• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ اس دور کی بات ہے جب کتابیں اور رسالے پڑھنے کا رواج تھا۔ میں کبھی کبھار بازار سے چند ادبی رسالے خریدنے جاتا تو بک ا سٹال پر ایک رسالہ نظر آتا جس میں سچی کہانیاں ہوتی تھیں۔ سچی کہانیوں سے مراد لوگوں کے مشاہدات پر مشتمل سچے واقعات اور عینی شاہدین کی بیان کردہ کہانیاں، ایک بار میں وہ رسالہ بھی خرید لایا۔ اس میں کئی متاثرکن واقعات تھے جن کے راویوں کا دعویٰ تھا کہ وہ ان کے عینی شاہد ہیں۔ رسالے کے اوراق الٹتے ہوئے ایک کہانی پر نظر پڑی تو میں نے اسے دلچسپی سے پڑھنا شروع کردیا۔ پڑھ چکا تو چند لمحے اس پر غور کرتا رہا اور پھر آج تک اس سچی کہانی کو بھلا نہیں سکا۔ زندگی کے تہہ در تہہ ، سبق آموز اور دلچسپ سفر میں اس سے ملتے جلتے کئی واقعات دیکھے جن سے ذہن میں ایک نقش بنتا چلا گیا جسے مشاہدات نے مزید گہرا کردیا۔حقیقت یہ ہے کہ اگر زندگی کے سفر میں آنکھیں کھلی رکھی جائیں، ذہن کی کھڑکیوں سے تازہ ہوا گزرتی رہے اور دل میں نرمی و گداز موجود ہو تو قدم قدم پہ ایسے واقعات سے پالا پڑتا ہے جو سبق کی صورت میں ذہن پر ایک پائیدار نقش چھوڑ جاتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ انسان سبق سے سبق حاصل کرے اور اسے عملی طور پر اپنا بھی لے لیکن ان سے معلومات میں اضانہ ہوتا ہے، انسان مزید سمجھدار ہوتا ہے یا فکری طور پر مزید بالغ ہوتا ہے، انسانی زندگی کے راز سمجھ میں آتے ہیں اور اولاد آدم کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
وہ کہانی قدرے طویل تھی اور عینی شاہد نے تفصیل سے بیان کی تھی لیکن تین چار دہائیوں کی گردنے میرے حافظے سے اس کہانی کی بہت سی تفصیلات دھندلا دی ہیں۔ موٹی سی بات کچھ یوں تھی کہ ایک گائوں میں ایک شخص نے طیش اور غصے میں آکر ایک نیک اور معصوم صفت انسان کو قتل کردیا۔مقتول نمازی پرہیز گار انسان تھا۔ قاتل کو اس پر کوئی شبہ تھا۔ اسے طیش میں آکر اور جذبات سے مغلوب ہو کر اسے قتل کردیا۔ جائے واردات سے بھاگنے کے لئے اسے اور کوئی سواری تو نہ ملی اور نہ ہی اس دور میں دور دراز دیہات میں سواریاں آسانی سے ملتی تھیں، چنانچہ اس نے ایک بائیسکل پکڑی اور گائوں کی چھوٹی سی کچی سڑک پر تیزی سے سائیکل چلاتا بھاگ گیا، تاکہ پولیس کے آنے سے قبل روپوش ہوجائے۔ اسی سڑک پر کچھ لوگ دوسری طرف سے پیدل چلتے دیہات کی طرف آرہے تھے جو اس مجرمانہ واردات سے بالکل لاعلم تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک شخص تیزی سے سائیکل چلاتا اور دھول اڑاتا آرہا ہے۔ اتنے میں ہوا میں ایک اڑتا ہوا سانپ نظر آیا، اس نے سائیکل سوار کے ماتھے پر ڈنگ مارا اور اڑ گیا۔ سائیکل سوار زمین پہ گرا۔ وہ لوگ بھاگ کر اس کے قریب آئے تو وہ موت کے منہ میں جارہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کی روح قفس عنصری سے اڑ گئی اور اب ان کے سامنے ایک میت پڑی تھی۔ انہوں نے سوچا کہ وہ جلدی سے گائوں والوں کو اطلاع دیں تاکہ وہ چارپائی لاکر میت کو لے جاسکیں۔ وہ گائوں میں پہنچے تو انہیں پتہ چلا کہ وہ شخص ایک دوسرے شخص کو قتل کرکے روپوش ہونے کے لئے گائوں سے فرار ہوا تھا۔
قدرت کا تہہ در تہہ تشکیل کردہ نظام نہایت دلچسپ مطالعہ ہے۔ میں نے زندگی بھر اس نظام کو گہری آنکھ سے مطالعہ کرنے اور سمجھنے کی کوشش کی اور نہایت بصیرت آموز پہلوئوں کا مشاہدہ کیا۔ مثلاً میرا مشاہدہ اور بار بار کا تجربہ ہے کہ خون ناحق ضرور بولتا ہے اور اسی دنیا میں حساب بیباق کرتا ہے۔ اگلے جہاں میں کیا ہوگا وہ تو ہم جاننے سے قاصر ہیں لیکن ہماری آنکھوں کے سامنے جو ہوتا ہے اسے سمجھا جاسکتا ہے۔ یہ ہرگز ضروری نہیں کہ جس شخص نے کسی کی جان لی ہے وہ فوری طور پر اس کا خمیازہ بھگتے اور اسے کوئی اڑتا سانپ ڈنگ مار کر ختم کردے لیکن انسانی زندگیوں کے چراغ بجھانے والے اور معصوموں کا خون بہانے والے کسی نہ کسی طرح اس کا حساب اسی جہان میں دے جاتے ہیں۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ انہیں اس مقدمے میں پھانسی کی سزا ملے جس کے وہ مرتکب ہوئے ہیں۔ بعض اوقات میں نے ایسے مجرموں کو کسی دوسرے مقدمے میں پھنستے یا دردناک غیر فطری موت مرتے دیکھا ہے۔ میں نے ا یسے واقعات بھی دیکھے ہیں کہ معصوم انسان کا قاتل اس مقدمے میں پیسے، اقتدار اور طاقت کے زور پر بچ نکلتا ہے لیکن کسی دوسرے مقدمے میں پھنس جاتا ہے جس میں وہ مجرم بھی نہیں ہوتا۔ معاف کیجئے میں نے بعض اوقات ایک نسل کے جرائم کی سزا دوسری نسل کو بھگتتے دیکھا ہے حالانکہ وہ بظاہر بے قصور تھے۔ سزا صرف قید و بند کی ہی سزا نہیں، سزا کی بہت سی صورتیں ہوتی ہیں لیکن میں اس گتھی کو سلجھانے کا ارادہ نہیں رکھتا کیونکہ یہ الجھی ہوئی داستان ہے جو بے شمار سوالات کو جنم دے گی۔ بہرحال قدرت کا نظام نہایت سبق آموز ہے اور زندگی کے بہت راز آشکارہ کرتا اور سمجھاتا ہے بشرطیکہ آپ کو تدبر کا مرض لاحق ہو، غور و فکر کی عادت ہو اور ظاہری معاملات کا پس منظر دیکھنے کی فرصت ہو۔
ایک بااثر اور خوشحال شخص کو میں نے جس طرح طویل عرصے تک ہر لمحے مرتے دیکھا اور ہر لمحے شدید درد اور اذیت میں مبتلا دیکھا، وہ منظر میں کبھی بھول نہیں سکتا۔ مجھے یقین ہے کہ بعض اوقات قدرت رسی کو بہت دراز کرکے آخرمیں عبرت کا سامان پیدا کرتی ہے اور ہمیں اپنے ’’کارناموں‘‘ کا انجام دکھاتی ہے لیکن انسان بنیادی طور پر غفلت میں رہتا ہے اس لئے عبرت حاصل نہیں کرتا۔ یہ بااثر اور خوشحال شخص ایک ایسے مرض میں مبتلا ہوگیا کہ اس کے جسم پر پھوڑے نکل آئے۔ وہ نہ پہلو بدل سکتا تھا اور نہ ہی سوسکتا تھا۔ ہزار علاج کرائے لیکن شفا نصیب میں نہیں تھی۔ وہ کئی برس اس حالت میں رہا اور نوبت ایں جارسید کہ خود اس کے گھر والے، اس کی بیوی اور بچے نہ صرف اس سے کنی کتراتے تھے بلکہ اس کی موت کی دعائیں مانگتے تھے۔ اسے مسلسل کئی برس تک اسی طرح ہر لمحہ مرتے دیکھ کر میں نے بہت سے بزرگوں سے یہ بار بار سنا کہ وہ شخص قیام پاکستان سے پہلے نمبردار تھا اور اس نے کئی اثر و رسوخ استعمال کرکے ایسے معصوم اور لاوارث بچوں کی زمینوں کا انتقال اپنے نام کروالیا تھا جن کے والدین بچپن میں ہی فوت ہوگئے تھے اور کئی ایسی بیوائوں کی زمینوں پر قبضہ کرلیا جو بے سہارا تھیں۔ یقین کیجئے بے بس اور مظلوم کی آہ آسمانوں سے گزر کر مالک حقیقی کے پاس پہنچ جاتی ہے اور ہر صورت اپنا اثر دکھاتی ہے۔ معصوم انسانوں کا خون، یتیم اور بیوہ کا کھایا ہوا مال اسی دنیا میں حساب مانگتا ہے اور رسی چاہے کتنی دراز ہوجائے، ایک دن اسی رسی کا پھندا کسی نہ کسی صورت گلے میں پڑجاتا ہے۔
آپ سوچیں گے میں آج کیا رام کہانی لے بیٹھا۔ یہ کہانی مجھے جسٹس نجفی رپورٹ کے حوالے سے یاد آئی جسے ہائی کورٹ نے’’پبلک‘‘ کرنے کا حکم دیا ہے۔ میں سانحہ ماڈل ٹائون کے نہ کسی مقتول یا مضروب کو جانتا ہوں نہ میرا ڈاکٹر طاہر القادری کی عوامی تحریک سے کوئی تعلق واسطہ ہے لیکن میں اس سانحے کا ٹی وی پر’’ناظر‘‘ ہوں اور اپنی نمناک آنکھوں سے کئی گھنٹوں تک بزرگوں، جوانوں اور خواتین کو چھوٹے چھوٹے ہلاکو خانوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بنتے دیکھتا رہا ہوں۔ میری طبیعت کی مجبوری کہ میں ان ظالمانہ اور سنگدلانہ واقعات کو بھول نہیں سکتا۔ اخباری خبروں کے مطابق نجفی رپورٹ نے اس سانحے کی ذمہ داری کسی’’شخصیت‘‘ پر نہیں ڈالی لیکن مجھے یقین ہے کہ چودہ معصوموں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا، قانون قدرت حرکت میں آئے گا اور اس سانحے کے ذمہ داران اسی جہان میں عبرت کی مثالیں بنیں گے۔دراز ہوتی ہوئی رسی ایک دن ان کی گردن کا پھندا بن جائے گی۔ ہم دیکھیں گے آپ بھی دیکھیں گے!!

تازہ ترین