• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مخدوم جاوید ہاشمی اپنی عظیم روایت کے عین مطابق ایک بار پھر شہادت گہہ الفت کی طرف اس عزم کے ساتھ چلے آئے ہیں کہ وہ جناب نوازشریف کے ساتھ مل کر جمہوریت کی بقا اور استحکام کی جنگ لڑیں گے۔ وہ عمر میں مجھ سے کہیں چھوٹے ہیں، مگر عزیمت، استقامت اور ساتھیوں کے حوصلوں کو مہمیز لگانے والی قوتِ برداشت پر مشتمل اُن کے کارنامے بہت بڑے ہیں۔ اُنہوں نے طالب علمی کے زمانے ہی میں ہماری سیاست پر انمٹ نقوش ثبت کر دیئے تھے۔ وہ اسلامی جمعیت طلبہ کے پلیٹ فارم سے پنجاب یونیورسٹی کی طلبہ سیاست میں آئے اور پورے سیاسی منظر نامے پر چھا گئے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مسٹر بھٹو اقتدار میں آ چکے تھے اور پیپلز پارٹی کے جیالے تمام اداروں کو تسخیر کرنے کی جنگجویانہ پالیسی اپنائے ہوئے تھے۔ اس یلغار کی روک تھام کے لیے ادارہ اُردو ڈائجسٹ نے ہفت روزہ زندگی شائع کرنے کا منصوبہ بنایا۔ میرے اصرار پر عزیزی مجیب الرحمٰن شامی ہفت روزہ اخبارِ جہاں کی ملازمت چھوڑ کر لاہور آئے اور ان کی ادارت میں زندگی شائع ہونے لگا جس کا دفتر اُردو ڈائجسٹ کی بالائی منزل پر تھا۔ شامی صاحب نے دفتر کے برابر والے کمرے میں اقامت اختیار کی اور پنجاب یونیورسٹی کے طلبہ اسٹوڈنٹس یونین کے انتخابات کی حکمت ِعملی طے کرنے آنے لگے۔ ان میں حفیظ اللہ خاں اور جاوید ہاشمی پیش پیش تھے۔ ہاشمی صاحب تو کئی کئی روز شامی صاحب کے ساتھ قیام بھی کرتے۔ یوں اُن سے قریبی تعلقات قائم ہوئے اور یہ بھی اندازہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں غیر معمولی قوتِ ارادی عطا کی ہے اور ظلم و جبر کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ اور قوت بھی۔
ہاشمی صاحب نے اسٹوڈنٹس یونین کے انتخابات میں دوبار حصہ لیا۔ یہ دونوں سال قومی سیاست میں بڑے اہم تھے۔ گورنر پنجاب غلام مصطفیٰ کھر کے ابتدائی دنوں میں سمن آباد، لاہور سے دو لڑکیاں اغوا ہو گئیں اور افواہ یہ پھیلی کہ وہ گورنر ہاؤس لے جائی گئی ہیں۔ مخدوم جاوید ہاشمی طلبہ کی فوج لے کر گورنر ہاؤس پہنچ گئے اور دھمکی دی کہ یہ لڑکیاں دو گھنٹوں کے اندر اندر اپنے گھر نہ پہنچیں، تو گورنر ہاؤس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے گی۔ جب وہ اپنے گھروں میں پہنچ گئیں، تو یہ واقعہ تمام قومی اخبارات نے نمایاں طور پر شائع کیا اور جاوید ہاشمی کی بہادری کی دھاک بیٹھ گئی اور اُن کا نام دور دور تک پھیل گیا۔ اسی زمانے میں پانچ صحافی مارشل لا کے تحت گرفتار ہوئے جس میں راقم الحروف کے علاوہ، ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی، مجیب الرحمٰن شامی، حسین نقی اور مظفر قادر شامل تھے۔ ہم نے مارشل لا کی حکومت کو تسلیم کرنے اور اُن کا فیصلہ مان لینے سے انکار کر دیا۔ عدالت میں مارشل لا مردہ باد کے نعرے بھی لگائے۔ اس وقت مخدوم جاوید ہاشمی نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد کے ساتھ ہمارے استقبال کے لیے آئے جس سے ہمیں بڑا حوصلہ ملا اور جیل کی صعوبتیں ہم ایک سرشاری میں برداشت کر گئے۔
میں یہ گواہی دینا چاہتا ہوں کہ میں نے مخدوم جاوید ہاشمی کو انسانی آزادیوں کی ہر تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور پولیس کے بے رحم تشدد کا نشانہ بنتے دیکھا۔ ان پر لاٹھیاں برستی رہتیں اور وہ ایک مضبوط چٹان کی طرح اپنی جگہ کھڑے رہتے۔ چونا منڈی اور شاہی قلعے کی اذیتیں اُن کے پائے استقلال میں کوئی لغزش پیدا نہ کر سکیں۔ سردیوں میں اُنہیں برف کی سلوں میں لٹایا جاتا اور بجلی کے جھٹکے لگائے جاتے، مگر وہ ظلم کے آگے کبھی سرنگوں نہیں ہوئے۔ قدرت نے اُنہیں فولادی عزم اور ناقابلِ شکست اعصاب عطا کیے ہیں۔ اُن سے اختلاف کرنے والے بھی اُن کے عظیم جذبوں کا احترام کرتے اور اُن کی رائے اور احتجاج کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ گزرا ہوا ڈیڑھ عشرہ ہماری سیاست کی ایک چشم کشا کہانی بیان کرتا ہے۔
اکتوبر 1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے منتخب حکومت کا تختہ اُلٹ کر اقتدار پر قبضہ جما لیا۔ اُن کا پختہ ارادہ وزیراعظم نوازشریف کو وزیراعظم بھٹو کے انجام سے دوچار کر دینا تھا۔ شدید خوف و ہراس کے ماحول میں بیگم کلثوم نواز صاحبہ نے تحریک ِمزاحمت کی کمان سنبھالی اور ایک مضبوط گاڑی میں سوار ہو کر چیئرنگ کراس پہنچیں۔ جاوید ہاشمی ان خوش نصیب اصحاب میں شامل تھے جنہوں نے تاریخ کا دھارا بدلنے میں ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا۔ بیگم صاحبہ کے ہمراہ محترمہ تہمینہ دولتانہ، مخدوم جاوید ہاشمی اور چودھری صفدر رحمٰن تھے۔ تپتے صحرا میں انہوں نے سچی رفاقت کا حق ادا کر دیا۔ فوجی حکومت کے کارندے گاڑی کو راستے سے ہٹا دینا اور انہیں باہر نکلنے پر مجبور کر دینا چاہتے تھے، لیکن بیگم صاحبہ نے نیچے اُترنے سے صاف انکار کر دیا اور گاڑی کو اندر سے مقفل کر لیا۔ اس پر انتظامیہ کرین لے آئی اور اس کے ذریعے گاڑی کھینچنے کی کوشش کی جو اوپر کھڑی ہو گئی۔ یہ تصویر عالمی اخبارات میں شائع ہوئی اور ٹی وی چینلز پر دکھائی گئی کہ ایک بے کس عورت کے ساتھ جنرل مشرف کی حکومت کس قدر ظلم کر رہی ہے۔ اس واقعے نے حکومت کو ہلا کے رکھ دیا اور اسے نوازشریف اور اُن کے خاندان کو ملک سے باہر جانے کا راستہ دینا پڑا۔
جناب نوازشریف پاکستان چھوڑتے وقت اپنا بیش قیمت سرمایہ مسلم لیگ نون کی شکل میں مخدوم صاحب کی حفاظت میں دے گئے جنہوں نے امانت کا پورا پورا خیال رکھا۔ جنرل مشرف کی حکومت نے ان پر قومی اسمبلی میں ایک قابلِ اعتراض خط لہرانے پر بغاوت کا مقدمہ بنا دیا اور سیشن کورٹ اسلام آباد نے 23سال قید کی سزا سنائی۔ مخدوم جاوید ہاشمی نے چار سال جیل میں کاٹے اور دو فکر انگیز کتابیں تصنیف کیں۔ اُن کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ دوسرے سیاسی لیڈروں کے مقابلے میں اُنہیں مطالعے کا شوق بھی ہے اور اُن کے اندر تجزیے کی بے پایاں صلاحیت بھی۔ وہ جناب حفیظ اللہ نیازی کی ترغیب پر تحریک ِانصاف کی طرف مائل ہوئے، اُنہیں اعلیٰ منصب سے نوازا بھی گیا، مگر اُنہیں جلد احساس ہو گیا کہ وہ تو ان طاقتوں کی آلۂ کار بن چکی ہے جو ملک میں جمہوریت کی بساط لپیٹ دینا چاہتی ہیں، چنانچہ اُنہوں نے 2014ء کے دھرنوں کے درمیان پریس کانفرنس کر کے اہلِ وطن کو سازش سے آگاہ کر دیا۔ جناب نوازشریف جو ایک نئے امتحان سے گزر رہے ہیں، اُنہوں نے غیر جمہوری طاقتوں کے خلاف ڈٹ جانے اور عوامی حاکمیت قائم کرنے کی تحریک ِمزاحمت کا اعلان کیا ہے۔ جاوید ہاشمی اُن کی اذان پر لبیک کہتے ہوئے اُن کی تحریک میں شامل ہو گئے ہیں جو حلقہ بندیوں کی سیاست سے یکسر بے نیاز دکھائی دیتے ہیں۔ یہ بلند حوصلگی اور اعلیٰ نصب العین کے ساتھ وابستگی کا ایقان افروز مظاہرہ ہے۔ وقت ایسا کڑا آن پڑا ہے کہ ملکی معاملات میں اعتدال اور دور اندیشی سے کام لینے کی ضرورت فزوں تر ہو گئی ہے کہ فوج ہمارے وجود کا نہایت اہم حصہ ہے، سیاسی جماعتیں عوام کو متحرک اور منظم رکھنے کا واحد ذریعہ جبکہ عوام کو بروقت انصاف کی فراہمی کا سب سے معزز ادارہ۔ ان کی مشترکہ طاقت ہی دراصل ہماری قومی طاقت ہے۔

تازہ ترین