• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زندگی کے تحفظ اور حقوق کا امین نظام سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ معاشرے نظام کی بنیادوں پر استوار ہوتے اور پھلتے پھولتے ہیں۔ نظام کا مطلب نظم و ضبط کے دائرہ کار میں رہ کر کام کرنا ہے۔ نظام کروڑوں افراد کی مختلف اداروں کے تحت شیرازہ بندی ہے۔ نظام ایک جالی کی طرح ہے جس میں کسی بھی سمت سے چھید پڑ جائے تو شیرازہ بکھر جاتا ہے۔ سوائے خوشبو کے ہر بکھر جانے والی چیز کمزور ہو جاتی ہے کیوں کہ طاقت کا مرکز گم ہو جاتا ہے اور صلاحیتیں تنکوں کی طرح پائوں تلے مسلی جاتی ہیں۔ معاملات کا ادراک ہوتا ہے مگر تدبیر کرنے والے ذہن اُلجھ جاتے ہیں۔ پاکستان کے قیام سے آج تک کی تمام ناکامیوں کا سبب بار بار نظام کی دیوار میں نقب لگا کر اس کی بنیادیں ہلانا ہے۔ اس کے اسباب کبھی بھی وہ نہیں تھے جو بتائے جاتے رہے یا تاریخ میں درج کرائے گئے۔ ہم تو وہ لوگ ہیں جن پر ایک عشرے کے بعد چال چلنے والوں کی نیت عیاں ہوتی ہے تو اصل حقیقت کا علم ہوتا ہے کہ کس طرح حالات کا رُخ اپنی منشا کے مطابق موڑنے کے لئے خاص و عام کو استعمال کیا گیا۔ حقیقت کا جو چہرہ دکھایا گیا وہ تو وجود ہی نہیں رکھتا تھا۔ سو ہر دس بارہ سال بعد ایک نئی صورت حال پرانی کے چہرے سے نقاب ہٹا کر ہمیں ہماری غلطیوں پر ماتم کرنے پر اُکساتی ہے۔ آج کل ملک کا ہر ادارہ، ہر جماعت بلکہ ہر فرد عجیب کشمکش کا شکار ہے۔ سب جانتے ہیں کہ بقاریاست کی برتری اور اختیار میں ہے اس کے باوجود ہر کوئی اپنی اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی فکر میں ہے۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ تبدیلی وقوع پذیر ہوتی ہے مگر کچھ لوگوں کی سوئی ایک ہی مقام پر رُک گئی ہے۔ رُک جانا جمود کی علامت ہے اور جمود ہمیشہ تنزلی کا باعث بنتا ہے۔
اگر آج ہم پاکستان میں جمہوریت کے تسلسل میں رکاوٹوں پر نگاہ کریں تو اس میں نظام کی بجائے شخصیات کی آمریت کا عمل دخل ہے۔ جمہوریت پر یقین رکھنے والے کئی ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جہاں ایک دورِ حکومت میں کئی وزرائے اعظم بدلتے رہے ہیں جس کی وجہ سے جمہوریت ڈی ریل نہیں ہوتی اور نہ ہی آمرانہ قوتوں کو اسباب مہیا ہوتے ہیں۔ وزیراعظم سب سے بڑا عہدہ ہوتا ہے۔ میاں نواز شریف خوش قسمت ہیں کہ انہیں تین بار اس عہدے پر فائز ہونے کا موقع ملا۔ مدت ایک سال ہو، دو سال ہو یا چار سال بات عہدے، توقیر اور مقامِ شکر کی ہے۔ اب جب کہ ان کی مشاورت اور منشاء سے انہی کی پارٹی کے ایک وزیر کو وزیراعظم بنا دیا گیا ہے تو ٹکرائو کی سیاست ترک کر کے اگلے الیکشن کی طرف بڑھنا ضروری ہے۔ امریکہ اور بھارت جیسے بڑے جمہوری ملکوں میں خاندانوں کی حکومت رہی ہے۔ منتخب ہو کر آنا اور سب سے بڑے عہدے پر فائز ہونے میں کوئی برائی نہیں۔ میاں صاحب سے گزارش ہے کہ وہ اس وقت بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی ذات کو منہا کر کے جمہوریت اور ریاست کی بقاء کے لئے سوچیں۔ اس وقت جب پاکستان مختلف خطرات میں گھرا ہوا ہے ،آپس کا ٹکرائو اسے مزید غیر مستحکم کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ ماضی کو بھول کر روشن مستقبل کو خوش آمدید کہنے کے لئے انتخابات کی تیاری کا وقت ہے جس کے لئے اپنی کارکردگی کی لسٹ لے کرعوام کے پاس جانا ہو گا۔ جو ہو گیا اُسے کتنی دیر پیٹیں گے۔ اگر ہم اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ سے آئیڈیل صورت حال کی توقع کرتے ہیں تو کیا سیاست دانوں کی کارکردگی بھی آئیڈیل تصور کی جا سکتی ہے؟ جمہوریت کو پنپنے میں ابھی کئی سال لگیں گے اس کے لئے اس کا تسلسل بہت ضروری ہے۔ کسی خاص فرد کی حکومت لازم نہیں اور نہ ہی یہ جمہوریت کے بنیادی اصولوں کی پاسدار ہے۔ اگر اسی کو لے کر چلنا ہے تو پھر یہ بھی ایک قسم کی آمریت ہے، جمہوریت ہر گز نہیں کیوں کہ جماعتوں میں فرد کی بجائے مجموعی طاقت اہم تصور کی جاتی ہے۔ میاں نواز شریف ہوں یا خاقان عباسی حکومت تو مسلم لیگ (ن) کی ہی ہے۔ اس لئے اگر سیاست دان یہ چاہتے ہیں کہ اس ملک میں جمہوریت پھلے پھولے تو ابھی انہیں کچھ اور قربانیاں دینی ہوں گی، کچھ اور سمجھوتے کرنے ہوں گے۔ ترکی کی جمہوریت کی مثال دی جاتی ہے تو ترکی کی ترقی اور قرضوں سے نجات کو بھی مدنظر رکھنا ہو گا۔ اپنے اثاثے ملک میں منتقل کرنے ہوں گے۔ بے شک ان کی محنت کی کمائی ہو مگر سرمایہ کاری ملک میں ہو، لوگوں کو روزگار ملے، انہیں بنیادی حقوق مہیا ہوں تو وہ ووٹ کے ساتھ ساتھ اس کی حفاظت کے لئے بھی متحرک ہوں گے ورنہ سیاسی جماعتوں اور اداروں کی جنگ جمہور کو جمہوریت سے متنفر کر دے گی۔ سی پیک اور جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر دنیا ہمارا نقشہ بگاڑنے کے درپے ہے اور ہم مائنس ون کو رو رہے ہیں۔ ایسی صورت میں فوج اور سیاست دانوں کا ایک پیج پر ہونا بہت ضروری ہے۔ عدالتی فیصلے کے محرکات جو بھی ہوں اس کے بعد مارشل لا تو نہیں لگا، کسی کی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی، جمہوری حکومت قائم ہے تو اسے قائم رہنے دیا جائے۔ اگر پارٹی رہنما کے لئے ترمیم نہ کی جاتی تو شاید دھرنے جیسے حالات کا سامنا نہ کرنا پڑتا اور دنیا ہماری عقل کا تماشہ نہ بناتی۔ تاہم وزیر اعلیٰ پنجاب نے شروع میں ہی متعلقہ وزیر کے استعفے کا مطالبہ کر کے معاملات کو سنوارنے کا عندیہ دیا تھا مگر ڈٹ جانے کا مشورہ دینے والوں نے دھرنے کے معاشی اور سیاسی نقصانات کے بعد اس پر عمل کرنے کی مہر لگائی۔ بہرحال جب تک سیاست دان اپنی خامیوں پر قابو نہیں پا لیتے تب تک وہ کسی دوسرے ادارے کی غلطی کو جواز بنا کر اپنی غلطیوں کو جائز قرار نہیں دے سکتے۔ ایوب خان ، ضیاء الحق، مشرف، ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر اور نواز شریف کو ایک کسوٹی پر نہیں پرکھا جا سکتا۔ جو رہنما لوگوں کے ووٹ سے منتخب ہو کر آتے ہیں وہ عوام کو جواب دہ بھی ہوتے ہیں جب کہ اقتدار پر قبضہ کرنے والے جواب دہی سے مبرا تو نہیں ہوتے لیکن وہ اس عمل کی اجازت ہی نہیں دیتے اس لئے وقت کا تقاضہ ہے کہ ملک کے مفاد کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے جمہوریت کے ہاتھ مضبوط کئے جائیں۔ مائنس ون اور مائنس ٹو کے فارمولے کی تکرار کو ترک کر کے آگے بڑھا جائے۔
تاریخ شاہد ہے کہ آج تک پوری دنیا میں کسی بھی جمہوری دورِ حکومت میں کوئی ملک نہیں ٹوٹا۔ جمہوریت لوگوں کو اظہار کا موقع دیتی ہے، مسائل کے حل کی طرف توجہ دلاتی ہے، مشاورت پر یقین رکھتی ہے، دوسروں کی رائے کا احترام کرتی ہے، کسی ایک فرد کو عقلِ کُل بننے کی اجازت نہیں دیتی بلکہ اکثریت کے مشورے سے فیصلے کرتی ہے اس لئے جمہوریت میں لوگ ریاست سے جڑے رہتے ہیں کیوں کہ اس حکومت کو وہ اپنی حکومت قرار دیتے ہیں جب کہ آمرانہ ادوار میں جہاں اظہار پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے وہیں حکومت اور عوام کے درمیان ایک گہری خلیج حائل ہو جاتی ہے۔ لوگ جمہوری حکومت کو برا بھلا کہہ سکتے ہیں، تنقید کر سکتے ہیں لیکن کسی آمر کے خلاف نہ بول سکنے کی اذیت انہیں ریاست سے دور لے جاتی ہے۔ ہر روز کوئی نہ کوئی نیا بکھیڑا معاملات کو بگاڑ کی طرف لے جا رہا ہے۔ الیکشن تک حکومت کا قائم رہنا بہت ضروری ہے اور یہ حکومت کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ وہ مقابلے کی بجائے التواء کا شکار منصوبوں کو مکمل کرنے پر توجہ مرکوز کرے تو حالات سنور سکتے ہیں۔ خدارا! جمہوریت کو چلنے دیں۔

تازہ ترین