• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس کا دورہ پاکستان ہر لحاظ سے مایوس کن رہا ہے۔ وہ پا کستانی سیاسی اور عسکری قیادت کو ’’ڈومور‘‘ پر قائل کرنے آئے تھے مگر انہیں مکمل طور پر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے امریکی وزیر دفاع سے ملاقاتوں میں واضح اور دو ٹوک پیغام دے دیا ہے کہ پاکستان اپنی استطاعت اور وسائل سے زیادہ کام کر چکا ہے اور اب امریکیوں کو ہماری قربانیوں کا اعتراف کرتے ہوئے بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف افغان سرزمین کے استعمال کو روکنا چاہیے ۔پاک امریکہ تعلقات میں بہتری کے لئے امریکی حکام کو اپنی سوچ میں تبدیلی لانا ہوگی اور پاکستان کو انڈیا پر ترجیح دینا ہوگی۔ اگر امریکہ بھارت کو ہی جنوبی ایشیا میں اہمیت دیتا رہا تو پھر اس کے پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم نہیں ہو سکتے۔ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات سات دہائیوں پر محیط ہیں۔ بدقسمتی سے دونوں ملکوں کے درمیان ہمیشہ تنائو برقرار رہا۔ آج بھی کچھ ایسی ہی صورت حال دکھائی دے رہی ہے۔ جب سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ برسر اقتدار آئے ہیں تب سے امریکی حکام کا جھکائو بھارت کی طرف ہوگیا ہے۔ ٹرمپ کی پالیسیوں سے عالمی امن خطرے میں پڑ گیا ہے۔ امریکی صدر کے ذہنی دیوالیہ پن کا یہ عالم ہے کہ وہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانا چاہتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے حالات بھی دن بدن خراب ہو رہے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں بھی بھارتی بالادستی کے خواب سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی ہے۔ پاکستانی قیادت کو امریکی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کے چیف مائیک پومپیوکے پاکستان مخالف حالیہ بیان کا بھی سختی سے نوٹس لینا چاہئے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کو امریکی پالیسی پر عمل کرنا اور دہشت گردی کے ٹھکانوں کوختم کرنا ہوگا۔ اب امریکہ کوپاکستان سے ’’ڈومور‘‘ کا تقاضا کرنے کی بجائے افغانستان میں بھارتی اثر و رسوخ کو ختم کرنے کے لئے فوری اقدامات کرنے چاہئیں۔ پاکستان اور افغانستان میں حالات کی خرابی اور دہشت گردی کا ذمہ دار خود امریکہ اور بھارت ہے۔ امریکی حکومت اگر واقعی جنوبی ایشیا میں امن کا قیام چاہتی ہے تو اسے خطے میں بھارتی سرپرستی کو ختم کرنا ہوگا۔ افغانستان میں امن کے لئے پاکستان نے ہمیشہ اپنا مرکزی کردار ادا کیا ہے اور اب بھی حکومت پاکستان افغان مسئلے کے حل کے لئے اپنی تمام ترکاوشیں کرے گی۔
حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے ہندوستان افغان انٹیلی جنس کے ساتھ مل کر ہمارے ہاں دہشت گردی کروا رہا ہے۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے حالیہ واقعات کے پیچھے بھارت ہی کا ہاتھ ہے۔ پشاور زرعی یونیورسٹی کے قریب دہشت گردی کا تازہ ترین واقعہ انتہائی افسوس ناک اور قابل مذمت ہے۔ آئی ایس پی آر کے ترجمان نے بھی بتایا ہے کہ پشاور کے حملے میں دہشت گرد افغانستان سے آئے مگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے سوالیہ نشان یہ ہے کہ افغانستان سے پشاور تک کافی چیک پوسٹیں موجود ہیں مگر اس کے باوجود دہشت گرد کس طرح آخر پشاور پہنچ گئے؟ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ امریکہ کی سرپرستی میں بھارت افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں دہشت گردی کررہا ہے۔ اگر پاکستان میں دہشت گردی کو روکنا ہے تو ہمیں نام نہاد امریکی جنگ سے باہر نکلنا ہوگا۔ جب سے پاکستان نام نہاد امریکی جنگ کا حصہ بنا ہے ملک کا کوئی بھی کونہ محفوظ نہیں رہا۔ نائن الیون کے بعد اس جنگ نے ہماری معیشت کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ اب تک ساٹھ ہزار سے زائد قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں اور 100ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ملکی معیشت کو پہنچ چکا ہے۔ ایک طرف امریکہ پاکستان سے ڈومور کا مطالبہ کررہا ہے اور دوسری طرف افغان انٹیلی جنس اور ’’را‘‘دونوں مل کر پاکستان میں دہشت گردی کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھی ہندوستان کا ریاستی ظلم وبربریت جاری ہے۔ اب تک ایک لاکھ سے زائد کشمیری بھارتی فوج کے ہاتھوں شہید ہوچکے ہیں۔ مقام افسوس یہ ہے کہ عالمی برادری پاکستان میں انڈیا کی مداخلت اور مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی دہشت گردی پر چپ سادھے ہوئے ہے اور اقوام متحدہ اور یورپی ممالک کا کردار اس حوالے سے افسوسناک اورناقابل فہم ہے۔ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ اس وقت مقبوضہ جموں و کشمیر میں تحریک آزادی کشمیر اپنے عروج پر ہے۔ چند روز قبل وہاں کرکٹ میچ کے دوران پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے گئے اور سبز ہلالی پاکستانی پرچموں کی بہار بھی دیکھنے کو ملی۔ کشمیری عوام ان مشکل اور کٹھن حالات میں بھی پاکستان کے حق میں نعرے لگا رہے ہیں اور تحریک آزادی کو بھرپور انداز میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بھارت کی درندہ صفت فوج کے سامنے کشمیر پریمئر لیگ میں جیوے جیوے پاکستان کے نعرے اس بات کا ثبوت ہیں کہ کشمیریوں کی تیسری نسل بھی ہندوستان سے آزادی چاہتی ہے۔ بھارت اپنی آٹھ لاکھ فوج کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کے عوام کے جذبہ حریت کو دبا نہیں سکا۔ حکومت پاکستان مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر بھرپور انداز میں اجاگر کرے۔ امریکی وزیر دفاع جیمزمیٹس کے دورہ پاکستان کے موقع پر ہمیں امریکہ کو یہ واضح کرنا چاہئے تھا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے بھارتی مظالم کا بھی نوٹس لے۔ امریکہ کو پاکستان میں تو دہشت گردی نظر آتی ہے لیکن کشمیر میں معصوم اور بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام نظر نہیں آتا۔ امریکہ اور عالمی برادری کے دہرے معیار اب کھل کر سامنے آچکے ہیں۔ ایک طرف ہندوستان مقبوضہ کشمیر میں ریاستی مظالم کی انتہا کرچکا ہے تو دوسری جانب اقوام متحدہ عالمی برادری اور خودامریکہ خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ بھارت سے دوستی اور تجارت اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا۔ بھارت سے دوستی کے خواب دیکھنے والوں کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اس نے ہمیشہ پاکستان کے مفادات کے خلاف کام کیا ہے۔ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں کو بھارتی خفیہ تنظیم را مانیٹر کر رہی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ حکمران ملک و قوم کے تحفظ اور مفادات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے پالیسیاں بنائیں۔ پاکستان اب مزید کسی بھی قسم کے عدم استحکام کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ پاکستان اس وقت معاشی اور سیاسی بحرانوں کا شکار ہے۔ سوچی سمجھی سازش کے تحت ملکی حالات خراب کئے جارہے ہیں۔ اگر حکومت ختم نبوتؐ حلف نامے کے معاملے پر ٹال مٹول سے کام نہ لیتی تو ملک میں سیاسی بحران پیدا نہ ہوتا۔ حکمرانوں کی نااہلی اور مجرمانہ غفلت کی وجہ سے دنیا بھر میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی۔ اگرچہ وفاقی وزیر زاہد حامد کے استعفیٰ سے اسلام آباد دھرنا ختم ہو چکا ہے مگر حکومت کو آئندہ کبھی ایسے حساس مسئلے کو چھیڑنے کی جسارت نہیں کرنی چاہئے۔ پاکستان میں برسوں سے جاری کرپٹ نظام کو ختم کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ عوام دشمن پالیسیوں کی وجہ سے موجودہ حکومت غیرمقبول ہوچکی ہے۔ موجودہ نظام پر عوام کا کھویا ہوا اعتما ددوبارہ بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں باہمی اختلافات کو بھلا کر وسیع ترقومی مفاد میں ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہوگا تاکہ ملک خوشحالی اور ترقی کی جانب گامزن ہوسکے موجودہ حالات میں جمہوری سسٹم کا چلتے رہنا ازحد ضروری ہے۔ ماورائے آئین و قانون اقدامات سے نہ کبھی مثبت تبدیلی آئی ہے اور نہ کبھی آئے گی ملک میں آئین وقانون اور جمہوریت کی بالادستی ترقی کی ضامن ہے۔ جمہوریت کے راستے پر چل کر ہی ہم ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہوسکتے ہیں موجودہ صورتحال نے ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا ہے۔ حکومت جی ڈی پی کی شرح کے لحاظ سے قرضے حاصل کرنے کی حد عبور کرچکی ہے۔ عوامی مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھ رہے ہیں۔ ہمیں اب امریکہ پر اپنا انحصار ختم کرکے اپنے پائوں پر کھڑا ہونا ہوگا اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ملکی داخلہ وخارجہ پالیسیوں کو ازسر نو مرتب کیا جائے۔

تازہ ترین