• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ کی نئی افغان پالیسی اور پھر حال میں امریکی وزیر دفاع جنرل میٹس کے دورۂ پاکستان کے بعد پاکستان میں تقریباً ہر شخص اب اسی گمان میں ہے کہ جلد امریکہ پاکستان کے ساتھ اپنی دکھاوے کی دوستی کو حقیقی دُشمنی میں بدلنے والا ہے اور اس سلسلے میں پاکستان کی طرف سے دیئے جانے والے بیانات اور پھر ان پر ہونے والے تجزیوں کو پڑھ کر یہ گمان اور بھی شدید ہوجاتا ہے مگر شاید میں واحد پاکستانی ہوسکتا ہوں جو ڈونلڈ ٹرمپ کی اس پالیسی کو دوسرے زاویئے سے دیکھتے ہوئے پاکستان کے حق میں قرار دیتا ہوں۔ کس کے پاس کتنے اربوں ڈالر کا بجٹ ہے کس کے پاس کونسی جنگی ٹیکنالوجی ہے کس کے پاس کتنے فوجی ہیں یہ سب اعداد و شمار عام آدمی کو اس طرح کی پالیسیوں کے متعلق زیادہ آگاہی نہیں دے سکتے عام آدمی تو اس طرح کی پالیسیوں کو سمجھنے کے لئے سادہ اور آسان انداز ہی اپنانا اور اس کے ذریعے جاننا چاہتا ہے کہ ہوگا کیا۔ تمام معزز دفاعی تجزیہ کاروں سے معذرت کے ساتھ دفاعی و جنگی مہارت کے اعداد و شمار پر گفتگو کم از کم امریکہ جیسے جنگی مخالف کے ساتھ اب مناسب نہیں لگتی کیونکہ اگر ان اعداد و شمار کے بل بوتے امریکہ جنگیں جیتنے کا اہل ہوتا تو افغانستان میں ابھی تک رُسوا نہیں ہورہا ہوتا۔ میں ڈونلڈ ٹرمپ کا شکریہ اس لئے ادا کرنا چاہتا ہوں کہ بالآخر وہ طاقتور ریاستوں کے قبرستان افغانستان میں ہمارے بدترین دُشمن ہندوستان کو اب کھلم کھلا گھسیٹ کر لے آئے برطانیہ روس اور امریکہ کی بدترین رُسوائی کے بعد اب ہندوستان کا افغانستان میں آنا اس مستقبل کی طرف اشارہ ہے کہ جلد ہندوستان بھی روس کی طرح ٹکڑوں میں بٹنے والا ہے اور ہندوستان کو اس جگہ تک لے جانے کے لئے ٹرمپ اور مودی دونوں کا شکریہ۔ افغانستان میں گزشتہ چالیس سال میں کیا ہوتا رہا کون کس کے ساتھ رہا کون کس کا مخالف رہا کس نے دوستی نبھائی کس نے دھوکا دیا کیا غلط ہوا کیا صحیح ذرا اس بحث سے نکل کر دوسرا حقیقی پہلو زیر غور لاتے ہیں۔ ٹرمپ کی موجودہ افغان پالیسی دراصل اُس سلسلے کی کڑی ہے جس کے تحت امریکہ پوری دنیا خصوصاً مسلم طاقتوں کو اپنا اسلحہ بیچ کر اُنیس ٹریلنز ڈالر کے قرضے میں ڈوبی ریاست کو کچھ مالی استحکام دے سکے۔ امریکی اسلحہ بیچنے کا یہ سلسلہ گو کہ سالوں سے جاری ہے مگر ایک انتہائی زیرک کاروباری ڈونلڈ ٹرمپ کو کیونکہ سب سے زیادہ فائدہ اسی میں نظر آرہا ہے اس لئے ریاستوں کے درمیان صرف اپنی زبان سے نفرت اور خوف پیدا کرکے اربوں ڈالر کے اسلحے کی فروخت کےمعاہدے کیے جارہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارتی الیکشن جیتنے کے لئے جو نفرت کی آگ پھیلائی وہ ہی آگ اب دنیا بھر میں پھیلاکر دنیا کو بھی فتح کرنا چاہتے ہیں۔ چند ماہ قبل ہونے والا سعودی عرب کا دورہ اور وہاں ایران کے خلاف نفرت آمیز تقریر اور پھر ایران کی طرف سے مکہ مدینہ چھوڑ کر پورے سعودی عرب کو نشانہ بنانے کی دھمکی نے سعودی عرب کو فوری طور پر امریکہ سے 110 بلین ڈالر کا اسلحہ خریدنے کے معاہدے پر مجبور کردیا۔ یہ ہی حال اب امریکہ ہندوستان کا کررہا ہے اور اُسے پاکستان اور چین کی دُشمنی سے مسلسل ڈرا کر اسلحہ بیچ رہا ہے کیونکہ ٹرمپ کو پتہ ہے اسلحہ خریدنے والی دنیا کی پانچویں سب سے بڑی طاقت ہندوستان اندرونی طور پر ڈرپوک ہے لہذا چین اور پاکستان کے خلاف ساتھ دینے کے وعدے پر وہ امریکہ کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوسکتی ہے اور وہ ہی ہورہا ہے۔ جلد ہی امریکہ چین کے خلاف ڈراکر جاپان کے ساتھ بھی اسلحہ بیچنے کے ناقابل یقین معاہدے کرنے والا ہے اور اسلحہ بیچنے کے اس انداز کو وہ ساری دنیا تک پھیلاکر امریکہ اور اپنے داماد کے لئے جو کہ اسلحہ کی فروخت کے ہونے والے معاہدوں میں ایجنٹ کا کردار ادا کررہے ہیں زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانا چاہتے ہیں۔
اب آتے ہیں اس سارے معاملے میں ہندوستان کے کردار کی طرف جو کہ امریکہ کی جی حضوری میں اب سب کچھ ہی کرنے کو تیار بیٹھا ہے اور ہمارے لئے یہ خوشی کی خبر ہونی چاہئے جس پر ہم ٹرمپ کا جتنا بھی شکریہ ادا کریں کم ہے کیونکہ امریکہ پاکستان سمیت جس جس ریاست کا دوست بنا وہاں وہ صرف تباہی لایا ہے خوش حالی نہیں اور اگر یقین نہیں آتا تو تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں جواب مل جائے گا۔ امریکہ صرف اپنے مفادات کے لئے ہندوستان کو افغانستان میں لے آیا ہے کیونکہ اب افغانستان میں امریکہ کا ساتھ دینے کے لئے کوئی اور ریاست تیار نہیں وہ امریکہ کے جھوٹ اور دھوکہ دہی سے تنگ آچکے ہیں پاکستان نے تو صاف منع کر ہی دیا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ نیٹو ممالک نے بھی معذرت کرلی ہے کہ وہ کسی ایسی فوجی کارروائی کا حصہ نہیں بنیں گے جس کی کوئی ٹھوس وجہ نہ ہو۔ لہذا اس صورتحال میں اب امریکہ کے پاس ہندوستان کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا تھا اور اس کے لئے پہلے ہندوستان کو کوئی بڑا لالچ دینا ضروری تھا اور وہ لالچ یہ دیا گیا کہ ہم تم کو اس خطے کا بادشاہ بناتے ہیں تاکہ پھر تم پاکستان چین اور دیگر مخالفین کو کھل کر اپنے کنٹرول میں رکھ سکو ہندوستان یہ خواب 70سال سے دیکھ رہا ہے اور اسی لئے فوری تیار ہوگیا حالانکہ چین کو قابو کرنا ہندوستان کے بس میں تو بہت دور امریکہ کے لئے بھی ناممکن ہے اور امریکہ کا ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہے کہ وہ ایسی طاقت سے ہی ٹکر لیتا ہے جو اُس سے طاقت میں کئی گناہ کم ہو۔ اب جب کہ ہندوستان افغانستان میں آہی چکا ہے چاہے وہ افغانستان کی تعمیر نو کا نعرہ دے مگر درپردہ اُس کے عزائم کیا ہیں وہ ہر افغانی بہت اچھی طرح جانتا ہے۔ ہندوستان کی ایک بہت بڑی غلطی ہوگی اگر اُس نے امریکہ کے کہنے پر افغانی طالبان پر حملے کرنے شروع کئے اور اگر ایسا ہوگیا تو ہندوستان کو ٹکڑوں میں بٹنے سے روکنا ناممکن ہوجائے گا اور جس طرح گزشتہ سولہ سال سے ہم اندرونی دہشت گردی کو بھگت رہے ہیں ہندوستان کے اندر بھی یہ روز مرہ کا معمول بن جائے گا اور پھر پاکستان کی نفرت میں ڈوبے بی جے پی کے اس وزیر اعظم مودی کو ہندوستانی عوام کبھی معاف نہیں کریں گے اور وہ تاریخ کو انتہائی قابل نفرت کردار بن جائے گا۔ امریکہ ہندوستان کو جس چوکیداری پر لگانا چاہتا ہے وہ دراصل اپنے ہی گھر میں تباہی کے لئے راستہ دینے کے برابر ہے ۔ ہندوستان کو جاننا ہوگا کہ جو امریکہ پچھلے سولہ سال میں بے پناہ طاقت ہونے کے باوجود افغانستان میں فتح یاب نہ ہوسکا وہ پاکستان یا چین کے خلاف کس طرح ہندوستان کو فتح یاب کرسکتا ہے زیادہ سے زیادہ امریکہ ہندوستان کو خوش کرنے کے لئے سہالہ چیک پوسٹ حملے جیسی کچھ بزدلی کی حرکتیں اور کرسکتا ہے مگر اب جو اس کو جواب ملے گا وہ بھی دنیا دیکھے گی پہلے تو ہم دوست تھے تو برداشت کرلیا۔ یہ سب فضول باتیں ہیں کہ امریکہ کی اب افغانستان پر رال اس لئے ٹپک رہی ہے کہ اُسے پتہ چل گیا ہے افغانستان میں کھربوں ڈالرز کے قدرتی وسائل مدفون ہیں کیا سولہ سال سے موجود امریکہ کو اب یہ پتا چلا ہے ؟ امریکہ صرف اپنااسلحہ بیچنا چاہتا ہندوستان کو بھی پاکستان کو بھی اور ہر اس ملک کو جو ایک دوسرے کے دُشمن ہیں امریکہ شروع ہی سے دوغلا رہا ہے اور کبھی بھی اپنی سرشت سے باہر نہیں آسکتا۔ پاکستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے موجود ہونے کا الزام لگانے والا امریکہ اتنا بھی بھولا نہیں کہ اُسے نہیں پتہ کہ پاکستان میں دہشت گردی پھیلنے کا بڑا ذمہ دار ہندوستان ہے وہ پاکستانی فوج کو اندرونی دہشت گردی کے ذریعے مسلسل انگیج رکھنا چاہتا ہے تاکہ وہ دہشت گردوں کے خلاف مسلسل کاروائی نہ کرسکیں کیا امریکہ جواب دے گا جب پاکستانی افواج نے مکمل قوت کے ساتھ 2014 شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع کیا تو کیوں ہندوستان نے مسلسل کئی مہینوں تک لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی جان بوجھ کر کی اور ہماری فوج کو مجبور کیا کہ ہم جوابی کارروائی کرنے کے ساتھ ساتھ سرحد پر فوج کی تعداد بھی بڑھائیں صرف اس لئے کہ وہ ہماری افواج کی توجہ اُن قوتوں کے خلاف شمالی وزیرستان میں آپریشن کرنے سے ہٹائے جو کہ ہندوستان کی سرپرستی میں پل رہی ہیں اور پاکستان اور افغانستان دونوں ہی ممالک میں امن قائم نہیں ہونے دیتیں۔ سوات آپریشن میں ایسے سینکڑوں دہشت گرد طالبان کے روپ میں گرفتار ہوئے یا مارے گئے جو شرعی طور پر مسلمان ہی نہیں تھے۔ امریکہ کو جاننا ہوگا کہ پاکستان نے امریکہ سے بھی زیادہ بڑی قربانی دی ہے دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں اور جلد ہندوستان کے ساتھ یہ جنگ لڑنے کے بعد امریکہ کو اندازہ ہوجائے گا۔

تازہ ترین