• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خرید فروخت کیلئے ادائیگی کا نظام انسانی تاریخ جتنا قدیم ہے۔ سب سے پہلے اشیاء کے بدلے اشیاء کا تبادلہ کیا جاتا تھا جس کو بارٹر سسٹم کہتے تھے لیکن اس طریقے میں ان وزنی اشیاء کو لئے پھرنا اور ان کا مناسب گاہک تلاش کرنا ایک مشکل کام تھا لہٰذا یہ سوچا گیا کہ خرید و فروخت کی ادائیگی کی کرنسی ہلکی اور قیمتی ہونا چاہئے اور اس کیلئے سونا اور چاندی کو اپنایا گیا جس کے ساتھ سستی چیزیں خریدنے کیلئے دیگر دھاتوں کی ریزگاری استعمال کی جاتی تھی جو سونے چاندی کے درہم کا ایک متناسب حصہ ہوتی تھی لیکن سونا چاندی کی کرنسی میں سیکورٹی کے مسائل درپیش تھے لہٰذا لوگوں نے یہ سکے صرافہ بازار میں جمع کراکے اس کی رسیدوں سے خرید و فروخت شروع کی جس سے بینکنگ نظام وجود میں آیا مگر ان رسیدوں کے پیچھے اتنا ہی سونا گارنٹی کے طور پر موجود ہوتا تھا۔ پھر نظریہ ضرورت کے تحت سونے کی مقدار کم کی جانے لگی اور 1971ء میں امریکہ نے ڈالر کے بدلے مساوی سونا رکھنے کی شرط ختم کردی اور اس طرح یہ رسیدیں نوٹ اور کرنسی کی شکل اختیار کرگئیں۔ یہ پیپر کرنسی جس کے پیچھے مرکزی بینک میں اب حقیقتاً سونا نہیں بلکہ حکومتی ضمانت ہے اس کی قیمت مقرر کرتی ہے۔ دنیا میں زیادہ تر ادائیگیاں ڈالر اور یورو میں کی جاتی ہیں اور زیادہ تر مرکزی بینک اپنے زرمبادلہ کے ذخائر ڈالر اور یورو میں رکھتے ہیں لیکن دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین امریکہ اور یورپ کی اقتصادی چوہدراہٹ ختم کرنے کیلئے 20 ممالک کے تعاون سے ایک نئے بینک کا قیام عمل میں لایا ہے جس کے ذریعے اب زرمبادلہ کے ذخائر چینی اور دیگر کرنسی میں بھی رکھے جاسکیں گے۔
قیام پاکستان کے وقت ایک ڈالر 4 روپے کا تھا جو اب 106 روپے سے تجاوز کرگیا ہے کیونکہ روپے کی قدر مسلسل گررہی ہے۔ بیرون ملک سفر کے دوران کرنسی ساتھ لے کر چلنے کے بجائے سہولت اور سیکورٹی کے پیش نظر پلاسٹک منی متعارف کرائی گئی جس کی مثال کریڈٹ کارڈز ہیں جن کی مدد سے اب دنیا بھر میں مخصوص رقم تک شاپنگ، ہوٹلز کے بل اور دیگر اخراجات کی ادائیگی کی جاسکتی ہے۔ کریڈٹ کارڈ کو محفوظ بنانے کیلئے اب خصوصی پن کوڈ والے اسمارٹ کارڈز متعارف کرائے گئے ہیں جن کا کوڈ صرف کارڈ ہولڈر کے علم میں ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود کریڈٹ کارڈ کی تفصیلات چوری کرکے اس کے غلط استعمال کے واقعات اور سائبر کرائمز میں اضافے کے باعث اب پے پال، آن لائن پیمنٹ اور ای کامرس کے ذریعے پیمنٹ کا نظام فروغ پارہا ہے جس میں کارڈ ویری فکیشن نمبر (CVN) کے ذریعے پیمنٹس کو محفوظ بنایا گیا ہے۔
منی لانڈرنگ کو روکنے کیلئے دنیا بھرمیں سخت اقدامات کئے گئے ہیں جس کی وجہ سے اب بینکوں کے ذریعے رقوم کی منتقلی مشکل بنتی جارہی ہے۔ حال ہی میں یورپی یونین نے یو اے ای اور بحرین سمیت کئی ممالک کو منی لانڈرنگ کے سلسلے میں بلیک لسٹ کیا ہے۔کمرشل بینک رقوم بھیجنے اور وصول کرنے والے کی تفصیلات اور رقوم بھیجنے کا مقصد پوچھنے کے مجاز ہیں۔ مرکزی بینک بڑی رقوم کی ٹرانزیکشنز کی مانیٹرنگ کرتے ہیں اور شک و شبے کی بنیاد پر بھیجی جانے والی رقوم منجمد یا جانچ پڑتال کیلئے روک لی جاتی ہیں جو یقیناً تاخیر کا سبب بنتاہے۔ انہی مشکلات کے پیش نظر اور کرنسیوں کی قدر میں اتار چڑھائو کے رسک کم کرنے کیلئے ستوشی نکوموتو نے اکتوبر 2008ء میں ایک سوفٹ ویئر Blockchain ٹیکنالوجی کے ذریعے دنیا کی پہلی ڈیجیٹل الیکٹرونک کرنسی ’’بٹ کوائن‘‘ متعارف کرائی جو 3 جنوری 2009ء سے آن لائن ہوئی۔ بٹ کوائنز کمپیوٹر کے ذریعے حسابات سے پیدا کئے جاتے ہیں جس کو Mining کہتے ہیں اور یہ کام Miners انجام دیتے ہیں۔ ڈیجیٹل کرنسی میں کسی بینک کی مداخلت نہیں ہوتی، اسی وجہ سے بٹ کوائن دنیا میں تیزی سے مقبول ہورہی ہے۔ دنیا کے کچھ شہروں میں اب بٹ کوائن سے پیزا اور دیگر معمولی اشیاء بھی خریدی جاسکتی ہیں۔فروری 2015ء تک ایک لاکھ سے زیادہ مرچنٹس نے بٹ کوائن میں سرمایہ کاری کی لیکن کیمبرج یونیورسٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق 2017ءکے اختتام تک 30لاکھ مرچنٹ بٹ کوائنز استعمال کرسکیںگے۔ اس وقت مارکیٹ میں 16 ملین بٹ کوائنز مارکیٹ میں گردش کررہے ہیں جس کی مارکیٹ ویلیو 315 بلین ڈالر سے تجاوز کرگئی ہے جو ڈزنی، وال مارٹ اور ویزا کی ویلیو سے زیادہ ہے جبکہ 2040 ء تک زیادہ سے زیادہ 21 ملین بٹ کوائنز پیدا کئے جاسکیں گے جس سے بٹ کوائنز کی طلب میں مزید اضافہ ہوگا۔ 2001ء میں جب بٹ کوائن متعارف کرایا گیا تھا تو اس کی قیمت ایک ڈالر تھی جو 29 نومبر کو بڑھ کر 10,740 ڈالر اور گزشتہ ہفتے 16,000 ڈالر تک پہنچ گئی۔ اس کی ویلیو میں مسلسل اضافہ سرمایہ کاروں کیلئے پرکشش ہے۔ بٹ کوائن کی ویلیو کا انحصار سرمایہ کاروں کی سپلائی اور ڈیمانڈ پر ہے لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک صبح جب آپ اٹھیں تو 16 لاکھ روپے میں خریدے گئے بٹ کوائن کی قیمت نصف رہ جائے۔ منی لانڈرنگ کے خدشات کے پیش نظر امریکہ اور چین نے بٹ کوائن پر پابندی عائد کردی ہے اور پاکستان اور بھارت میں بھی بٹ کوائنز پر پابندی لگائی جاسکتی ہے۔ بٹ کوائنز کی ٹرانزیکشن خفیہ ہوتی ہیں اور اس کی کوئی منی ٹریل نہیں ہوتی جس کی وجہ سے اس کی ٹرانزیکشن کو ٹریس نہیں کیا جاسکتا۔
نئی ڈیجیٹل انٹرنیٹ کرنسی ’’بٹ کوائن‘‘ (CryptoCurrency) پر میرا آج کا کالم بے شمار قارئین کو ایک فکشن لگے گا لیکن دنیا میں ٹیکنالوجی میں تیزی سے انقلاب آرہا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے دور میں جب ایپل آئی فون اور دیگر اسمارٹ فونز متعارف ہوئے تو بلیک بیری نئی ٹیکنالوجی نہ اپنانے کی وجہ سے میوزیم کا حصہ بن گیا۔ Nokia موبائل فون کی دنیا میں بے تاج بادشاہ تھا لیکن اسمارٹ فون کی جدید ٹیکنالوجی نہ اپناکر اپنا مارکیٹ شیئر کھوبیٹھا اور اس کی جگہ آئی فون اور اسمارٹ فون نے لے لی ہے۔اوبر (Uber) ایک سوفٹ ویئر ہے اور اوبر کمپنی اپنی کاریں اور ڈرائیور نہ ہونے کے باوجود آج دنیا کی سب سے بڑی ٹیکسی کمپنی ہے۔ Airbnp بغیر ہوٹلوں کے دنیا کی سب سے بڑی ہوٹل کمپنی بن چکی ہے۔ Amazon.com کی آن لائن سیل کسی ڈپارٹمنٹل اسٹور کے بغیر اربوں ڈالر پہنچ چکی ہے جس کی وجہ سے دنیا کے بڑے ڈیپارٹمنٹل اسٹورز وال مارٹ اور کے مارٹ کی سیل اور توسیع پلان متاثر ہوئے ہیں۔ 2020ء سے بجلی سے چلنے والی Teslaکاریں سڑکوں پر جگہ لے لیں گی جس سے دنیا میں ڈیزل اور پیٹرول کی طلب اور کھپت میں نہایت کمی آئے گی لہٰذاکوئی بعید نہیں کہ بٹ کوائن مستقبل میں دنیا کی ڈیجیٹل کرنسی بن جائے جس کی کوئی سرحد نہیں اور نہ ہی اس پر بینکوں کے ضابطوں کا اطلاق ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ معاشی پابندیوں کے زمرے میں بٹ کوائن کی سرمایہ کاری اور اکائونٹس کو منجمد نہیں کیا جاسکتا۔ دنیا کے مرکزی بینکس بٹ کوائن کے استعمال پر خوش نہیں کیونکہ ان کا اس کی ٹرانزیکشن پر کوئی کنٹرول نہیں۔ بٹ کوائن ابھی تدریج کے مراحل میں ہے لہٰذا بٹ کوائن پر معلومات کو میری سفارشات ہرگز نہ سمجھا جائے۔ میرے نزدیک بٹ کوائنز میں سرمایہ کاری یقیناً ایک رسک ہے۔ میں کراچی چیمبر کے سابق صدر اور اپنے دوست انجم نثار کا مشکور ہوں کہ انہوں نے بٹ کوائن پر کالم لکھنے کی درخواست کی اور اس نئی کرنسی پر مجھے کچھ معلومات فراہم کیں۔

 

تازہ ترین