنے والے حالات اور واقعات اور عوام کا موجودہ اضطراب پیش نظر رکھ کر عوام سے کھل کر مکالمہ کرے اور اعتماد میں لے صدر ٹرمپ کی داخلی مشکلات میں اضافہ جاری ہے۔ پاکستانی قیادت امریکہ سے تصادم اور جوش کی راہ اختیار نہ کرے بلکہ احتیاطی تدابیر کے ساتھ مشکل وقت گزر جانے کا انتظار کرے۔ وسائل کو مجتمع اور بیرونی سازشوں اور تخریب کاری پر نظر رکھے جو عوامی تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کی عملی تشریح میں پاکستانی ایٹمی اثاثوں کی پناہ گاہیں بھی شامل ٹارگٹ ہیں خدا کرے 2018ء کی ابتدا پاکستان کیلئے اچھی خبروں کا سال ثابت ہو۔ مضبوط اعصاب، تخلیقی ڈپلومیسی، ممکنہ مشکلات کی تیاری، عقابی نظر اور قومی یکسوئی کی بیک وقت ضرورت آن پڑی ہے۔

تازہ ترین