• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج صبح میں گھر سے نکلا تو موڈ بہت خوشگوار تھا۔ایک پوش کالونی کے گھروں کے سامنے رنگ برنگے پھولوں کی کیاریاں تھیں۔ اس کے علاوہ گرین بیلٹ بھی پھولوں سے لدی پڑی تھی۔ موسم بہار اپنے پورے جوبن پر تھا سو ہوا میں بھی خمار کی کیفیت تھی، چنانچہ میں جو کچھ دنوں سے پژمردہ سا تھا، مجھے اپنے دل کی کلی کھلتی محسوس ہوئی، میں بھول گیا کہ درمیان والا سامنے کا دانت ڈاکٹر نکال چکے ہیں، چنانچہ جب میں نے سرشاری کے عالم میں سیٹی پر کوئی دھن بجانے کی کوشش کی تو صرف ہوا کے اخراج پہ مجھے سخت مایوسی ہوئی اور میں نے محسوس کیا کہ کھانے کے علاوہ محض دکھانے کے دانت بھی منہ میں موجود ہوں تو وہ بھی بوقت ضرورت کام آتے ہیں۔ میں اس آلودگی سے پاک ماحول کو اپنے سینے میں اتارنا چاہتا تھا، چنانچہ میں اپنے دوست مسعود علی خان کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے لمبے لمبے سانس لینا شروع کئے۔ ابھی میں نے یہ عمل پانچ چھ مرتبہ ہی دھرایا تھا کہ میرے ایک ہمسایہ مایوس خیالی میری طرف دوڑتے ہوئے آئے اور بہت پریشانی کے عالم میں مجھے دونوں ہاتھوں سے تھامتے ہوئے کہا’’خیر تو ہے؟‘‘
میں نے ہنستے ہوئے جواب دیا’’الحمد للہ ! میں خیریت سے ہوں اور آپ کی خیریت خداوند کریم سے نیک مطلوب ہے‘‘۔
اس پر مایوس خیالی سخت تشویش کے عالم میں بولے ’’مجھ سے چھپانے کی کوشش نہ کرو، یہ جو تم لمبے لمبے سانس لے رہے ہو یہ کوئی ا چھی علامت نہیں ہے۔‘‘
میں ایک بار پھر ہنسا اور کہا’’مایوس صاحب! آپ کیوں پریشان ہورہے ہیں۔‘‘
’’میں نے آپ کو بتایا کہ میں بالکل ٹھیک ہوں اور جو لمبے لمبے سانس لے رہا ہوں دنیا کے تمام ڈاکٹر اس بات پر متفق ہیں کہ صاف ہوا میں لمبے سانس لینے سے پھیپھڑوں کو تقویت ملتی ہے۔‘‘
فرمایا’’یہ تو میں بھی جانتا ہوں لیکن تم جس طرح سانس لے رہے تھے وہ صحت کے لئے نہیں بیماری کے سانس تھے۔ اب بہانے نہ بنائو فوراً میرے ساتھ چلو، میں تمہیں کسی ڈاکٹر کو دکھاتا ہوں‘‘۔
میں جانتا تھا مایوس خیالی اب اس وقت تک میرا پیچھا نہیں چھوڑیں گے جب تک میں اپنی صحت کے بارے میں ان سے بھی ز یادہ مایوسی کا اظہار نہیں کرتا ،چنانچہ میں نے وقت بچانے کے لئے ان سے بحث مناسب نہ سمجھی اور کہا’’میرے خیال میں آپ صحیح کہتے ہیں، میں انشاء اللہ آج ہی کسی ڈاکٹر کو دکھائوں گا۔‘‘
بولے’’یہ ہوئی نا بات، لیکن میں تمہارا دوست ہوں، میں ان پریشانی کے لمحات میں تمہیں تنہا نہیں چھوڑوں گا۔ مجھے اگرچہ آج بہت کام ہیں لیکن میں وہ سب چھوڑ رہا ہوں اور اب سارا دن تمہارے ساتھ گزاروں گا تاکہ تمہیں ایمرجنسی میں ا سپتال جانا پڑے تو کوئی تو تمہارے ساتھ ہو۔‘‘
یہ کہتے ہوئے وہ مجھ سے پہلے کار میں بیٹھ گئے جو میں نے کچھ فاصلے پر کھڑی کی ہوئی تھی۔ بادل نخواستہ مجھے بھی گاڑی میں بیٹھ کر ڈرائیور کو ہدایت کرنا پڑی کہ وہ دفتر کی طرف چلے ابھی ہم ٹھوکر نیاز بیگ تک ہی پہنچے تھے کہ میری بدقسمتی نے مجھے ایک چھینک کی صورت میں آن لیا۔ بس اس چھینک کا آنا تھا کہ مایوس خیالی کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ میرے ڈرائیور کو گاڑی روکنے کا حکم دیا۔ اس نے تعمیل ارشاد میں گاڑی ایک سائیڈ پر لگادی۔ میں نے حضرت مایوس سے کہا’’اگر آپ نے گاڑی حاجت روائی کے لئے رکوائی ہے تو یہ جگہ مناسب نہیں ہے۔ خواتین پاس سے گزررہی ہیں تھوڑی دیر صبر کریں۔ ہم بیس منٹ تک دفتر پہنچ جائیں گے وہاں باتھ روم موجود ہے۔‘‘
ناراضگی کے عالم میں بولے’’لعنت ہے تم پر، میں تمہاری چھینک کی وجہ سے پریشان ہوا ہوں۔ تمہاری حالت بہت تشویشناک ہے۔ پہلے تمہیں سانس لینے میں تکلیف ہورہی تھی اور تم کھینچ کر سانس لے رہے تھے۔ اب چھینکیں بھی آنا شروع ہوگئی ہیں۔ خدا کے لئے میری مانو، یہ سامنےاسپتال ہے دفتر جانے سے پہلے وہاں ڈاکٹر کو دکھاتے ہیں!‘‘
میں نے ان کی سنی ان سنی کرتے ہوئے ڈرائیور کو گاڑی چلانے کو کہا اور مایوس خیالی کو مخاطب کرکے عرض کی’’بھائی صاحب! آپ مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں اور خدا کے لئے میری طرف سے پریشان نہ ہوں۔ میں بالکل ٹھیک ہوں‘‘۔
اس پر انہوں نے برا سا منہ بنایا اور بولے ’’بھلائی کا تو زمانہ ہی نہیں ہے لیکن تم مجھ سے چاہے ناراض ہو یا خوش میں تمہاری گرتی ہوئی صحت کی طرف سے آنکھیں بند نہیں کرسکتا‘‘ اور انہوں نے واقعی اپنی آنکھیں بند نہیں کیں بلکہ اپنی پریشان نظریں میرے چہرے پر مستقل جمائے رکھیں۔ انہیں غالباً یقین تھا کہ آنے والے چند لمحوں میں میرے حوالے سے کوئی’’بریکنگ نیوز‘‘ آنے والی ہے۔
دفتر کے تمام راستے میں نے اپنی پوری توانائیاں اس کوشش کے لئے وقف کردیں کہ مجھ سے کوئی ’’غیر معمولی‘‘ حرکت سرزد نہ ہوپائے اور میں نے احتیاطً ہر معمولی حرکت کو بھی غیر معمولی حرکات میں شامل کرلیا تھا۔ سو اللہ کا شکر ہے کہ میں دفتر تک ’’بخیریت‘‘ پہنچ گیا۔ میں صبح بھاری بھرکم ناشتہ کرکے گھر سے نکلا تھا ،چنانچہ میں نے چھینک تو کیا، وہ ڈکار بھی بڑی مشکل سے روکے رکھا جو ناشتے کی رسید کے طور پر باہر آنا چاہتا تھا لیکن میری بدقسمتی کہ گاڑی سے اتر کر دفتر کی طرف جاتے ہوئے ایک کیلے کے چھلکے پر میرا پائوں پھسلا پیشتر اس کے کہ میں زمین پر گرتا مایوس خیالی نے مجھے دونوں ہاتھوں سے تھام لیا مگر اس کے بعد ان کی حالت غیر ہوگئی۔ مجھے لگا وہ کسی گہرے صدمے کی زد میں ہیں، چنانچہ میں گھبرا گیا۔
میں نے پریشانی کے عالم میں پوچھا’’آپ ٹھیک تو ہیں؟‘‘
وہ بہت نروس نظر آرہے تھے، بولے’’میں تو بالکل ٹھیک ہوں تم ٹھیک ہو؟‘‘
میں نے جواب دیا’’مجھے کیا ہوا ہے، میں ہر لحاظ سے بخیریت ہوں‘‘۔
کہنے لگے’’نہیں تم ٹھیک نہیں ہو، تمہیں چکر آیا ہے اور تم گرتے گرتے بچے۔ یہ ا نتہائی خطرناک علامت ہے اب میں تمہاری ایک نہیں سنوں گا۔ دفتر میں داخل ہونے کی ضرورت نہیں، یہاں سے سیدھا ڈاکٹر کی طرف چلو‘‘۔ اس مرتبہ میں نے انہیں بہت محبت سے سمجھایا کہ مجھے دفتر میں بہت ضروری کام نمٹانے ہیں لہٰذا اب آپ گھر جائیں، میں کل ڈاکٹر کو ضرور دکھائوں گا لیکن ان پر میری کسی بات کا اثر نہ ہوا۔ وہ نہ صرف یہ کہ میرے ساتھ دفتر میں چلے آئے بلکہ میری کرسی کے ساتھ اپنی کرسی جما کر بیٹھ گئے اور اپنی نظریں مستقل مجھ پر مرکوز رکھیں۔
اب اسے آپ اتفاق ہی کہہ سکتے ہیں کہ ملازم جب چائے اور بسکٹ لے کر آیا تو غلطی سے میرا ہاتھ ٹرے پر لگ گیا جس سے سب ’’سازوسامان‘‘ فرش پر گرگیا۔ اسی طرح ایک فون نمبر ملانے کی کوشش کرتے ہوئے میں نے دوسری طرف سے’’رانگ نمبر‘‘ کی آواز سنی تو اپنے ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہیں غلطی سے کہہ بیٹھا’’بس حافظہ کمزور ہوگیا ہے‘‘ اسی طرح کے دو تین اور واقعات ہوئے جس پر مایوس خیالی کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا اور انہوں نے زبردستی مجھے میری نشست سے اٹھایا اور دھکیلتے ہوئے گاڑی کی طرف لے گئے اور میرے ڈرائیور کو ایک نامی گرامی امپورٹڈ ڈاکٹر کی طرف چلنے کے لئے کہا۔ ڈاکٹر نے میرے دل، دماغ، پھیپھڑوں، جگر، معدے اور خون کے بے شمار ٹیسٹ، سی ٹی اسکین الٹرا سائونڈ اور ایکسرے لکھ کر دئیے ہیں اور مایوس خیالی بضد ہیں کہ میں یہ سب ٹیسٹ کرائوں۔‘‘
مجھے مایوس خیالی کی محبت اور خلوص پر کوئی شبہ نہیں لیکن میں جانتا ہوں جو جسمانی عوارض حقیقی طور پر مجھے لاحق ہیں، چنانچہ میں ان کی طرف سے لاپرواہی نہیں برتتا تاہم ایک بیماری ایسی ہے جس سے میں تاحال محفوظ ہوں اور اس بیماری کا نام مایوسی ہے۔ مسائل خود کو بھی پیش آتے ہیں اور قوموں کو بھی۔ مایوس ہو کر ہیجان کا شکار ہونے والے کسی منزل تک نہیں پہنچ سکتے۔ ہماری ساری توجہ اصل بیماریوں اور ان کے تدارک پر مرکوز ہونا چاہئے اگر ہم محض توہمات کو حقیقت سمجھ کر لرزہ براندام رہے تو اس کے نتیجے میں بھی وہی بربادی افراد اور قوموں کا مقدر بنتی ہے جو مسائل سے اغماض برت کر سمجھتے ہیں کہ وہ مسائل کو ٹالنے میں کامیاب ہوگئے ہیں حالانکہ بقول حبیب جالب؎
مسائل ایسے سائل ہیں جو ٹالے سے نہیں ٹلتے
یہ بات جہاں خوش فہم لوگوں کو سمجھانے کی ہے وہاں حضرت مایوس خیالی کے سمجھنے کی بھی ہے مگر یہ دونوں طبقے کب کسی کی سنتے ہیں؟

تازہ ترین