• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جس دن عمران خان نے ایک بچے کی ماں کو یہ کہا کہ اسے انگریزی نہیں اردو سکھائو، اس دن اس کا موڈ بہت خراب رہا، بچے کی ماں اس سے بحث کررہی تھی کہ اگر ہم اسے انگریزی بول چال نہیں سکھائیں گے تو آگے چل کر اسے نوکری نہیں ملے گی۔ عمران غصے میں تھا ۔ میرے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر گھر جاتے ہوئے بھی وہ یہی کہتا رہا کہ یہ صحیح نہیں ہے۔ لوگ انگریزی ضرور پڑھیں لیکن ایسے نہیں کہ اپنی زبان اور کلچر کو بھول جائیں۔ اس انگریزی کلچر نے صرف اور صرف کالے بابو لوگ پیدا کئے ہیں جنہیں اپنے ملک، کلچر اور تہذیب کے بارے میں کچھ نہیں پتا۔ اس زمانے میں عمران اپنی گفتگو میں مذہب کو اتنا استعمال نہیں کرتا تھا۔ لیکن اسے اپنے کلچر اور تہذیب سے بہت لگائو تھا۔ وہ اس زمانے میں ہسپتال بنانے یا تعلیم کے بارے میں بڑے کام کرنے کے بارے میں بھی بات نہیں کرتا تھا۔ پڑھنے کا اسے شوق تھا لیکن اس کے پاس ٹائم نہیں ہوتا تھا۔
پڑھنے کا شوق اسے اس زمانے میں زیادہ ہوا جب اس نے ڈاکٹر علی شریعتی جیسے لوگوں کو پڑھنا شروع کیا۔ اسی زمانے میں اس نے غامدی صاحب سے بھی متعدد ملاقاتیں کیں۔ جن میں اس نے مذہب کو جاننے کی کوشش شروع کی۔
عمران سے میری ایک اور ملاقات اس کے گھر میں ہوئی۔ وہاں مجھے معلوم ہوا کہ عمران کو شکار اور صحرا نوردی کا شوق جنون کی حد تک ہے۔ میں اپنے دوست شاہد شیخ کے ساتھ عمران کے گھر گیا۔ یہاں وہ اپنے چند دوستوں کے ساتھ موجود تھا، سب دوست عمران کے ساتھ ایک شکاری مہم کی تصاویر دیکھ رہےتھے، ایک تصویرمیں عمران نے قمیض اتار رکھی تھی۔ اس کے سر پر ریمبو کے انداز میں ایک پٹی بندھی ہوئی تھی اور ہاتھ میں بندوق تھی، جب کسی وجہ سے عمران گھر کے اندر گیا تو شاہد شیخ نے وہ تصویر کسی طرح سے چھپا لی۔ اگلے روز وہ تصویر جنگ اخبار کے سپورٹس ایڈیشن پر آدھے صفحے پر چھپی۔عمران اس پر ذرا ناراض تھا۔ وہ اپنی پرائیویٹ زندگی کو عام نہیں کرنا چاہتا تھا اسی لئے اس نے اس زمانے میں پہاڑوں پر جانے کے اپنے شوق کو عام نہیں کیا تھا۔
عمران اس زمانے میں بہت سچ بولتا تھا۔ اس کا کھیل کے بارے میں Analysis بہت اچھا تھا۔ وہ ہر کھلاڑی کے بارے میں بے لاگ تبصرہ کرتا تھا۔ مجھ سے بات کرتے ہوئے وہ کہنے لگا کہ ایک اچھے کھلاڑی میں کچھ چیزوں کا ہونا از حد ضروری ہے۔ لگن، انتھک محنت، تکنیک اور پھر بغیر خوف کے کھیلنا اچھے پلیئر کے لئے ضروری ہے۔ اس حوالے سے وہ سلیم ملک اور اعجاز جیسے کھلاڑیوں سے بھی بہت مطمئن نہیں تھا۔ ویسٹ انڈیز کی ٹیم کے 1986ء کے دورے کے دوران جب میں نے اس کا انٹرویو کیا تو اس وقت بھی اپنی ٹیم میں ان چیزوں کے فقدان کے باعث اسے ڈر تھا کہ پاکستان ویسٹ انڈیز کے برابر کی ٹیم نہیں ہے۔
1990ء تک عمران یہ فیصلہ کر چکا تھا کہ اسے اپنی والدہ کی یاد میں ایک ہسپتال بنانا ہے۔ اس سلسلے میں اس نے 1990ء کی موسم گرما کی چھٹیوں میں امریکا کا دورہ کیا۔ اسے امید تھی کہ اس دورے میں وہ کافی فنڈز اکٹھے کر لے گا۔ واشنگٹن میں ایک پروموٹر نے اسے یقین بھی دلایا اور پھر ہندوستان سے ونود کھنہ اور ریکھا نے اس میں شرکت کا یقین دلا دیا۔ ایسا ہو نہ سکا اور کسی وجہ سے ونود کھنہ اور ریکھا نہیں آئے۔ میرے دوست نور نغمی نے مجھ سے بات کی اور مجھے اس پروگرام کے لئے کمپیئرنگ کرنے کو کہا۔ شو کے دن عمران خان ایک کمرے میں ٹھہرا ہوا تھا۔ شو سے دو گھنٹے قبل میں نے اس سے طویل ملاقات کی اور اس سے اس شو کے لئے ہدایات لیں۔ اس کے بعد عمران کمرے میں ایک دوست کے ساتھ بند ہوگیا۔ میری یونیورسٹی کی بے شمار لڑکیاں جن میں ہندوستان سے تعلق رکھنے والی طالبات کی اکثریت تھی عمران کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹاتی رہیں مگر عمران نے دروازہ نہ کھولا۔
شو کے دوران میں بار بار لوگوں سے درخواست کرتا رہا کہ عمران یہاں موجود ہیں براہ کرم ان کے ہسپتال کے لئے فنڈز دیں مگر اس دن لوگ اس پر تیار نہیں لگ رہے تھے۔ عمران خود بھی شرمندہ ہورہا تھا اور اسی لئے اس نے مجھے بلا کر کہا کہ بس اب فنڈز کی درخواست نہ کرنا۔ مجھے اس طرح بار بار تقاضا کرنے سے شرمندگی ہورہی ہے۔ عمران کا وہ دورہ ناکام رہا اس لئے کہ بہت قلیل رقم اکٹھی ہوئی۔
عمران سے میری ایک ملاقات سہیل عمر کے گھر میں اس وقت ہوئی جب مارٹن لنگز جو اسلام قبول کرنے کے بعد اب ایک صوفی گروپ کے لیڈر بن چکے تھے ، سہیل عمر کے گھر ٹھہرے ہوئے تھے۔ عمران کو پتا چلا تو وہ ان سے ملنے چلا آیا۔ اس وقت تک عمران کی اسلام کے بارے میں جاننے کی جستجو بہت بڑھ چکی تھی۔ اس نے مارٹن لنگز سے صوفی ازم اور پھر ڈاکٹر علی شریعتی کے حالات کے حوالے سے بہت اچھے سوالات کئے۔ ان سوالات سے پتا چلتا تھا کہ وہ ان چیزوں کے بارے میں بہت باریک بینی سے مطالعہ کر چکا ہے۔ اس دن بھی مارٹن لنگز سے ملاقات کے بعد اس نے ہمارے ساتھ گفتگو میں ڈاکٹر علی شریعتی کی کتابوں کے حوالے دیئے۔
عمران اس زمانے میں سیاست میں بھی دلچسپی لینا شروع ہوگیا تھا۔ اسے اسلام کے بارے میں جاننے میں دلچسپی توتھی لیکن وہ ضیاء الحق پر بہت تنقید کرتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ بے نظیر کے خلاف بھی بات کرتا رہتا تھا۔ اس کی گفتگو میں خاصی بے احتیاطی ہوتی تھی اوراسی بنا پر سیاسی پارٹیوں سے وابستہ لوگ اس سے ناراض ہو جاتے تھے۔

تازہ ترین