• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے دنوں اعلیٰ عدلیہ نے نواز شریف صاحب کو نااہل قرار دیا اور کہا کہ وہ نا ہی صادق اور نا ہی امین ہیں۔ فیصلے میں ایک فاضل جج نے یہ پیارا شعر لکھا:
اِدھر اُدھر کی نا بات کر، یہ بتا کہ قافلہ کیوں لُٹا
مجھے راہزنوں سے گلہ نہیں، تری رہبری کا سوال ہے
نواز شریف صاحب اس گمان میں تھے کہ اب ان کو کوئی نہیں ہٹا سکتا اور نا ہی ان کے سامنے کھڑا ہوسکتا ہے۔ مجھے تعجب ہوتا ہے کہ انھوں نے کبھی سنجیدگی سے بیٹھ کر یہ کیوں نا سوچا کہ ان کے ساتھ یہ تیسری بار کیوں ہوا ہے۔ پہلے دو چار اشعار رہبر اور راہزن سے متعلق پیش کرنا چاہتا ہوں۔
کیا جانے رہنما کو بُری کس لئے لگی
رَہرو تو کر رہے تھے کسی راہزن کی بات
اور
کارواں کے سب مسافر سوچتے ہیں شام سے
صبح دم کس سمت میر کارواں لے جائے گا
اور
رہزنوں سے تو بھاگ نکلا تھا
اَب مجھے رہبروں نے گھیرا ہے
اور تین ہفتوں سے زیادہ لاکھوں عوام کی زندگی جو دھرنوں سے اور حکمرانوں کی نااہلی سے اجیرن کردی گئی تھی ہے اس پر کچھ تُک بندی کی ہے۔
اِدھر اُدھر کی نا بات کر ، یہ بتا کہ دھرنا کیوں ہوا؟
مجھے احتجاجیوں سے گلہ نہیں، تیری اہلیت کا سوال ہے
JIT میں جس طرح میاں صاحب اور ان کے اہل خانہ30،30 گاڑیوں کے قافلوں میں آئے وہ دیکھ کر سر شرم سے جھک گیا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ کسی استقبالیہ میں شرکت کرنے جارہے ہیں۔ انھیں یہ خام خیالی تھی کہ ان کو دیکھ کر JIT کے ممبران اُٹھ کر استقبال کرینگے۔ چائے کافی پیش کرینگے معذرت کرینگے کہ ان کو تکلیف ہوئی اور باہر تک چھوڑنے آئینگے۔ یہ خام خیالی ان کو اور ان کے ساتھیوں کو بہت مہنگی پڑی۔ عدلیہ نے پہلے ہی جرم (اقامہ) پر نااہل قرار دیدیا۔ وجہ یہ کہ ایک ملک کا وزیر اعظم کسی غیرملکی کمپنی کا تنخواہ دار یا بلا تنخواہ ملازم نہیں ہوسکتا۔ دراصل اقامہ اس لئے لیا جاتا ہے کہ انسان کو وہاں شہریوں کی طرح سہولتیں مل جاتی ہیں آپ بنک اکائونٹ کھول سکتے ہیں اس کو استعمال کرسکتے ہیں، سیدھے سادھے الفاظ میں بزنس مین منی لانڈرنگ کرسکتے ہیں۔ عام تاثر (اور یقین) یہی ہے کہ اس کمپنی کے ذریعہ بھاری رقوم لندن ٹرانسفر کرائی گئی ہیں جس طرح متحدہ کے کارندوں نے اپنے قائدکو دبئی سے بھاری رقوم روانہ کی تھیں۔ اگر لندن کی رقم جائز تھی تو آمدنی اور خرچ کا حساب کتاب صاف شفاف ہونا چاہئے اور اکائونٹس کی کتابوں پر چارٹرڈ اکائونٹنٹس کے دستخط ہونے چاہئیں۔ رقم وہاں گئی اور جائدادیں خریدی گئی تھیں۔ اربوں روپیہ آسمان سے نہیں ٹپکا تھا۔کیس ہوا، نااہلی ہوئی مگر خاموشی نہیں ہوئی۔ کوئی پاکستانی یہ تصور نہیں کرسکتا تھا کہ ملک کا تین مرتبہ کا وزیر اعظم اس قدر کم عقلی کا ثبوت دے گا۔ ان کے ساتھیوںنے عدلیہ کے خلاف اعلان جنگ کردیا۔ نہایت گندی زبان استعمال کی اور عدلیہ کے بارے میں نہایت نامناسب الفاظ استعمال کئے۔ ہمیں ابھی جناب یوسف رضا گیلانی کے نااہلی کے واقعات یاد ہیں انھوں نے باعزت طریقہ سے عدلیہ کا فیصلہ قبول کیا اور گھر چلے گئے مگر میاں صاحب نے جو بار بار کہا کہ مجھے کیوں نکالا تو لوگ سخت برہم ہوگئے۔
اب آپ کے دعوئوں کے مطابق آپ کے اوپر ایک روپیہ کی رشوت کا ثبوت نہیں ملا، اگر یہ بات صحیح ہے توپھر احتساب عدالت کیا کس چیز کی جانچ پڑتال کررہی ہے۔ عدلیہ اگر چاہتی تو ناجائز اثاثوں کی بنیاد پر چھٹی کردیتی مگر انھوں نے نہایت مناسب اقدام اُٹھایا کہ JIT سے انکوائری کرائی اور ان کی سفارش پر کیس احتساب عدالت کو بھیجا جہاں ثبوت کی بنیاد پر میاں صاحب اور ان کے اہل خانہ پر فرد جرم لگائی گئی ۔ اب کہہ ر ہے کہ اقامہ پر ہٹایا، رشوت ثابت نہیں ہوئی، اگر رشوت کے ٹھوس ثبوت نہ ہوتے تو فرد جرم کیسے لگتی؟ یہ لوگ ایسے بااثر اعلیٰ مقامات پر براجمان ہیں اور ناقابل فہم باتیں کرتے ہیں۔جہاں تک عوام کی عدالت کے ناقابل عمل نعرے کا تعلق ہے تو پھرکئی سیاسی جماعتوں کے جلسوں اور حالیہ دھرنے میں جو عدالتیں لگی تھیں وہ آپ کی عدالتوں سے بہت بڑی تھیں اور ان کا تو یہ فیصلہ ہے کہ آپ نااہل ہیں۔
اس تمام مسئلے میں سب سے زیادہ نااہلی کا ثبوت وزیر داخلہ اور زاہد حامد نے دیا۔ وزیر داخلہ نےتمام الزام اسلام آباد ہائی کورٹ پر ڈالنے کی کوشش کی۔ اپنی نااہلی دوسروں پر ڈالنا ان کی جماعت کا وطیرہ ہے۔ دونوں نے ضد کی اور معاملے کو حد سے بڑھ جانے دیا۔ جناب ظفرالحق نے صحیح مشورہ دیا تھا کہ ان کو مستعفی ہوجانا چاہئے تھا۔ میں راجہ صاحب کو چالیس برس سے جانتا ہوں کہوٹہ کے رہائشی ہیں اور ہمارے بہت اچھے تعلقات ہیں، ایماندار ہیں ،راست گو ہیں، نرم مزاج ہیں۔ جھوٹ بولنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ان ہی کمزوریوں اور خرابیوں کی وجہ سے وزارت نہیں ملی صرف نمائشی تحفہ صدارت دیدیا گیا جو برادرم جاوید ہاشمی کو دیدیا گیا تھا ان کے وہی نقائص ہیںجو راجہ صاحب میں ہیں اور اسی وجہ سے ہمیشہ راندہ درگاہ رہے ہیں۔
اب مسئلہ ختم نبوت کا ہے۔ میرے خیال میں رتی برابر شک نہیں کہ یہ دانستہ اقدام تھا اور کسی کو خوش کرنے کیلئے کیا گیاتھا۔ اس میں وزارت قانون کے علاوہ دوسرے چند وزراء بھی شامل ہوسکتے ہیں ۔ ہر پڑھا لکھا سمجھدار شخص جانتا ہے کہ دستور میں تبدیلی کے لئے جو ڈرافٹ بنتا ہے وہ نہایت احتیاط سے بنتاہے۔ ایک افسر جو ماہر قانون ہوتا ہے وہ ڈرافٹ بنا کر سیکریٹری اور پھر وزیر سے منظوری لیتاہے۔ پھر کیبنٹ اسکی منظوری دیتی ہے پھر اسپیکر اور چیئرمین کے پاس جاتا ہے ان کا فرض ہے کہ وہ اصلی اور تبدیل کئے گئےمتن کا مقابلہ کریں اور منظوری یا نامنظوری دیں۔ افسوس کہ پوری کوشش کی گئی تھی کہ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر یہ منظور کرالیا جائے اورکسی کی خوشنودی حاصل کرلی جائے۔ جس طرح اللہ رب العزت نے قرآن کی عزّت و عظمت و حفاظت کا عندیہ دیا ہے اسی طرح یقیناً اس نے ناموس رسالت کی حفاظت کی ذمّہ داری لی ہے۔ تعجب یہ ہوتا ہے کہ جو لوگ پہلے ہی مشکل میں ہیںوہ اس قسم کی حرکات کرنے کی جرأت کررہے ہیں حقیقت یہ ہے کہ واقعی جس کو اللہ تباہ کرنا چاہتا ہے وہ اسکی عقل سلب کرلیتا ہے، دماغ ماعوف کردیتا ہے۔ ان کو مردم شناسی کی اہلیت چھو کر نہیں گزری۔ احسن اقبال کو وزیر داخلہ بنا کر غلطی کی گئی ہے جبکہ ان کو پلاننگ کا وزیر بھی بنا دیا گیاہے۔ جبکہ سرتاج عزیز سو گنا زیادہ تجربہ کار، تعلیم یافتہ ہیں وزیر خزانہ اور وزیر خارجہ رہ چکے ہیں۔ وزیر اعظم خود پلاننگ ڈویژن کے سربراہ ہوتے ہیں۔ ان کی موجودگی میں احسن اقبال کو بنانا وہی اسحق ڈار کے تسلسل کی کڑی ہے۔ میرے خیال میں نواز شریف کے مقابلہ میں شہباز شریف زیادہ سمجھدارہیں انھوں نے تصادم کا مشورہ دینے والوں کے خلاف کھل کر بات کی تھی اور موجودہ مسئلہ کے بارے میں بھی کہا تھا کہ مجرموں کو سزا دی جائے۔ اگر زاہد حامد معذرت کرکے استعفیٰ دیدیتے تو بہت عزت برقرار رہتی۔
(نوٹ) مورخہ 4؍دسمبر کے کالم میں لفظ فتح مند کی بجائے غلطی سے لفظ فتس مند ٹائپ ہوگیا تھا جس کی تصحیح کرلی جائے۔

تازہ ترین