• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ناول نگاری میں اسلامی رومانس کے کامیاب لکھاری نسیم حجازی نے شیرِمیسور ٹیپو سلطان کے حالات پر جو ناول لکھا اس کا نام ’’اور تلوار ٹوٹ گئی‘‘ رکھا اور سیاسی رومانس لکھنے والے ایک طالبعلم نے اپنے کالم کا نام ’’اور قلم توڑ دیا !‘‘ رکھ ڈالا۔ٹیپو سلطان کو اپنوں اور غیروں کی ریشہ دوانیوں کا سامنا تھا آج کے پاکستان کو بھی اپنوں اور غیروں کی سازشوں کا سامنا ہے۔ بے یقینی اور بداعتمادی کےسائے نے ہر دل کو گھیر رکھا ہے ایسے میں قلم توڑ ا نہ جائے تو کیا کیا جائے؟
تاریخ کا مشکل ترین دور وہ ہوتا ہے جس میں لفظ تاثیر کھو دیتےہیں، اشعار بے اثر ہو جاتے ہیں، شاعر غیر متعلق ہو جاتے ہیں ،ادیب اپنی ساکھ کھو بیٹھتے ہیں ،ادب پڑھنے میں کوئی دلچسپی نہیںرہتی اور تقریر مذاق بن جاتی ہے۔ ہر ایک پر شک، ہر ایک پر انگلی اٹھائی جاتی ہے ۔اہل سیاست ناقابل اعتبار ہو جاتے ہیں حکمران اتنے کمزور ہو جاتے ہیںکہ ان کی آواز ہی سنی نہیں جاتی۔ مقتدر حلقے طاقت کے نشے میں اس قدر بدمست ہو جاتے ہیں کہ تنقید کی ہر آواز اور ہر لفظ کو خاموش کروا دیتے ہیں ایسے معاشرے میں قلم نہ توڑا جائے تو کیا کیا جائے ؟
کبھی کسی کالم میں نون لیگ کی حمایت میں لفظ لکھ دیا جائے تو سوشل میڈیا پر کوئی نہ کوئی جنونی یہ الزام لگا دیتا ہے کہ قلم کا سودا کتنے میں طے پایا ؟عمران خان کے حق میں لکھا کہ فوراً انتخابات ہی بحران کا واحد حل ہیں تو کہہ دیا گیا کہ بالآخر آپ نے بھی جمہوری راستہ چھوڑ دیا اور ہجوم کے دبائو میں آ گئے ۔اسٹیبلشمنٹ کی ماضی یا حال کی کسی پالیسی پر اشارتاً یا کنایتاًہلکا سا اعتراض بھی کر دیا تو الزام لگ گیا کہ یہ تو ویسے ہی سلامتی کے اداروں کے مخالف ہیں۔ مذہبی جماعتوں کے کسی رویے پر اعتراض کریں تو لکھنے والے کا اسلام ہی خطرے میں پڑ جاتا ہے اور وہ خوش قسمت ٹھہرتا ہے جو کفر کے فتوئوں سے بچ جائے ۔ایسے میں قصیدوں، تعریفوں اور مدح سرائی کے علاوہ کیا کیا جا سکتا ہے؟ صحافت تو تنقید سکھاتی ہے جرات اظہار کا حوصلہ دیتی ہے اختلاف کا در وا کرتی ہے اگر معاشرہ اختلاف کرنے پر بدگمانی اور شک کا اظہار شروع کر دے تو پھر قلم توڑا نہ جائے تو اور کیا کیا جائے !
اسے بدقسمتی کہئے یا کچھ اور، یہ نظریوں کا زمانہ نہیں رہا۔ پہلے سرخے تھے،سبزے تھے دایاں تھا بایاںبازو تھا۔لوگ ٹکڑوں میں بٹ کر بھی اپنے اپنے نظریاتی سچ کو گلے سے لگا کر رکھتے تھے۔ آشفتہ سر، ننگے پائوں اپنے اپنے نظریاتی اہداف کے لئے سرگرم رہتے تھے اور اس میں اطمینان حاصل کرتے تھے ۔نظریہ نہ رہا تو ہر ایک ہی مشکوک ٹھہرا۔یہ بھی غلط وہ بھی غلط جو مجھ سے اتفاق کرے وہ سچا اور جو اختلاف کرے وہ لفافہ صحافی، ایسے میں قلم توڑے بناکیا چارہ ہے؟
دنیا میں صحیح اور غلط کا پیمانہ صرف سچ اور جھوٹ ہوتا ہے یہاں ہر ایک کا سچ بھی اپنا اپنا ہے دوسرے کا سچ ہمیں مکمل جھوٹ لگتا ہے۔ جسٹس باقر نجفی رپورٹ بڑی واضح ہے مگر نون لیگ کو لگتا ہے کہ اس میں کسی پر ذمہ داری عائد نہیں کی گئی، یہ ناقص ہے اور اس میں بہت سی خامیاں ہیں دوسری طرف پاکستان عوامی تحریک اس رپورٹ کے آنے پر سجدہ شکر ادا کر رہی ہے۔ اب یہ دونوں تو سچے نہیں ہو سکتے ایک ہی سچا ہو گا ۔جب فریقین کی آنکھوں پر جانبداری کے کھوپے چڑھ جائیں تو انہیں سچ نظر نہیں آتا۔ جب تعصب بغض اور نفرت کا دور دورہ ہو تو دوسروں کی سچائی بھی نظر نہیں آتی اور نہ ہی اپنا جھوٹ سمجھ آتا ہے ۔اسی لئے تو یوں لگتا ہے کہ قلم توڑ ہی دیا جائے اور کسی ایک فریق کی ویگن پر چڑھ کر ڈھول تاشے بجائیں جلنا اور کڑھنا چھوڑیں بس متعصب ہو جائیں، آنکھیں بند کرلیںکانوں میں کوئی اجنبی آواز نہ آنے دیں مخالف سوچ کی کوئی تحریر نہ پڑھیں نہ کسی کو تنقید کی اجازت دیں اگر واقعی ایسا ہو گیا تو یہ ریاست اور سماج کی مکمل تباہی کی نشانی ہو گی۔
پہلے سیاست، صحافت اور سماج میں احترام ہوتا تھا اپنوں کے لئے احترام، غیروں کے لئے احترام، اب اپنوں کے لئے بھی مذمت ہے اور غیروںکے لئے تو دشنام طرازی ،جیسے لازم ہو گئی ہے۔ ایسے میں کوئی اختلاف رائے کرے تو کیسے ؟ یاد رکھئے جس معاشرے میں اختلاف نہ ہو وہ مردہ معاشرہ ہوتا ہے، وہ ایسا قبرستان ہو تا ہے جہاں کوئی آواز نہیں آتی۔ جہاں اختلاف رائے کی رحمت نہیں برستی۔ کیا ہم معاشرے کو مردہ اور سیاست کو قبرستان بنانا چاہتے ہیں ؟کیا ایسا ہی ہے تو پھر قلم کی ضرورت ہی کیا ہے آئیے قلم توڑیں اور آزار بند سے کام چلائیں۔
کہا جاتا ہے کہ دنیا کے بہترین المیہ ڈرامے خوشحال ادوار میں اور بہترین طربیہ ڈرامے اور مزاحیہ ادب گھٹن زدہ ماحول اور آمرانہ ادوار میں لکھے گئے جنرل ضیاءالحق کے دور میں لطائف اور کامیڈی اسٹیج ڈرامہ اپنے عروج پر تھا آمرانہ ادوار میں باغی پیدا ہوتے ہیں اور ہمارے آج جیسے ماحول میں ادب، شاعری، سیاست، صحافت اور اشخاص سب ہیغیر متعلق ہو جاتا ہے۔ نفسا نفسی پیدا ہو جاتی ہے سچ اور جھوٹ کی پہچان اور تمیز ختم ہو جاتی ہے، اپنے ہمدرد بھی دشمن لگتے ہیں، ہر محب وطن پر غداری کا شبہ ہوتا ہے، ایمانداری پر یقین ختم ہو جاتا ہےبلکہ ہر ایک ہی بے ایمان لگنا شروع ہو جاتا ہے ۔ایسے حالات میں قلم، کیمرہ اور برش بھی کام نہیں کرتا لفظ اور اعمال دونوں اپنی کشش کھو بیٹھتے ہیں۔ میں اپنے گریبان میں جھانکتا ہوں تو مجھے انسانیت پر بھی شبہ ہونے لگتا ہے شاید ہم سب ہی کنفیوژن سنڈروم کا شکار ہیں اس لئے قلم توڑنے کو جی چاہتا ہے ۔
مگر یہ مسائل کا حل نہیں ہے قلم توڑنے یا کسی کا دل توڑنے سے مسئلے حل نہیں ہونگے بلکہ بڑھیں گے پابندیاں آزادی کے راستے بند نہیں کرتیں بلکہ ہوا بند کرکے ایسی گھٹن پیدا کرتی ہیں جو بالآخر بغاوت پر منتج ہوتی ہے ہاں اگر کھڑکیاں دروازے کھلے ہوں ہوا آتی جاتی رہے تو بغاوت کا خطرہ نہیں رہتا۔ شوروغوغا ہوتا ہے ہنگامہ جاری رہتا ہے مگر کوئی بڑی بغاوت نہیں ہوتی اسی لئے قلم ٹوٹنے سے بچائیں ،معاشرہ بندگلی سے نکلے آنکھیں اور کان کھولے دوسروں کو بھی سنے ،شک کرنا بند کرے وگرنہ کل وہ بھی شک کا نشانہ بنے گا آج قلم توڑا جائے گا تو کل کی داستانیں خون آلود ہوں گی۔

تازہ ترین