• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(سندھ میں امن و ہم آہنگی کے اعلان نامہ کی باقی تفصیلات مندرجہ ذیل ہیں )
آئینی ترامیم
آئین کے آرٹیکل15 میں ترمیم کرکے یوں تحریر کیا جائے الف… ’’ہر شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ عوامی مفاد میں عائد کی گئی معقول قانونی پابندیوں کے تحت پاکستان بھر میں آزادانہ طور پر کہیں بھی رہے، آجا سکے یا پاکستان کے کسی بھی حصے میں رہائش پذیر ہوجائے بشرط یہ کہ متعلقہ صوبے کی جانب سے ڈومیسائل، مستقل رہائش اور ورک پرمٹ کے ضمن میں لاگو قواعد کا ان شہریوں پر سختی سے نفاذ کیا جائے جو اپنے اصل رہائش کے صوبے کے علاوہ کسی دوسرے صوبے میں رہنا چاہیں یا سکونت اختیار کرنا چاہیں۔‘‘ب… کسی بھی صوبے میں یا صوبے سے نکل کر نقل مکانی کے معاملات میں وفاقی قانون ساز ادارے کے عمل دخل کو ختم کرنے کے لئے فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ کے حصہ اول کے آئٹم میں اس طرح ترمیم کی جائے کہ وہ درج ذیل طور پر پڑھی جائے:’’وفاقی دارالحکومت سے یا اس میں نقل مکانی یا سکونت اختیار کرنا‘‘ ث… آئین میں یہ شامل کیا جائے کہ تمام شہری صرف اپنی مستقل رہائش کے ضلع میں جہاں ان کا نام ووٹرز لسٹ میں شامل ہو، انتخابات میں ووٹ دینے کے حق دار ہوں گے۔
قانونی ترامیم
الف) سندھ میں سکونت پذیر کسی بھی باشندے کو سوائے اس کے جو سندھ میں پیدا ہوا ہو/ ہوئی ہو یا جس کے ایک یا دونوں والدین سندھ میں پیدا ہوئے ہوں، ووٹ ڈالنے کا حق نہیں ہوگا یا پھر وہ جو صوبے کا ڈومیسائل ملنے کے بعد کم سے کم پندرہ سال سے سندھ میں مقیم ہوں۔ ب) ڈومیسائل … مستقل رہائش کے اجازت نامے میں ترمیم کرتے وقت ہر صوبے کے باشندوں کے معاشی حقوق کے تحفظ کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ شرائط عائد کرنی چاہئیں:1… ایسے تمام افراد جو ملازمت کے متلاشی ہوں انہیں خود کو صوبے کے دفتر روزگار میں درج کرانا ضروری ہے۔ 2 … ایسے تمام افراد جو کسی ایک صوبے کے دفتر روزگار میں درج ہوں اور کسی دوسرے صوبے میں ملازمت یا ذاتی کاروبار کے خواہشمند ہوں، وہ نوکری حاصل کرنے یا ذاتی کاروبار شروع کرنے سے پہلے متعلقہ صوبے میں درخواست دیں اور کام کرنے کا اجازت نامہ حاصل کریں۔
مسلح افواج کی غیر جانبداری
صوبائی معاملات میں فوج کی غیرجانبداری اکثر زیر بحث رہتی ہے، کئی مواقع پر مسلح افواج کو قومی یک جہتی کے نام پر صوبائی خود مختاری کے خلاف استعمال کیا گیا، اس بات کو نظرانداز کردیا گیا کہ مسلح افواج کا کسی ایک یا دو صوبوں کے نمائندے کی حیثیت سے پہچانا جانا بذات خود قومی یک جہتی کے لئے خطرہ ہے، مسلح افواج میں حقیقی قومی کردار پیدا کرنے کے لئے دو اقدامات تجویز کیے جاتے ہیں: 1 … دوسری مرکزی اسامیوں کے لئے مقررہ کردہ صوبائی کوٹے کا اطلاق مسلح افواج پر بھی ہونا چاہئے جب تک مقرر کردہ کوٹے کے مطابق تمام صوبوں کی نمائندگی نہ ہوجائے اس وقت تک ان صوبوں سے بھرتی نہ کی جائے جن کی نمائندگی مقررہ کوٹے سے زیادہ ہوچکی ہے۔ 2 … فرنٹیئر کانسٹیبلری اور بلوچستان لیویز کی طرح سندھ کے لئے بھی سول آرمڈ فورس ہو جس کی ذمہ داری غیر معمولی صورتحال سے نبرد آزما ہونا، اسمگلنگ کے خلاف کارروائی اور سندھ میں غیرقانونی طور پر آباد ہونے والوں کی روک تھام ہو۔
نمائندہ اداروں کی شمولیت
بہت سی شکایات اور عدم توجہی کا احساس بیورو کریسی کی نچلی سطح تک مداخلت کی وجہ سے پیدا ہوا ہے، مرکزی بیورو کریسی کے ذریعے حکمرانی کوئی دانشمندانہ عمل نہیں ہے، اس کا علاج صرف صوبوں کی خود مختاری میں ہے، نہ اس میں کوئی دانشمندی ہے کہ آج کے دور میں صوبائی معاملات کو بھی بیورو کریسی کے ذریعے چلایا جائے، اب وہ وقت ہے کہ مقامی سطح تک اقتدار عوام کو منتقل کیا جائے اور انہیں اپنے نمائندوں کے ذریعے اپنے معاملات کو چلانے دیا جائے۔ چنانچہ ہم تجویز کرتے ہیں کہ ڈویژن، ڈسٹرکٹ اور تحصیل تک کا نظام منتخب ادارے چلائیں جیسا کہ تمام ممالک میں مقامی حکومتیں (Local Governments) چلاتی ہیں اور کمشنریت کا لامتناہی سلسلہ اور ان کے احکامات کے نظام کو ختم کیا جائے تاکہ جمہوریت کو پھلنے پھولنے کا موقع مل سکے۔
نتائج
ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ سندھ کے عوام کے درمیان رنجشیں کافی عرصے سے چلی آرہی ہیں لیکن اب وہ وقت آگیا ہے کہ انہیں کم کرنے کے لئے سنجیدہ کوشش کی جائے، فرقہ وارانہ طاقتیں تفریق پر پلتی ہیں‘ انہیں چیلنج کرنا، ان کا راستہ روکنا اور انہیں شکست دینا آج کی ضرورت ہے، ہم وہ باشعور لوگ ہیں جو اپنے اختلافات بھلاکر قومی سیاست کے ذریعے ایک قومی اتفاق رائے تک پہنچنے کی کوشش کرسکتے ہیں، یہ کوشش ہمیں مزیدکرنی چاہئے، وہ انسانی اقدار جس کی ہم قسم کھاتے ہیں اور تمام ثقافتی ورثہ، یہ زمین اور یہ مٹی جس سے ہم جڑے ہوئے ہیں وہ ہم میں یگانگت پیدا کرے گی اور باہمی اعتماد کو تقویت بخشے گی جو سماج میں خوشگوار اور پرامن زندگی کی واحد بنیاد ہے۔ آیئے پاکستان میں ایسی ہی پرامن زندگی کی ابتداسندھ سے کریں کیونکہ یہی وہ سرزمین ہے جہاں اس وقت اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ یہ ہماری مخلصانہ خواہش ہے کہ ہمارے تمام بچوں کو بغیر کسی رکاوٹ کے قابلیت کی بنیاد پر تعلیم کی سہولت اور پھولنے پھلنے کے مواقع مہیا ہوں (نوکریاں، کاروبار وغیرہ) تاکہ ہم میں سے وہ لوگ جو دشواریوں میں مبتلا ہیں اعتماد اور تحفظ محسوس کرسکیں، ہمارے بچے سندھی اور اردو زبان آزادی سے سیکھ سکیں اور یہ ان سب کی عام زبانیں بن جائیں اور بتدریج انہیں دفاتر اور صوبے میں ان کا جائز تاریخی مقام مل جائے، ملک کی سیاسی پارٹیاں ان معاملات پر سر جوڑ کر بیٹھیں اور ایسے منصفانہ اور حقیقی حل تلاش کریں جو سب کے لئے قابل قبول اور قابل عمل ہوں۔ ہم یہ جانتے ہیں اور اس لئے ایک بار پھر پرزور انداز سے یقین دلاتے ہیں کہ خوشگوار اور پرامن زندگی فرقہ واریت کے ایسے پلیٹ فارم پر ممکن نہیں ہے جس کی بنیادیں انتہا پسندی، نسل پرستی اور مذہبی تنگ نظری پر رکھی ہوں، مہاجر ازم اور انصار ازم، مذہب، نسل پرستی اور گروپ ازم بدترین تشدد اور وحشیانہ جذبات کو ہوا دیتے ہیں، مخالفین میں بھی اور موافقین میں بھی، اکثر و بیشتر یہ ناقابل تفہیم جنگجویانہ رویہ اختیار کرتے ہیں اور موجودہ جدید جمہوریت میں افہام و تفہیم اور پرامن تصفیہ کے عمل میں خود بخود ہی ان کی حیثیت ختم ہوجاتی ہے، اس لئے انہیں دنیا میں کہیں بھی‘ کسی بھی تہذیب یافتہ سوسائٹی میں سیاست کا حصہ بننے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ چنانچہ آج یہ مناسب ہوگا کہ وہ پارٹیاں اور تنظیمیں جو فرقہ وارانہ اور مذہبی تشدد کا رجحان رکھتی ہیں اپنے نام اور طریقہ کار کو بدلیں اور خود کو قومی سیاسی دھارے میں شامل کریں، ہمیں اب عوام کی معاشی اور سماجی بہبود کے واضح منشور پر کام شروع کردینا چاہئے، اس کے ساتھ ہی ہمیں نیشنل الیکٹوریٹ میں شامل تمام طبقوں اور حلقوں بطور خاص پچھڑے ہوئے لوگوں کے لئے قانون کی بالادستی، انصاف میں مساوات، شہریت کے برابر حقوق اور انسانی حقوق پر عملدرآمد کے کام کو آگے بڑھانا چاہئے۔ یہ وہ تجاویز ہیں جن کی ہم سفارش کرتے ہیں، یہ دلائل ہیں جو ہم آپ کے سامنے پیش کررہے ہیں، ہمارے پاس وہ اتھارٹی نہیں ہے جو ہماری سفارشات کو لاگو کرسکے، یہ سیاسی جماعتوں کے اختیار میں ہے اور ان کی ذمہ داری بھی لیکن ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ ہمارے پاس سچائی کی اتھارٹی اور یقین کی طاقت ہے چنانچہ ہم اپنی قومی سیاسی پارٹیوں، صاحبان اقتدار اور حزب مخالف، رہنمائوں، دانشور وں، رائے عامہ استوار کرنے والوں اور سب سے زیادہ ہر شہری سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ایسا ماحول بنانے کے لئے ان کوششوں کی حمایت کریں جہاں سچائی، انصاف اور رواداری پھل پھول سکے۔

تازہ ترین