• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی تڑی کھجور میں اڑی
وزیر خارجہ خواجہ آصف، امریکی وزیر دفاع کا کوئی تڑی والا پیغام نہیں آیا۔ بندوق اور گارڈز رکھنے کے کلچر سے عوام میں خوف و ہراس:تجزیہ کار شاہ زیب خانزادہ۔ سیالکوٹی وزیر خارجہ نے خالص لاہوری اسٹائل میں امریکی وزیر دفاع کو ڈیل کیا، امریکی تڑی خلاف معمول کھجور میں اڑی رہ گئی۔ البتہ انہوں نے بصد ادب خواجہ صاحب سے اتنا ضرور کہا، دہشت گردوں کے خلاف کوششیں دگنا کر دیں، اور ہمارے عباسی وزیراعظم نے حساب برابر کرتے ہوئے فرما دیا۔ شراکت داری بڑھانا ہو گی، امریکی وزیر دفاع ہمیں تو ٹینک کا ایک پرزہ دینے پر آمادہ نہیں، اور بھارت کو خطے کی سپر فوجی طاقت بنانے کے لئے ہتھیار فراہم کرنے کے لئے اپنا پورا باڑا کھول دیا تاکہ وہ مقبوضہ کشمیر میں کھلے دل سے ریاستی دہشت گردی کر سکے، آرمی چیف نے کہا:بھارت کا افغان سرزمین، پاکستان کے خلاف استعمال کرنا قابل تشویش ہے، اب وقت آ گیا ہے کہ امریکہ خطے میں دہشت گردوں کی سرپرستی پر بھارت سے دن میں 10بار کہے ڈونٹ ڈومور اور وہ جو ہمیں ڈو مور کہتا رہا ہے اسے پڑ گئے ہیں مور، کیا امریکی وزیر دفاع کو خبر نہیں کہ بھارت افغانستان میں بیٹھ کر اس کے حالات درست کرنے کے بجائے پاکستان کو تباہ کرنے کی پے در پے کارروائیاں کر رہا ہے، اور خود انکل سام کی بھی حمایت حاصل ہے، امریکہ کو اسٹرٹیجک حوالے سے پاکستان سے بنا کر رکھنے کی کوشش کرنا چاہئے، چہ جائیکہ وہ بھارت کو پورے خطے کے لئے خطرناک بنائے، کچھ اپنی ادائوں پر بھی دنیا کی واحد سپر پاور جسے پاکستان نے یہ مقام دیا، غور کرے، آج کی دنیا اگر اختلاف کی طرف جائے گی اور بات چیت سے گریز کرے گی تو خود اپنے خنجر سے خود کشی کرے گی۔ یہ بات امریکہ بھارت کو دبائو ڈال کر سمجھائے کہ وہ پاکستان میں دہشت گردی کرانے سے باز آئے، کشمیر میں ظلم و ستم بند کرے اور خطے کے لئے ہولناک مسئلہ کشمیر مذاکرات کی میز پر حل کرنے کا سامان کرے، امریکی وزیر دفاع ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی امن پسندوں کی خواہش سے آگاہ کریں کہ رویوں میں شدت ہی دہشت کو جنم دیتی ہے۔
٭٭٭٭
کل کے حلیف آج کے حریف
سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے گاڈ فادر نے ملک کو کنگال کر دیا، خواہش ہے یہ عبوری حکومت سے پہلے جائیں، جعلی خان کو عقل نہیں، جبکہ بلاول بھٹو کہتے ہیں سیاست اور مذہب کا گٹھ جوڑ نہیں، پریڈ گرائونڈ کے جلسے میں باپ بیٹے نے جو کہا وہ اب تینوں بڑی پارٹیوں کے بارے کہا جا سکتا ہے، اس لئے سب اپنا اپنا منشور پیش کریں قوم کو قائل کریں کیونکہ وہ بہت بدگمان ہو چکی ہے، محض طعنے دینے الزام دھرنے اور مشترکہ غلطیوں کا ذمہ دار کسی ایک کو اپنے علاوہ ٹھہرانے سے پرہیز کریں، ورنہ ہماری جمہوریت، سیاست اور اخلاقیات راستہ بھول جائے گی، لوگ بحیثیت اپوزیشن ن لیگ سے میثاق نہ کیا جاتا تو آج یہ اعتراف نہ کرنا پڑتا زرداری صاحب کو کہ دو مرتبہ بچایا آئندہ نہیں بچائیں گے، بلاول نے سیاست کو مسلمان کرنے کے بجائے یہ کہہ دیا کہ سیاست اور مذہب کا گٹھ جوڑ نہیں مانتے، وہ شاید ابھی نوآموز ہیں نہیں جانتے کہ انہوں نے گویا یہ کہہ دیا کہ اسلام اور سیاست کا ملاپ نہیں مانتے اس طرح تو پاکستان ایک سیکولر ریاست بن جائے گی، جبکہ ایسا ہوتا تو پاکستان وجود ہی میں نہ آتا، اس کی اساس اسلام ہے، اور اسلامی نظریہ سیاست ہی اس کا محور، مذہب کو ذاتی مفاد کے لئے استعمال کرنا اور اس پر سیاست کرنا ہمارے بنیادی نظریئے کے خلاف ہے، اور جہاں تک خان کے جعلی ہونے کا تعلق ہے تو انہیں جعلی سیاستدان کا الزام دینا سیاسی ہے انہیں جعلی خان کہنا ذاتیات پر حملہ ہے، اب یہ خان، سندھی، پنجابی، بلوچی کے بھنور سے نکل آنا چاہئے، الزام برائے الزام کوئی سیاست نہیں۔
کیا کوئی اچھی خبر بھی ہے؟
ہاں کیوں نہیں؟ جب یہ ساری بری خبروں کے اسباب کچھ کم ہوں گے تو کوئی نمکین سی خبر بھی آئے گی، سردست تو ہمیں اس کے لئے راستہ ہی ہموار کرنا ہو گا، جب غالبؔ نے کہا تھا ’’چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسدؔ‘‘ تو ان کے اردگرد بھی واہی تباہی خبروں کا اژدھام تھا، تب ان کو ایک ہی راستہ نظر آیا کہ کسی حسین کو نہایت علمی انداز میں چھیڑا جائے کہ وہ بجائے اپنا جوتا اتارنے کے ہونٹوں پر نہ سہی آنکھوں ہی میں ہلکی سی مسکراہٹ اتارے بہرحال ہمیں حسن اخلاق، حسن انسان اور حسن طلب اپنانا ہو گا پھر ممکن ہے کوئی اچھی خبر نکل آئے، اب تو یہ عالم ہے کہ؎
سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے
اب اہل جنوں بھی نہیں ملتے کہ عقل بہت عیار ہو گئی ہے، شاید وہ ڈرتے ہیں کہ طفل مزاج نابغے انہیں پتھر نہ ماریں؎
میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسدؔ
سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا
مزاج بھی اب اس قدر اخلاقی افلاس کا شکار ہو چکے ہیں کہ خوشی کی حس ہی مر چکی ہے، اور ہر شخص کسی خوفناک خبر کو دوسرے تک پہنچانے میں خوشی محسوس کرتا ہے، اب تو کڑوے سچ کی جگہ میٹھا جھوٹ اچھا لگنے لگا ہے، پہلے کسی کا حسین مکان دیکھ کر خوشی ہوتی تھی اب حسد ہونے لگتا ہے، بہرحال توہین حسن سے پرہیز لازم ہے اور یہ کہ؎
چاہئے اچھوں کو جتنا چاہئے
یہ اگر چاہیں تو پھر کیا چاہئے
٭٭٭٭
معمہ ؟
....Oآصف زرداری:نواز شریف کا جعلی مینڈیٹ 2بار بچایا، اب اپنی جمہوریت بچائیں گے،
ہر سیاست دان کی اپنی جمہوریت ہے، اصل جمہوریت کہاں ہے؟
....Oنواز شریف:پاکستان میں ایک ڈکٹیٹر سمیت 4سے 5لوگ ایسے ہیں جو وزیراعظم ہی کو آ کر پکڑتے ہیں۔
یہ معمہ ہے سلجھنے کا نہ سلجھانے کا
کوئی سلجھائے کہ ہم سلجھائیں کیا
....Oعمران خان:شہباز شریف، رانا ثناء اللہ، سانحہ ماڈل ٹائون کے ذمہ دار ہیں۔
تحقیقی رپورٹ میں تو کسی کا نام نہیں صرف کام ہے۔

تازہ ترین