تین چار دہائیوں کے دوران دنیا بھر میں پیسہ کمانے کی غرض سے لوگوں کا امیر ملکوں کی طرف نقل مکانی کا رجحان تیزی سے بڑھا ہے۔ موقع پرست عناصر نے جو ایسی صورت حال کی تاک میں رہتے ہیں، دیکھتے ہی دیکھتے انسانی اسمگلنگ کے بین الاقوامی گروہ بنا لیے اور لاکھوں غریب افراد سے پیسے بٹورکر ایک طاقتور بین الاقوامی مافیا وجود میں آگیا۔ یہ لوگ قیمتی انسانی جانوں سے کھیلنے میں کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں۔ اس کی ایک مثال گزشتہ ماہ تربت بلوچستان میں رونما ہونے والا 20افراد کے اندوہناک قتل کا واقعہ ہے ۔اس طرح کے واقعات اکثر غریب ملکوں میں رونما ہوتے رہتے ہیں جو ایک لمحہ فکریہ ہے اگر اس سے نمٹا نہ گیا تو مستقبل میں حالات کوئی بھی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی ایک رپورٹ کے مطابق اس نے رواں سال کے دوران انسانی اسمگلنگ کے 1153مقدمات درج کر کے 357افرادکو گرفتار کیا جبکہ اسی سال مختلف ملکوں سے انسانی اسمگلنگ میں ملوث 1877افراد کو وطن واپس بھیجا گیا۔ لیکن حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ یہ تعداد انتہائی کم اور غیر تسلی بخش ہے۔ اس وقت لاکھوں کی تعداد میں انسانی اسمگلر دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں ان کا نیٹ ورک اس قدر مربوط ہے کہ یہ لوگ جہاں کہیں خطرہ بھانپتے ہیں آسانی سے دوسرے ملک منتقل ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا انہیں قابو کرنا کسی ایک ملک کے بس میں نہیں۔ اگرچہ انٹرنیشنل ٹاسک فورس کا دعویٰ ہے کہ ہمارے درمیان رابطے مستحکم ہونے کی وجہ سے گزشتہ تین برس کے دوران17 ہزار سے زیادہ اسمگلنگ کے واقعات کو ناکام بنایا گیا لیکن دنیا بھر میں روزانہ کی بنیاد پر اس سے کئی گنا زیادہ افراد اسمگل کئے جا رہے ہیں۔ بیشتر ملکوں میں لاکھوں کی تعداد میں غیر قانونی تارکین وطن جیلیں کاٹ رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی آئے دن مختلف ملکوں سے غیر قانونی تارکین وطن کو واپس بھیجا جاتا ہے۔ ضرورت ہے کہ عالمی ادارے کی جانب سے مکمل سوچ بچار کے بعد انسانی اسمگلنگ روکنے کیلئے جلد از جلد مشترکہ لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔