• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے معاشی حالات میں تو قومی توقعات کے مطابق زیادہ بہتری نہیں ہورہی، البتہ سیاسی حالات اور سیاسی گرما گرمی میں دن بدن درجہ حرارت بڑھتا جارہا ہے،ایسے میں امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے اعلان نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے، جس سے پاکستان کے سیاسی سے زیادہ سماجی حالات مزید متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔ ایسی صورتحال پیدا ہوئی تو پاکستان میں داخلی طور پر معاشی سرگرمیوں پر مزید منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں جس کے لئے قوم کو ہر لحاظ سے تیار رہنا ہوگا۔ ویسے بھی اب جس طرح سیاسی حالات بدلتے جارہے ہیں اس میں اللہ کی شان دیکھئے کہ آصف علی زرداری اور علامہ طاہر القادری کا اتحاد ، اب پاکستان کی سیاست میں یہ دن بھی آنے تھے۔ اس بات کا کریڈٹ یقیناً مسلم لیگ(ن) اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور و زیر اعلیٰ میاں شہباز شریف اینڈ کمپنی کو جاتا ہے، وہ یہ بات مانیں یا نہ مانیں، ملک میں سیاسی بدمزگی اور بدشگونی کی ذمہ داری انہیں کبھی نہ کبھی تو تسلیم کرنا پڑے گی۔ شریف خاندان اور ان کی مسلم لیگ ن تو ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ کی بہترین چوائس ہوا کرتی تھی۔ اب یہ سارے امکانات خود شریف فیملی ختم کرتی جارہی ہے، پتہ نہیں کون سے مشیران انہیں گرائونڈ سے باہر نکالتے جارہے ہیں، جس کے نتیجے میں حالات بتارہے ہیں کہ 2018کی پہلی سہ ماہی میں ایک اور نگراں حکومت بن جائے، جو 1990کے بعد سے اب تک بننے والی ساتویں نگران حکومت ہوگی، جن میں 6اگست 1990سے 6 نومبر 1990تک غلام مصطفیٰ جتوئی، 18 اپریل 1993 سے 26مئی 1993 میر بلخ شیر مزاری، 18جولائی 1993 سے 19اکتوبر 1993 معین قریشی، 5 نومبر 1996 سے 17فروری 1997 ملک معراج خالد، 16 نومبر 2007 سے 25مارچ 2008تک محمد میاں سومرو، 25 مارچ 2013سے 5 جون 2013 میر ہزارخان کھوسو نگران وزیر اعظم کے طور پر رہے۔ اب نئے نگراں وزیر اعظم کے لئے کئی ناموں کی تشہیر ہورہی ہے یا کرائی جارہی ہے لیکن اصل نمائندہ یا نگراں وزیر اعظم کا نام منظر عام پر نہیں آرہا ہے، البتہ انہیں غیر ملکی سفر کے حوالے سے آگاہ کردیا گیا ہے کہ وہ چند ہفتے تک اسلام آباد سے رابطے میں رہیں اور کوشش کریں کہ اپنی دس نکاتی تقریر کا مسودہ بھی تیار کرلیں، جس میں عام انتخابات کو کسی بھی مناسب وقت پرامن ماحول کی موجودگی کی صورت میں غیر مصنفانہ اور شفاف کرانے کی واضح یقین دہانی شامل ہو۔ ایسے کاموں کے لئے پاکستان میں 65سے 70سال کی کئی بزرگ شخصیات ہمہ وقت نئی شیروانی سلوا کے رکھتی ہیں، جن کی مختلف اداروں میں پہلے سے رسائی حاصل ہوتی ہے اور عالمی سطح پر کچھ نہ کچھ لوگ انہیں ضرور جانتے ہیں۔ اس حوالے سے یہ بھی سوچا جارہا ہے کہ ایک اور شوکت عزیز یا معین قریشی نا سہی، مگر اس سطح کی کسی شخصیت کو جو اس وقت اندرون ملک یا بیرون ملک جہاں بھی ہو، اسے یہ ذمہ داری ادا کرنے کے لئے کہا جائے، جس کو دنوں کی گنتی پر کوئی یقین نہ ہو، بس وہ پکا محب الوطن ہو، نگراں حکومتوں کا سیٹ اپ پاکستان میں مختلف جمہوری ممالک کے ان امور سے مختلف ہوتا ہے اور یہاں ویسٹ سینٹر سسٹم کی طرح نگراں نہیں بنتا، دیگر ممالک میں جب پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کی تحریک کی ووٹنگ کے دوران حکومت کو شکست ہوجائے تو وہ ایوان خود بخود ٹوٹ جاتا ہے اور پھر اسی پارلیمنٹ میں پہلے سے منتخب اراکین پر مشتمل نگراں حکومت نئے انتخابات اور انتقال اقتدار تک کام کرتی ہے۔ پاکستان میں تو اسمبلیاں اور ادارے ختم ہوجاتے ہیں اور نگراں سیٹ اپ اپنی نگرانی میں نئے انتخابات کراتا ہے جو غیر منتخب ہوتی ہے جس پر بعد میں ’’مانوں یا میں نہ مانوں‘‘ کی کبھی ختم نہ ہونے والی بحث اور سیاسی لڑائی جھگڑے کا آغاز ہوجاتا ہے۔ اب دیکھتے ہیں ساتویں نگراں حکومت کب اور کیسے بنتی ہے۔ بہرحال باہمی مشاورت سے ہر چیز تیاری کے حتمی مراحل میں ہے۔ اب کی بار اس بات کی احتیاط کی جارہی ہے کہ 2013کی طرح کا ایسا سیٹ اپ نہ بنایا جائے جس کے باعث یہ الیکشن متنازع ہونے کے حوالے سے ایک نئی تاریخ رقم کرگئے۔ اب جب کبھی بھی الیکشن ہوں گے اس بارے میں احتیاط کی ضرورت ہے کہ اس سے ایک تو ملکی سلامتی کے لئے کوئی خطرات پیدا نہ ہوں اور دوسری طرف اس پر سول سوسائٹی تمام سیاسی قیادت سمیت تمام اداروں کو اعتماد حاصل ہو تاکہ وہ حکومت 120دن یا لاتعداد دن تک ملک میں کم از کم معاشی حالات کی بہتری پر توجہ دے سکے۔ اس لئے کہ معاشی ترقی اور خوشحالی سے ملکی سلامتی کو مزید مضبوط بنانے میں ہمیشہ مدد ملتی ہے بشرطیکہ وہ معاشی ترقی کرکے ذاتی مقاصد کے لئے ملک و قوم کی بہتری کے ایجنڈے پر مشتمل ہو۔

تازہ ترین