• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سردی کی شدت میں اضافے کے ساتھ ہی سیاسی حدت بھی بڑھتی جارہی ہے۔حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے خلاف گرینڈ اتحاد بننے جارہا ہے۔پاناما کے بعد سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مردہ گھوڑے میں روح پھونکنے کی کوشش عروج پر ہے۔نئے سال کے ساتھ ہی استعفوں کی بازگشت بھی ہورہی ہے۔سینیٹ الیکشن ملتوی کرانے کے لئے موثر اور حتمی وار تیار ہوچکا ہے۔اس مرتبہ پنجاب نشانہ ہوگا۔مگر موجودہ حالات و واقعات دیکھ کر مجھے ماضی یاد آرہا ہے۔بہت سے قارئین نے مسلم لیگ ق کا شیرازہ بکھرتا ہوا دیکھا ہوگا۔آج مسلم لیگ ن کے حالات دیکھ کرمسلم لیگ ق کا وقت یاد آگیا ہے۔مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ جب مسلم لیگ ق ٹوٹ رہی تھی تو یہی لوگ آگے تھے جو آج مسلم لیگ ن کی وجہ کمزوری ہیں۔گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے انہی سیاستدانوں نے مسلم لیگ ق کو دفن کیا تھا اور آج یہی سب کچھ مسلم لیگ ن کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں۔کچھ تلخ حقائق ہیں جن کا تذکرہ کرنا اشد ضروری ہے۔سابق وزیراعظم نوازشریف جب اقتدار میں آئے تو ملک میں خوف و ہراس پایا جاتا تھا۔لوڈ شیڈنگ کا جن بوتل سے باہر آیا ہوا تھا۔امن و امان نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔دہشت گردی ہر گلی محلے کا مسئلہ تھی۔بلدیاتی ادارے انتخابات نہ ہونے کی وجہ سے تباہ ہوچکے تھے۔مگر آج جب نواز شریف کو اقتدار سے علیحدہ کیا گیا تو بالا کوئی مسئلہ بھی اس شدت کے ساتھ موجود نہیں ۔پنجاب کے دیہی علاقوں میں جانے کا اکثراتفاق ہوتا ہے۔آج پنجاب کے گاؤں کے لوگ امن کے ساتھ سکون کی نیند سوتے ہیں۔پنجاب پولیس آئیڈیل تو نہیں بن سکی مگر شہباز شریف کی لاجواب انتظامی صلاحیتوں نے پنجاب پولیس کو غیر سیاسی اور بہتر ضرور بنایا ہے۔آج پنجاب پولیس کاکوئی جونیئر سے لے کر سینئر افسر تک یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اسے کسی کام کے لئے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا ہو۔آج پنجاب کا کوئی ڈی پی او یا آر پی او ایسا نہیں ہے جسے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف یا ان کے سیکرٹری نے براہ راست فون کرکے ذاتی کام بتایا ہو۔یہ سب وہ معیار ہیں جو مسلم لیگ ن نے اپنے حالیہ دور کے دوران مقرر کئے ہیں۔لیکن نوازشریف نے اگر کوئی کام نہیں کیا تو وہ اپنی جماعت کو مضبوط کرنے کا ہے۔مسلم لیگ ن کی تنظیم کو گزشتہ چندسالوں کے دوران نظر انداز کیا گیا۔مسلم لیگ ق سے آئے ہوئے لوگ مسلم لیگ ن کی صفوں میں وزارتوں اور اہم عہدوں پر قابض رہے۔انہی لوٹوں اور اسٹیبلشمنٹ کے پروردہ لوگوں کو جماعت میں اہم پوزیشنز دی گئیں۔آج یہی لوگ آپکی جماعت کو چھوڑنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔
آج پورا جنوبی پنجاب مسلم لیگ ن سے اڑان بھرنے کی تیاریوں میں ہے۔یہ ایک گروپ ہے جو ہر اقتدار کا مزہ لوٹنے کے بعد نئے منڈیر کو اپنا ٹھکانہ بناتا ہے۔مسلم لیگ ق چھوڑ کر یہی گروپ ابتدامیں تحریک انصاف میں شامل ہوا تھا اور پھر اسی گروپ کے باغی پنچھی مسلم لیگ ن میں شامل ہوئے تھے۔جن اراکین اسمبلی نے قانون سازی کے دوران ٹیلی فونز کا لز پر ووٹ نہیں دیا ،یہ وہی لوگ ہیں جو پہلے مسلم لیگ ق کو چھوڑنے والوں میں آگے آگے تھے۔توپوں کا رخ اپنی طرف ہونے کی وجہ سے وفاقی وزیر ریاض پیر زادہ صاحب خود تو ووٹ دینے تشریف لے آئے مگر ان کے قافلے کے دیگر لوگ بیماری کو جواز بنا کر اسمبلی میں موجود نہیں تھے۔پنجاب کے آخری ضلع راجن پور سے آغاز کرتے ہیں۔راجن پور سے تعلق رکھنے والے ایک ایم این اے جعفر لغاری جو مسلم لیگ ن کا حصہ ہیں۔ان کے خاندان کو جتنا مسلم لیگ ن نے ایڈجسٹ کیا ہوا ہے،جنوبی پنجاب کے کسی خاندان کو نہیں کیا۔مگر جعفر لغاری صاحب ہوا کا رخ دیکھتے ہوئے نوازشریف کو ووٹ دینے کے لئے تشریف نہیں لائے۔مستقبل میں جعفر لغاری بڑا سیاسی فیصلہ کریں گے۔آدھا خاندان شاید مسلم لیگ ن میں ہو اور آدھا خاندان نیا سفر کرے گا۔یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے عہدوں اور بڑی اہم وزارتوں کے باوجود پرویز مشرف اور مسلم لیگ ق کو چھوڑنے میں ذرا بھی تاخیر نہیں کی تو آج مسلم لیگ ن کا کمزور اقتدار تو معنی ہی نہیں رکھتا۔اسی طرح سکندر بوسن ملتان کی سیاست کا اہم نام ہیں۔خود کابینہ کاحصہ بھی ہیں مگر تا ثر ہے کہ ٹیلی فون کالز نے اثر دکھایا اور سکندر بوسن صاحب بھی بیماری کی وجہ سے شرکت نہیں کرسکے ۔اسی طرح خانیوال کے ہراج ہو یا پھر مظفر گڑھ کے ہنجرا صاحبان۔سلطان ہنجرا صاحب مسلم لیگ ق کے دور میںسابق وزیر اعلیٰ پرویز الہٰی کے منظور نظر ہوا کرتے تھے۔مظفر گڑھ کے ضلع ناظم تھے۔ حالیہ دور میں بھی ان کے معاملات درست ہیں۔ گھر میں بھی صوبائی وزارت ہے۔گمان ہے کہ مسلم لیگ ن چھوڑنے والوں میں سب سے آگے ہونگے۔اسی طرح خسرو بختیار،عبدالرحمان کانجو ،مظفر گڑھ کے بخاری صاحبان اور بہت سے دیگر ناموں کے بارے میں بھی افواہیں زیر گردش ہیں۔تاثر ہے کہ ایسے لوگ مسلم لیگ ن میں شامل ہو کر اپنے ذاتی کاروبار کو وسعت دیتے اور مفادات اٹھاتے ہیں مگر جب آزمائشی وقت آئے تو سب سے پہلے چھوڑ جاتے ہیں۔آج جو لوگ نوازشریف کو ووٹ دینے کے لئے نہیں آئے وہ کل شہباز شریف کے بھی ساتھ کھڑے نہیں ہونگے۔یہ لوگ کبھی مسلم لیگ ن کا حصہ بن ہی نہیں سکتے۔
یہ اڑنے والے پرندے ہیں اور ہر الیکشن نئی سیاسی جماعت سے لڑتے ہیں۔آنے والے دنوں میں پنجاب کی بدلتی ہوئی سیاست پر مزید لکھوں گا۔مگر آج ایک تبدیلی ضرور ہے کہ بالا اڑنے والے خاندان پہلی مرتبہ پریشان ہیں کہ اگر ہم نے مسلم لیگ ن کو خیر باد کہا تو ہمارے حلقوں میں موجود مسلم لیگ ن کے ووٹ کا کیا ہوگا؟ شہباز شریف کی انتھک محنت اور لاجواب ترقیاتی منصوبوں نے پہلی مرتبہ جنوبی پنجاب کے دیہات میں مسلم لیگ ن کا ووٹ بنک بنایا ہے۔ایک ایسا ووٹ بنک جس میں عاشق گوپانگ جیسا شخص بھی کہتا ہے کہ میرے حلقے میں 20سے30ہزار ووٹ صرف مسلم لیگ ن کا ہے۔
مگر مجھے افسوس ہوگا کہ بہت سے اڑنے والے پرندوں کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں جو وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے اعتماد کو بھی بڑی ٹھیس پہنچائیں گے اور طوطا چشم ثابت ہونگے۔مسئلہ یہ نہیں ہے کہ بالا افراد کو مسلم لیگ ن میں شامل نہیں کرنا چاہئےتھا،بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ بالا افراد سے محتاط رہتے ہوئے انہیں اگلی صفوں میں گھسنے نہیں دینا تھا۔جو لوگ موثرترین وزارتوں اور اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبوں کے باوجود بھی اڑان بھرنے کو تیار ہیں تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کی فطرت میں وفاداری بدلنا سرایت اختیار کرگیا ہے۔آج ان افراد کے چھوڑنے سے مسلم لیگ ن کو کوئی فرق نہیں پڑنا تھا۔اگر یہ اہم وزارتوں اور عہدوں کا مزہ نہ لوٹ رہے ہوتے۔سیاسی جماعتوں کی مضبوطی وفادار افراد ہوتے ہیں۔مگر بدقسمتی ہے کہ مسلم لیگ ن نے وفادار دوستوں کے بجائے اڑنے والے پرندوں پر توکل کیا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ آج بھی مسلم لیگ ن کی مضبوطی چوہدری نثار علی خان،خواجہ آصف،خواجہ سعد رفیق،پرویز ملک،احسن اقبال،رانا ثنا اللہ،خرم دستگیر،رانا تنویر جیسے وفادار لوگ ہیں۔باقی جن چند گھرانوں کے میں نے نام لئے ہیں،یہی لوگ مسلم لیگ ق کا شیرازہ بکھرنے کے وقت آگے آگے تھے اور آج یہی مسلم لیگ ن کے ساتھ کررہے ہیں۔ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہئے،ہمارے اداروں نے گزشتہ چا ر سالوں کے دوران جو روایا ت متعارف کرادی ہیں۔اس کے آنے والے سالوں کے دوران بہت خوفناک نتائج برآمد ہوں گے۔

تازہ ترین