• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک کے سول انتظامی امور چلانے میں سینٹرل سپریئر سروسز (سی ایس ایس) کو کلیدی حیثیت حاصل ہے جس کے لئے ہر سال وفاقی پبلک سروس کمیشن مقابلے کے امتحان کا ملک گیر سطح پر اہتمام کرتا ہے۔ اس وقت ہر سال ساڑھے چار لاکھ گریجویٹس ملک بھر میں اعلیٰ تعلیم سے آراستہ ہو رہے ہیں اس تناظر میں2016 میں سی ایس ایس کے امتحانات کے تحت199 اسامیوں کے لئے 9643 میں سے صرف202 امیدواروں کا کامیاب ہونا تشویش کی وجہ بنا چند ماہ قبل حکومتی اور غیر حکومتی حلقوں میں یہ بات غور وفکر کا باعث بنی جس کے پیش نظر منگل کو سول سروسز اصلاحات کے بارے میں اسلام آباد میں منعقدہ اعلیٰ سطحی اجلاس میں وزیراعظم شاہد خاقان نے وفاقی اعلیٰ ملازمتوں میں شمولیت کے طریقہ کار پر نظر ثانی کی ہدایت کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ان ایشوز کو حل کیا جائے جن کے نتیجے میں مقابلے کے امتحانات میں کامیابی کی شرح کم ہوئی ہے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ایف پی ایس سی کے گزشتہ سال کے نتائج کا انتہائی گہرائی سے تجزیہ کیا جائے گا اور ترقی پذیر ملکوں سے بھرتی کے عمل کا مسابقتی موازنہ کیا جائے گا۔ سی ایس ایس کے نتائج پر حکومت کا یہ ایک منطقی ردعمل ہے جو ناگزیر تھا۔ یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ 1990کے سی ایس ایس کے امتحان میں 126 اسامیوں کے لئے 10ہزار میں سے ایک ہزار کامیاب ہوئے تھے۔ یہی نہیں اگر70برس میں اس سے بھی پیچھے جائیں تو یہ معیار اور بھی بلندی پر جاتا ہے۔ ماہرین نے بلاشبہ سی ایس ایس کی زبوں حالی کی بنیادی وجہ اعلیٰ تعلیمی شعبے کا گرتا ہوا معیار بتائی ہے جبکہ سینئر اور ریٹائرڈ بیورو کریٹس کا یہ کہنا بھی بجا ہے کہ بیورو کریسی میں سیاست کا عمل دخل موجودہ صورت حال کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ وزیراعظم نے جسطرح اس نازک معاملے میں دلچسپی لی اور حالات کی تہہ تک پہنچنے کے لئے جو ہدایات جاری کیں اس کی مانیٹرنگ بھی کی جانی چاہئے۔

تازہ ترین