• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں بسنے والے مٹھی بھر لبرلز (Liberals) یا روشن خیال لوگ اِن دنوں دارالحکومت اسلام آباد کے سیاسی ماحول کے خدوخال وضع کرنے والوں کا بظاہر سب سے بڑا ہدف ہیں۔ شہر میں تین ہفتوں تک کاروبار زندگی مفلوج رکھنے والے دھرنے کے حامیوں کے فورا ًبعد عمران خان کا پاکستانی لبرلز پر براہ راست حملہ اِن نہتے اور کم یاب لبرلز کے لئے خبردار رہنے کا اعلان بھی ہوسکتا ہے۔
دورِ طالب علمی میں طلبہ تنظیموں کے رہنمائوں سے میل جول کے سبب لبرل(Liberal) اور رجعت پسند جیسی اصطلاحات پہلی بار سننے کو ملیں۔ انگزیزی کے لفظ لبرل کو اردو میں روشن خیال کہنے پر عمومی طور پر اتفاق پایا جاتا ہے اور لغت کے مطابق اپنے سے مختلف طرز زندگی اور مخالف نظریات کا احترام کرنے پر یقین رکھنے والا ہر فرد لبرل یا روشن خیال کہلایاجاسکتا ہے۔ لیکن لبرل ہونے کے دعویداروں سے مل کر ہمیشہ محسوس ہوا کہ یا تو روشن خیال کی تشریح میں کچھ ردوبدل درکار ہے یا پھر لبرل قرار دئیے جانے والوں کی شخصیت میں کچھ بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ لہٰذا اِس لفظ کے اصل مفہوم جاننے کی کوششیں برسوں جاری رہیں۔ کم و بیش چار عشرے اِسی کشمکش میں بیت گئے تب کہیں جا کر پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کا ایک تازہ بیان مشعل راہ ثابت ہوا اور یہ طویل کشمکش آخرکار تمام ہوئی!
خیال تھا کہ لغت میں درج تشریح پر پورا اترنے والے روشن خیال لوگوں کا پاکستان میں کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ لیکن چند روز قبل کپتان کا پاکستانی لبرلز (Liberals)کو نشانہ بنانا، اس سچائی کی نشانی ہے کہ پاکستان میں یہ طبقہ نہ صرف موجود ہے بلکہ اسلام آباد میں کچھ لوگ اِس طبقے سے پریشان اور خائف بھی ہیں۔ البتہ سوشل میڈیا کے ذریعے اس بیان پر اپنے رد عمل کا اظہار کرنے والے بیشتر روشن خیال پاکستانی بظاہر بے خبر تھے کہ عمران خان کا لبرلز پر حملہ اِن کے تازہ بیان تک محدود نہیں بلکہ لبرل مخالف پالیسی کپتان کی سیاسی مہم جوئی کا دیرینہ اور ناگزیر حصہ ہے۔
سال2012 میں ہندوستانی صحافی برکھا دَت کو ایک ٹیلیوژن انٹرویو دیتے ہوئے کپتان نے پاکستانی لبرلز کو فاشسٹ قرار دیا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف آپریشنز کو جرم قرار دیتے ہوئے انہوں نے انٹرویو میں کہا کہ پاکستان کا روشن خیال طبقہ اِن آپریشنز کی حمایت کرتا ہے۔ اس انٹرویو میں موجود بہت سے ڈھکے چھپے حقائق کو اب با آسانی سمجھا جا سکتا ہے جیسے یہ کہ انتہاپسندوں کے خلاف آپریشن غلط عمل ہے، ایک مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ و ہ آپریشنز میں مسلح افواج کے قابل قدر کردار کو تسلیم نہیں کرتے۔
یاد رہے کہ ایک بھارتی چینل پر نشر کئے گئے اس انٹرویو میں کپتان نے یہ انکشاف بھی کیا کہ وہ انتہاپسندوں کے خلاف آپریشن کے بجائے معاملات افہام و تفہیم سے حل کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ اِس بات سے اُن کی انتہاپسندوں کو قومی سیاسی دھارے میں شامل کرنے کی دیرینہ خواہش کا پتہ چل جاتا ہے۔ تضاد یہ ہے کہ دوسری جانب وہ کراچی میں ایک طویل اور بھرپور آپریشن پر یقین رکھتے ہیں اور یہاں زیرتحویل ہلاکتیں اور تشدد اِن کے لئے کسی طور تشویش کا باعث نہیں۔ لہٰذا یہ سوچنا کہ انتہاپسندوں کے خلاف آپریشن کی مخالفت وہ ممکنہ ہلاکتوں اور تشدد کے سبب کرتے ہیں، سراسر غلط ہے۔
کپتان کا لبرلز کے خلاف یہ تازہ بیان مذکورہ انٹرویو کا ایک خلاصہ تھا۔ انہوں نے پہلے لبرل ازم کی تاریخ اور مفہوم کو برطانوی جمہوریت کے تناظر میں بلا شبہ صحیح انداز میں بیان کیا لیکن پھر انہوں نے الزام لگا دیا کہ پاکستان کے لبرلز کو خون لگ گیا ہے کیونکہ لبرلز انتہاپسندوں کے خلاف فوجی آپریشنز کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ شاید یہی وہ مقام ہے جہاں کپتان کے دل میں انتہاپسندوں کے لئے ہمیشہ سے موجود ایک نرم گوشہ صاف نظر آنے لگتا ہے۔
اپنے تازہ بیان میںا ِن باتوں کو دہرانا ایک اشارہ ہے کہ کپتان کا بیان کردہ ’’لبرل ازم‘‘ صرف انتہاپسندوں سے بات چیت کے لئے حکومت پردبائو ڈالنے، اِن کے خلاف آپریشن کی مخالفت کرنے، دہشت گردوں کی خفیہ پناہ گاہوں پر ڈرون حملوں کی مذمت کرنے تک ہی محدود ہے۔ اِن کا خیال ہے کہ خون دراصل اُن پاکستانیوں کے منہ کو لگا ہے جو ملک کے ساٹھ ہزار سے زائد شہریوں کو مارنے والوں کو سزا دلوانا چاہتے ہیں اور جو ملک کے ہونہار طلبہ، معصوم بچوں، بوڑھوں، عورتوں اور آپریشنز میں حصہ لینے والے جوانوں کو دہشت گردی سے بچانا چاہتے ہیں۔ کپتان کے خیال میں اے پی ایس پشاور، داتا دربار لاہور، کراچی میں عبداللہ شاہ غازی کے مزار، جمرود کی مساجد، اے این پی چار سدہ کے دفتر، لاہور کے بازار اور کوئٹہ کی سٹی کورٹس اور اسپتالوں پر حملوں اور دھماکوں میں ملوث افراد انتہائی نیک اور پرامن لوگ ہیں اور ان کے منہ کو خون بالکل نہیں لگا ہوا ہے۔ اِن کا موقف ہے کہ کراچی اور کوئٹہ میں فرقہ وارانہ حملوں اور قتل عام میں ملوث افراد کے منہ کو خون نہیں لگا ہوا بلکہ امن کے لئے جدوجہد کرنے والے نہتے، پڑھے لکھے، روادار ی کے پاسدار، اپنے سے مختلف نظریات اور طرز زندگی بسر کرنے والوں کا احترام کرنے والے مٹھی بھر لبرلز یا روشن خیال پاکستانی ہی اصل دہشت گرد ہیں۔ اِن کا کہنا ہے کہ لال مسجد پر آپریشن سوات کی صورتحال کی خرابی کا باعث بنا۔ یعنی اِن کے خیال میں سوات کی جو بھی صورتحال رہی اس میں قصور دہشت گردوں کا نہیں بلکہ لال مسجد پر آپریشن کرنے والوں کا تھا۔
دوسری جانب بڑا مسئلہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر سرگرم کپتان کے بیان پر تنقید کرنے والے بیشتر لبرلز اس حقیقت سے ناواقف تھے کہ ان کا یہ تازہ بیان ان کے پانچ سال پرانے انٹرویو کا تسلسل اور ان کی مہم جوئی کا مستقل حصہ ہے۔ ماضی پر نظرڈالی جائے تو بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ پاکستانی لبرلز بلا شبہ اپنی ’’سیاسی درستی‘‘ کے باعث ملک کے تنگ نظر سیاست دانوں، مذہبی جماعتوں، انتہا پسند عناصر اور اسٹیبلشمنٹ میں موجود ان کے مٹھی بھر حامیوں کو ہمیشہ سے کھٹکتے رہے ہیں۔ ستم یہ کہ اِس روشن خیال طبقے کے پاس نہ تو تعداد ہے، نہ ہتھیار، نہ کوئی سیاسی پارٹی اور نہ ہی کوئی اور منظم پلیٹ فارم اور دوسری طرف اِس طبقے سے تعلق رکھنے والے بیشتر افراد کی تمام تر سیاسی، سماجی اور تحریکی سرگرمیاں عمومی طور پر گھریا دفتر میں بیٹھے بیٹھے سوشل میڈیا پر پیغامات کے تبادلوں تک محدودہیں۔ اس صورتحال کے باعث ملک میں ایک طرف سوشل میڈیا دیگر تمام ذرائع ابلاغ کے مقابلے میں کہیں زیادہ بے باک، چست اور آزاد نظر آتا ہے اور دوسری طرف، بیشتر لبرلز کے خاص طرز زندگی کے سبب اِن کی اِس بے باکی، چستی اور آزادی کے اثرات کا دائرہ انتہائی محدود رہتا ہے۔ البتہ گزشتہ چند ہفتوں میں جس انداز میں دارالحکومت کے سیاسی اور آئینی وقار، امن و عامہ کی صورتحال، اداروں کے تقدس اور ریاست کی رِٹ کو نقصان پہنچاہے، وہاں یہ توقع قائم کرنا جائز ہے کہ معاشرے کے ’’سیاسی طور پر درست‘‘ شہریوں کو اپنے گھروں اور دفاتر سے تھوڑا باہر آکر ایک منظم پلیٹ فارم کے تحت جدوجہد جاری رکھنا ہوگی، چاہے ’’سیاسی طور پر درست‘‘ ان شہریوں کی تعداد مٹھی بھر ہی کیوں نہ ہو، پاکستانی لبرلز کی طرح۔

تازہ ترین